واصلین باللہ حکمت نمبر30
واصلین باللہ کے عنوان سے باب دوم میں حکمت نمبر30 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استدلال کرنے والوں پر علوم کے دائرے وسیع کر دیئے گئے ہیں۔ اور ان کے لئے سمجھ کے خزانے کھول دیئے گئے ہیں۔ اور اس کےبرعکس مخلوق کے ساتھ استدلال کرنے والوں کے لئے وہم کا حجاب لازمی ہونے کی وجہ سے علم کی روزیاں تنگ کر دی گئی ہیں۔لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا:۔
30) {لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ}: الواصِلونَ إلَيْهِ. {مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ}: السّائِرونَ إلَيْهِ.
البتہ دولت والے اپنی دولت میں خرچ کرتے ہیں۔ واصلین باللہ( اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والے) ہیں ۔ اور جن کی روزی تنگ کر دی گئی وہ سائرین (اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے والے)والے ) ہیں ۔۔
دولت خرچ کرنے والے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ واصلین :۔ اس وجہ سے کہ ان کی ارواح مخلوق کی تنگی سے نکل کر شہود کی وسیع فضا میں پہنچ چکی ہیں۔
یا تم اس طرح کہو۔ اس وجہ سے کہ ان کی ارواح عالم جسمانی سے عالم روحانی کی طرف یا عالم ملک سے عالم ملکوت کی طرف ترقی کر گئی ہیں۔ ان پر معلوم کی روزیوں کا دائرہ کشادہ ہو گیا ہے۔ اور ان کیلئے سمجھ کے خزانے کھول دیئے گئے ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنی کشادہ دولت سے پوشیدہ علوم کے جواہر خرچ کئے اور اپنے پوشیدہ خزانوں سے محفوظ اسرار کی موتیاں خرچ کیں۔ ان کی سیر گاہ وسیع ہو گئی۔ اوروہ فصاحت و بلاغت کی بہترین سواریوں پرسوار ہوئے۔ یعنی نہایت فصیح و بلیغ کلام کرنے گے۔
لہذا ان لوگوں میں جس پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہوئی اس کے لئےغنا کتنا تیز رفتا ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ کی رعایت نے جس کا لحاظ کیا۔ اس کے لئے معرفت کا کتنا بڑ ادر وازہ کھولا گیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خاص بندے ہیں کہ جو شخص ان کی طرف نظر کرتا ہے یا ایسا نیک بخت ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی بدبخت نہ ہوگا اور وہ خاص بندے اہل سر و حال واصلین عارفین ہیں۔
لیکن سائریں تو اس وجہ سے کہ وہ لوگ مخلوق کی تنگی میں باقی ہیں اور عالم جسمانی میں وہم کی قید میں گرفتار ہیں۔ ان کے لئے سمجھ کے خزانوں میں سے کچھ نہیں کھلا ہے۔ وہ اپنے نفوس سے جہاد میں مشغول ہیں۔ اور اپنے قلوب کی صفائی کے لئے محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ علوم کے دائرے ان پر تنگ ہیں۔ اور سمجھ کے دروازے ان کے لئے بند ہیں۔ لیکن اگر وہ سیر میں کوشش کرتے رہیں تو وہ مخلوق کی تنگی سے منتقل ہو کر شہود کی کشادہ فضا میں پہنچ جاتے اور علوم کے باغوں میں ٹہلتے ہیں۔ پھر مزید ترقی کرتے اور اپنی امیدوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور رنج و پریشانی کے بعد دولتمند ہو جاتے ہیں اور اگر وہ راستے سے لوٹ جائیں، یا کوتاہی کریں، تو نا کام ہو جاتے اورگھاٹے میں رہتے ہیں۔
تنبیہ۔ اگر تم چاہتے ہو کہ ذوق کا علم تمہارے اور پر کشادہ ہو تو کتابی علم کو ترک کر دو۔ کیونکہ جب تک تم دوسروں کے خزانے پر بھروسہ کرتے رہو گے تم اپنا خزانہ کبھی نہ کھود سکو گے ۔ اس لئے تم اپنے سے کتابیں جدا کر دو ۔ اور صرف اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو جاؤ۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخششوں کا فیضان ہوگا۔
انما الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ صدقے فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں۔
حضرت شیخ دباس رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگر د حضرت میمونہ سے اس وقت فرمایا جبکہ ان کے او پر معرفت کا دروازہ کھلنے میں تاخیر ہوئی ، اور شیخ نے ان کی تفتیش کی تو ان کو رسالہ قشیریہ مطالعہ کرتے ہوئے پایا تم اپنی کتاب پھینک دو اور اپنے نفس کی زمین میں گڑھا کھو دو تب تمہارے لئے انوار و معرفت کا چشمہ جاری ہوگا، ورنہ تم میرے پاس سے چلے جاؤ، و باللہ التوفیق۔