نمازآنکھ کی ٹھنڈک کے عنوان سے تیسرے مراسلے کا تیسراحصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھی۔ نماز کے ساتھ نہیں تھی تو ایک بحث کرنے والے نے ان سے بحث کی ۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بحث کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔
قَالَ لَهُ سَائِلٌ : قَدْ تَكُونُ قُرَّةُ الْعَيْنِ بِالصَّلَاةِ لَانَهَا فَضْلٌ مِّنَ اللَّهِ وَبَارِزَةٌ مِنْ عَیْنِ مِنَّةٍ اللَّهِ ، فَكَيْفَ لَا يَفْرَحُ بِهَا وَكَيْفَ لَا تَكُونُ قُرَّةُ الْعَيْنِ بِهَا وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: – فَبِذَالِكَ فَلۡيَفۡرَحُواْ
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) سے ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا ۔ بیشک نما ز آنکھ کی ٹھنڈک ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا سر چشمے سےظاہر ہوئی ہے۔ تو حضرت محمد ﷺ اس سے کیوں نہیں خوش ہوتے تھے؟ اور ان کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز سے کیوں نہیں ہوئی تھی ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ پس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونا چاہیئے میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ بحث کا مضمون حضرت محمد ﷺ کا یہ قول ہے:۔ وَجُعِلَتْ قُرَّةٌ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے یہ بھی ممکن ہے۔ کہ فی ب کے معنی میں ہو ۔ یعنی بالصلاۃ نماز کے ساتھ ۔ یا نمازسے۔ اور نماز خوشی کی وجہ اس لیے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے احسان وکرم سے ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
قُلۡ بِفَضۡلِ ٱللَّهِ وَبِرَحۡمَتِهِۦ فَبِذَٰلِكَ فَلۡيَفۡرَحُواْ آپ فرمادیجیے :۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ، پس لوگوں کو اس سے خوش ہوناچاہیئے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونے کا حکم دیا ہے۔ اور نماز اللہ تعالیٰ کا ایک فضل اور اس کی ایک رحمت ہے۔ لہذا اس سے خوش ہو نا واجب ہے اور آنکھ کی ٹھنڈک کا یہی مفہوم ہے۔
پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے سائل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
اعْلَمُ أَنَّ الْآيَةَ هَذِهِ قَدْ أَوْمَاتَ أَى أَشَارَتْ إِلَى الْجَوَابِ لِمَنْ تَدَبَّرَ سِرَّ الْخِطَابَ ، إِذْ قَالَ – فَبِذَالِكَ فَلْيَفْرَحُوا وَمَا قَالَ: – فَبِذَالِكَ فَافُرَحْ ، يَا مُحَمَّدُ قُلْ لَهُمْ لِيَفْرَحُوا بِالْإِحْسَانِ وَالتَّفَضُّلِ ، وَلْيَكُن فَرْحُكَ أَنْتَ يَا الْمُتَفَضلِ كَمَا قَالَ فِي لَآيَةٍ لا خْرَى قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرُهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
تم یہ جان لو ۔ اس شخص کیلئے جو اس خطاب کے راز میں غور کر لے ، اس آیت کر یمہ ہی کے جواب ہی نے جواب کی طرف اشارہ کر دیا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ پس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہوں ۔ اے محمد آپ ان لوگوں سے فرماد یجئے ، کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے خوش ہوں اور لیکن آپ کی خوشی فضل کرنے والے اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیئے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت کریمہ میں فرمایا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیجئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے وہ اپنے خیال خام میں کھیلتے رہیں
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : – جواب کا مقصد یہ ہے کہ نماز سے آنکھ کی ٹھنڈک حضرت نبی کریم ﷺ کے سواء ان کی امت کے حق میں صحیح ہے اس لیے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی علامت ہے۔ لیکن حضرت محمد ﷺ کی آنکھ کی ٹھنڈک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شی سے نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول اس پر دلیل ہے۔
فَبِذَالِكَ فَلْيَفْرَحُوا پس ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور رحمت سے خوش ہونا چاہیئے
اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: اے محمد ﷺ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے خوش ہوں۔ لہذا اس آیت کریمہ کا خطاب ہی اس بات کی دلیل ہے کہ فضل اور رحمت سے خوشی آنحضرت ﷺ کی امت کیلئے ہے اور حضور انور ﷺ کی خوشی صرف اللہ تعالیٰ سے ہے کسی دوسری شی سے نہیں ہے۔
جیسا کہ سورہ انعام کی آیت کریمہ میں ہے:۔ قلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ رہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیجئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے وہ اپنے وہم وخیال میں کھیلتے رہیں
تحقیق یہ ہے کہ اس کو اس طرح کہا جائے کہ جس شخص نے ربوبیت کے شہود کی نعمت حاصل کرلی اس کی خوشی صرف اپنے محبوب کے شہود میں ہے اس کے سوا کسی میں نہیں خواہ کوئی شے بھی ہو۔
اور جو شخص عبودیت کے مقام میں ہے اور ربوبیت کے انوار کے مشاہدے کا لطف نہیں حاصل کیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت ہی سے خوشی ہوتی ہے۔ اور جس شخص نے ربوبیت کے انوار کے مشاہدے کا ذوق حاصل کر لیا لیکن اس میں ثابت قدمی سے قائم نہیں ہوا اس کی خوشی بھی اللہ تعالیٰ کے شہود سے ہوتی ہے اور کبھی اس کے فضل اور رحمت سے ہوتی ہے۔
لہذا حضرت محمد ﷺ کی امن کا اکا برین یعنی اولیائے عظام کو اللہ تعالیٰ سے اس کے ماسوا کو چھوڑ کر خوشی کا کچھ حصہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اکابرین امت حضرت رسول کریم کی سیر کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے اس لئے کہ حضرت محمد ﷺ کے شہود کے برابر کوئی شہودنہیں ہو سکتا ہے اور اسی طرح ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے مساوی کسی کے آنکھ کی ٹھنڈک نہیں ہو سکتی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ