ان احوال کے بیان میں جوهبوط اور نزول کے مقامات کے مناسب ہیں مع پوشیده اسرار کے ۔ اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے:۔
اس حاضر(موجود) غائب(غیر حاضر) واجد(پانے والا) فاقد(نہ پانے) مقبل(متوجہ) معرض(منہ پھیرنے والا) کی یہ عرض ہے کہ بندہ مدتوں سے اس کو ڈھونڈتا تھا تو اپنے آپ کو پاتا تھا۔ اس کے بعد اس کا کام یہاں تک کہ اگر اپنے آپکو ڈھونڈتا تھاتو اس کو پاتا تھا۔ اب اس کو کم کیا ہے لیکن اپنے آپ کو پاتا ہے باوجود کرنے کے اس کا ڈھونڈنے والا نہیں ہے اور باوجود ثابت ہونے فقدان ( کم کرنے کے اس کے چاہنے والا نہیں ہے۔
علم کی رو سے حاضر واجد ومقبل ہے اور ازروئے ذوق کے غائب وناقد ومعروض ہے اس کا ظاہر بقا ہے اور باطن فنا عین بقا میں فانی ہے اور عین فنا میں باقی لیکن فنا علمی ہے اور بقا ذوقی۔
اس کا کاروبار هبوط ونزول پر گہرا ہے اور صعود و عروج سے رہ چکا ہے اور جس طرح اس کو مقام قلب سے قلب کے پھیرنے والے یعنی حق تعالی کی طرف لے گئے تھے اب پھرحق تعالی کی طرف سے مقام قلب میں نیچے لے آئے ہیں۔
نفس سے روح کے آزاد ہونے اور نفس کے مطمئنہ ہو کر انور کےغلبوں سے نکلنے کے باوجود اس کی روح کو ۔ روح اور نفس کی دو جہتوں کا جامع بنایا ہے اور ان دو جہتوں طرفوں) بر زخیت سے اس کو شرف فرمایا ہے اور اس کو اس برزخیت کے حاصل ہونے کی وجہ سےفوق سے فائدہ اٹھانا اور ماتحت کو فائدہ دینا۔ دونوں ایک ہی وقت میں عطا فرمایا ہے ۔ فائدہ حاصل کرنے کے وقت فائدہ دینے والا ہے اور فائدہ پہنچانے کی حالت میں فائدہ حاصل ہونے والا۔
گر بگویم شرح ایں بیحد شود در نویسم بس قلم بشکند
ترجمہ ۔ گرکہوں بے حد ہو اس کا بیان گر لکھوں طاقت قلم میں ہے کہاں
اس کے بعد عرض ہے کہ دست چپ مراد ہے قلب سے جوحق تعالی کی طرف عروج کرنے سے پہلے حاصل ہے ۔ فوق سے نزول کرنے کے بعد جو مقام قلب میں اتر آتے ہیں وہ مقام اور ہے جو چپ و راست کا برزخ ہے۔ جیسا کہ اس فن کے جانے والوں پر ظاہر ہے اور مجذوب جنہوں نے سلوک حاصل نہیں کیا۔ صاحبان دل ہیں کیونکہ حق تعالی تک پہنچا سلوک نصر ہے اور کسی شخص کے ساتھ مقام کے متعلق ہونے سے یہ مراد ہے اس شخص کو اس مقام ایک خاص شان اور اس مقام والوں سے علیحدہ امتیاز حاصل ہوتا ہے۔
منجملہ اس امتیاز کے جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں ۔ جذبہ کی سبقت اور بقائے خاص ہے جو به مقام کے مناسب علوم اور معارف کا مبداء ہے۔ مقام قلب کے علوم کی تحقیق اور جذ بہ ادراک اور فنا و بقا کی حقیقت وغیرہ وغیرہ رسالہ مقررہ میں مفصل لی گئی ہے۔
میر سید شاه حسین جلدی روانہ ہو پڑے ۔ اس واسطے کے نقل کرنے کی فرصت نہ ملی ۔ پر انشاء اللہ شرف مطالعہ حاصل کرے گا یعنی و هر سال حضور کے مطالعہ میں آوے گا۔
عزیز متوقف (خاکسار ) فوق سے نیچے مقام قلب میں آیا ہے لیکن اس کی توجہ عالم کی طرف نہیں ہے۔ فوق کی جانب توجہ رکھتا ہے چونکہ عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) فوقانی برخلاف طبیعت کے تھا ۔ اس (خاکسار ) طبعی طور پر جذبہ کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا ۔ فوق سے نزول کے وقت اپنے راہ کچھ چیز نہیں لایا۔ وہ تھوڑی کی نسبت جوطبیعت کے خلاف توجہ سےتھی اور عروج اس توجہ کا تھا۔ جذ بہ مذکورہ حضرات خواجگان قدس سرہم کے جذبہ سے الگ ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو حضرات خواجہ احرار قدس سرہ کو اپنے بزرگ باپ دادوں سے پہنچا ہے اور ان کو اس مقام میں شان خاص حاصل ہوئی ہے اور کسی واقع میں بعض طالبوں نے جو ظاہر کیا تھا کہ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کو جیسا کہ وہ ہوئے ہیں وہ عزیز متوقف یعنی خاکسار نے کھا لیا ہے۔ اس واقعہ کے اثر کا ظہور اس مقام میں ہے یہ جذ بہ مقام افادہ کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا ۔ اس مقام میں ہمیشہ فوق کی طرف توجہ ہے اور دائمی سکر اس کو لازم ہے۔
جذبہ کے بعض مقامات جذ بہ میں داخل ہونے کے بعدسلوک کے مخالف ہیں اور بعض دوسرے سلوک کے مخالف نہیں ہیں ۔ ان میں داخل ہونے کے بعدسلوک کے لئے متوجہ ہوتے ہیں ۔ یہ جذبہ اس میں داخل ہونے کے بعدسلوک کے مخالف ہے۔ : عریضہ لکھتے وقت اس مقام کی طرف متوجہ ہوا تھا اس مقام کے بعض دقایق ظاہر ہونے جب تک باعث نہ ہو توجہ میسر نہیں ہوتی۔ والله سبحانہ أعلم بحقيقة الحال اور حقیقت حال کو اللہ تعالی زیادہ جاننے والا ہے۔
چند مہینے ہوئے ہیں کہ وہ عزیز متوقف (خاکسار) نیچے آگیا ہے لیکن مقام جذ بہ مذکورہ میں کامل طور پر داخل نہیں ہوا۔ اس مقام کے مناسب علم کا نہ ہونا اور پراگندہ توجہ اس مقام میں داخل ہونے سے مانع ہے۔ امید ہے کہ ان بے ترتیب کلمات یعنی عریضہ کے مطالعہ کے وقت اس مقام میں پورے طور پر داخل ہونا میسر ہو جائے گا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ سرہ کو وہ عزیز متوقف یعنی خاکسار پورے طور پرکہا جائے گا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ32 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی