نفس کی پستی کا علاج کے عنوان سے پچیسویں باب میں حکمت نمبر 241 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
صفات خداوندی کا استحضار ہی نفس کی پستی سے نکال سکتا ہے جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے :-
241) لا يُخْرِجُكَ عَنِ الوَصْفِ إِلاَّ شُهُودُ الوَصْفِ .
تم کو وصف سے وصف کے شہود کے سوا کوئی غمی نہیں نکالتی ہے۔ لہذ ا تم کو تمہارے نفس کے برے اوصاف سے اللہ تعالیٰ کے عظیم اوصاف کا شہود ہی نکال سکتا ہے۔ اور تم کو تمہارے نفس کی پستی سے صرف تمہارے رب تعالیٰ کے کرم کا شہو د ہی نکال سکتا ہے۔ اور تم کو تمہارے حادث اوصاف کے شہود سے تمہارے رب تعالیٰ کے قدیم اوصاف کا شہود ہی نکال سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے فعل کے شہود سے اپنے فعل کے شہود کے ذریعے ، اور تمہاری صفات کے شہود سے اپنی صفات کے شہود کے ذریعے، اور تمہاری ذات کے شہود سے اپنی ذات کے شہود کے ذریعے نکالتا ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ حضرت قطب ابن مشیش رضی اللہ عنہ سے محبت کی حقیقت دریافت کی گئی اُن سے اُن کے مرید حضرت ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔ تو انہوں نے فرمایا:۔ محبت ، جمال کا نور، اور جلال کا قدس ظاہر ہونے کے وقت قلب کا انہیں حاصل کرنا ، اور چمک جاتا ہے ۔ اور شرب اوصاف کا اوصاف کے ساتھ ، اور اخلاق کا اخلاق کے ساتھ ، اور انوار کا انوار کیسا تھ اور اسماء کا اسما ، کیساتھ اور افعال کا افعال کے ساتھ مل جانا ہے۔
لہذا بندہ جب تک اپنے رب تعالیٰ کے اوصاف عظیم کا مشاہدہ نہیں کرتا ہے۔ اُس وقت تک اُس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ اپنے نفس کے برے اوصاف سے بالکل نکل جائے ۔ اور یہ کبھی اُس کے مجاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور کبھی اُس کو اُس کے اوپر عروج و نزول کے درمیان حاصل ہوتا ہے۔ بخلاف اس حال کے کہ جب وہ اپنے رب کے اوصاف کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ تو وہ اپنے نفس سے غائب ہو جاتا ہے۔ اور اُس کا محبوب حقیقی اُس کا متولی ہو جاتا ہے اور وہ اُس کا کان ، اور اُس کی آنکھ، اور اُس کا ہاتھ ، اُس کا پاؤں اُس کا مددگار بن جاتا ہے ۔ لہذا وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصرف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔
و من يعتصم باللَّهِ فَقَدْ هُدِى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ) جو شخص اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑتا ہے ۔ تو اُس کی رہنمائی سیدھے راستے کی طرف کی جاتی ہے۔
اور اسی مفہوم میں عارفین کے حسب ذیل اشعار ہیں ۔۔۔
إِذَا حُزتَ الْفَخَارَ فَلا تبال بنقص فِي الْجِبلَّة أو كمال
جب تم نے قابل فخرشے حاصل کرلی تو تم پیدائش میں نقص یا کمال کی پرواہ نہ کرو ۔
فَمَا الثَّانِيتُ فِي اسْمِ الشَّمْسِ نَقُصُّ وَلَا التَذْكِيرُ فَخُرٌ فِي هِلَالٍ
سورج کا نام مونث استعمال کرنا، اس کے لئے کوئی عیب نہیں۔ اور چاند کے مذکر کہنے میں اُس کے لئے کوئی فخر نہیں ہے۔
عارف شاعر اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ۔ جب فنافی الذات اور بقا باللہ ثابت ہو گئی تو نفس کے لئے نہ کوئی نقص باقی رہتا ہے، نہ کمال ۔ بلکہ سب کمال صرف اللہ بزرگ و برتر کےلئے ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی