نور الانوار تک رسائی (باب دوم)

نور الانوار تک رسائی حکمت نمبر31

نور الانوار تک رسائی کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر31 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے واصلین پر علوم کے وسیع ہونے اور سائرین پر نہ ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا کہ واصلین انوار کے مشاہدے کے ساتھ نہیں ٹھہرے بلکہ اس سے گزر کر نور الانوار تک پہنچے، اس کے برعکس سائرین انوار کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ان کے محتاج اور ان کے غلام ہیں جیسا کہ اپنے اس قول میں فرمایا:
31) اهْتَدَى الرَّاحِلُونَ إِلَيْهِ بَأَنْوَارِ التَّوَجُّهِ ، وَالْوَاصِلُونَ لَهُمْ أَنْوَارُ الْمُوَاجَهَةِ ، فَالأَوَّلُونَ لِلأَنْوَارِ ، وَهَؤُلاَءِ الأَنْوَارُ لَهُمْ ؛ لأَنَّهُمْ للهِ لاَ لِشَىْءٍ دُونَهُ {قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِى خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ} .
اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے والے توجہ کے انوارسے ولایت حاصل کرتے ہیں، اور واصلین کیلئے مواجہت کے انوار ہیں، پس سائرین انوار کیلئے ہیں اور انوار واصلین کیلئے ہیں کیونکہ واصلین صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں، اس کے سوا کسی دوسری شے کیلئے نہیں تم کہو ۔ اللہ پھر ان کو انکی فکر میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ۔ توجہ کے انوار اسلام اور ایمان کے انوار ہیں ۔
اور مواجہت کے انوار احسان کے انوار ہیں۔
یا تم اس طرح کہو: توجہ کے انوار : ۔ ظاہری اور باطنی عبادت کے انوار ہیں ۔
اور مواجہت کے انوار فکر ونظر کے انوار ہیں ۔
یا تم اس طرح کہو:۔ توجہ کے انوار : ۔ شریعت اور طریقت کے انوار ہیں۔
اور موا جہت کے انوار : حقیقت کے انوار ہیں۔
یا تم اس طرح کہو : توجہ کے انوار مجاہدہ اور ریاضت کے انوار ہیں ۔
اور مواجہت کے انوار :۔ مشاہدہ اور مکالمہ کے انوار ہیں ۔

تشریح

اس کی تشریح یہ ہے:
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے تک پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اس کی طرف ظاہری عمل کی لذت کے نور کے ساتھ توجہ کرتا ہے اور یہ اسلام کا مقام ہے لہذا وہ عمل کرنے کی ہدایت پاتا ہے اور اس میں مشغول ہو کر اس کی لذت چکھتا ہے۔
پھر اس کی طرف باطنی عمل کی لذت کے نور کے ساتھ توجہ کرتا ہے۔ اور یہ ایمان کا مقام ہے اور باطنی عمل : ۔ اخلاص اور صدق ، اور اطمینان اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور ماسوی اللہ سے نفرت ہے لہذا وہ باطنی عمل کی ہدایت پاتا ہے۔ اور اسمیں مشغول ہو کر اس کی لذت چکھتا ہے۔ اور مراقبہ کے مقام میں قائم ہوتا ہے،
اور یہ نور پہلے نور سے بڑا اور مکمل ہے۔ پھر اس کی طرف مشاہدے کی لذت کے نور کے ساتھ توجہ کرتا ہے اور یہ روح کا عمل ہے ، اور یہ مواجہت کے نور کی ابتداء ہے اور اس وقت اس کو خوف اور حیرت اور سکر ( مد ہوشی ) لاحق ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اپنے سکر کی حالت سے باہر آتا ہے اور اپنے جذب کی حالت سےصحو (ہوشیاری ) کی حالت میں آتا ہے اور شہود کے مقام میں قائم ہوتا ہے اور بادشاہ معبود کی معرفت حاصل کرتا ہے اور بقا کی طرف لوٹتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کیلئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور انوار کا مالک ہو جاتا ہے، اور اس سے پہلے انوار اس کے مالک تھے کیونکہ انوار کی اصل تک پہنچنے سے پہلے وہ ان کا محتاج تھا اور جب واصل تک پہنچ گیا تو وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو گیا ۔ اور ماسوی اللہ سے آزاد ہو گیا ۔ اس کا ظاہر عبودیت ہے اور اس کا باطن آزاد ہے۔ حاصل یہ ہے: مرید جب تک سیر کی حالت میں ہے، وہ توجہ کے انوار سے ہدایت حاصل کرتا ہے اور ان کا محتاج ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ انہی کے ذریعے سیر کرتا ہے اور جب وہ مشاہدہ کے مقام میں پہنچتا ہے تو اس کو مواجہت کے انوار حاصل ہوتے ہیں۔ اور اب وہ کسی شے کا محتاج نہیں رہتا ہے، کیونکہ اب وہ صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے، اور اس کے سوا کسی شے کیلئے نہیں۔
پس سائرین: ۔ انوار کے محتاج ہونے اور ان کے ساتھ خوش ہونے کی وجہ سے انوار کیلئے ہیں ۔
اور واصلین : اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے باعث انوار سے ان کی بے نیازی کی وجہ سے انواران کے لئے ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کیلئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں۔ اور اس کے سوا کسی شے کیلئے ہیں اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اہل اشارہ کے طریقے پر یہ آیت کریمہ تلاوت کی ہے ۔:۔
(قل اللهُ) بِقَلْبِكَ وَرُوْحِكَ وَغِبْ عَمَّا سِوَاهُ اثْمَّ ذَرْهُمْ) أَي النَّاسَ أَیْ اترُكْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ) اى يَخُوضُونَ فِى السّوَى لَاعِبِينَ فِي الْهَوَى
تم کہو:۔ اللہ اپنے قلب اور روح کے ساتھ اور اس کے ماسوا سے غائب ہو جاؤ۔ پھر لوگوں کو چھوڑ دو ۔ وہ ماسوی کی فکر میں خواہشات سے کھیلتے رہیں ۔
بعض مفسرین نے اس آیہ کریمہ کی شہادت حاصل کرنے میں حضرات صوفیائے کرام پر اعتراض کیاہے لیکن انہوں نے ان کا مفہوم نہیں سمجھا ہے:۔ قَدۡ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٖ مَّشۡرَبَهُمۡۖ سب لوگوں نے اپنے پینے کا گھاٹ (اپنا مقام ) معلوم کر لیا ہے۔
حضرت شیخ ابن عباد فرماتے تھے ۔ اہل ظاہر کو اہل باطن پر حجت نہ بناؤ، کیونکہ اہل باطن کی نظر دقیق (باریک بیں ) اور ان کا کلام لطیف ہوتا ہے ان کے اشاروں کو غیر صوفی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ اللہ ہم کو ان سے فیض یاب کرے ۔ اور ہم کو ان کے مسلک میں داخل فرمائے ۔ آمین یہاں دوسرا باب ختم ہوئی
اس باب کا حاصل : ۔ معارف کے آداب و علامات ہیں۔ آداب: آٹھ ہیں ۔ اور علامات: چار ہیں ۔
باب دوم کا خلاصہ
پہلا ادب: ہرشے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ۔
دوسرا ادب ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا
تیسرا ادب: ہرشے سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ میں غائب ہو جانا ۔
چوتھا ادب: اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق پر استدلال کرنا ۔
پانچواں ادب: علوم کی روزیوں کا وسیع ہونا۔
چھٹا ادب سمجھ کے خزانوں کا کھلنا۔
ساتواں ادب : مواجہت کے انوار سے ملنا۔
آٹھواں ادب: اللہ تعالیٰ کے مشاہدے کے ساتھ انوار سے غائب ہو جاناہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تیسرے باب میں تخلیہ اور تحلیہ(آراستہ کرنا) کا بیان فرمایا:


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں