ولایت سہ گانہ کا فرق اور معارف مکتوب نمبر 302دفتر اول

 ولایت سہ گانہ یعنی ولایت اولیاء اور ولایت انبیاء اور ولایت ملاء اعلی کے فرق اور اس بیان میں کہ نبوت ولایت سے افضل ہے اور بعض ان خاص معارف کے بیان میں جو نبوت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے مناسب بیان میں ظاہری علوم اور باطنی اسرار و معارف کے جامع مخدوم زاده مجد الدین محمد معصوم سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔ خدا تجھے ہدایت دے ۔

 تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ ولایت سے مراد وہ قرب الہٰی ہے جس میں ظلیت کی آمیزش وملاوٹ ہو اورحجابوں اور پردوں کے حاصل ہونے کے بغیر حاصل نہ ہو۔ اگر اولیاء کی ولایت ہے تو وہ ضرور ظلیت کے داغ سے داغدار ہے اور انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی ولایت اگر چہ ظلیت سے نکل چکی ہے لیکن اسم و صفات کے حجاب کے حائل ہونے کے بغیر متحقق نہیں اور ملاء اعلی کی ولایت اگرچہ اسماء و صفات کے حجابوں سے بلند و برترہے لیکن شیون و اعتبارات ذاتیہ کےحجابوں سے چارہ نہیں۔ وہ نبوت و رسالت ہی ہے جس میں ظلیت کی کوئی آمیزش نہیں ہے اور صفات و اعتبارات کے حجاب سب راستہ ہی میں رہ جاتے ہیں۔ پس ناچارنبوت ولایت سے افضل ہوگئی اور قرب نبوت ذاتی اور اصلی ہوگا اور جن لوگوں کو ان دونوں کی حقیقت پر اطلاع نہیں ہے۔ انہوں نے اس کے برعکس اور برخلاف حکم کیا ہے۔ پس وصول مرتبہ نبوت میں ہے اور حصول مقام ولایت میں کیونکہ حصول ظلی کے سواناممکن ہے برخلاف رسول کے اور نیز کمال حصول میں دوئی دور ہو جاتی ہے اور کمال وصول میں دوئی باقی رہتی ہے۔ پس دوئی کا دور ہونا مقام ولایت کے مناسب ہے اور دوئی کا باقی رہنا مقام نبوت کے مناسب اور چونکہ دوئی کا دور ہونا مقام ولایت کے مناسب ہے اس لئے سکر(مستی) ہر وقت مقام ولایت کو لازم ہوگا اور مرتبہ نبوت میں چونکہ دوئی باقی رہتی ہے اس لئے صحواس مرتبہ کے ساتھ خاص ہے اور نیز تجلیات(غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) کا حاصل ہونا خواہ صور واشکال کے لباس میں ہو۔ خواه  پردہ انوار والوان میں ۔ سب مقامات ولایت اور اس کے مقدمات اور مبادی کے طے کرنے میں ظاہر ہوتے ہیں۔ برخلاف مرتبہ نبوت کے کہ اس مقام میں اصل کے ساتھ وصول ہے اور ان تجلیات و ظہورات سے جو اس اصل کے ظلال ہیں۔ استغنا ولا پرواہی ہوتی ہے اور ایسے ہی اس مرتبہ کے مبادی و مقدمات کے طے کرنے میں بھی ان تجلیات کی حاجت نہیں ہوتی مگر جبکہ ولایت کے باعث ہے نہ کہ نبوت کی راہ وصول کی مسافت طے کرنے کے سبب سے۔ غرض تجلیات و ظہورات ظلال کی خبر دیتے ہیں اور وہ چیز جو ظلال وتجلیات کی گرفتاری سے آزاد ہے، وہ نبوت ہے۔ مَا ‌زَاغَ الْبَصَرُ کا سرمہ اس جگہ طلب کرنا چاہیئے۔ 

اے فرزند! عشق کا ولولہ اور محبت کا طنطنہ اور شوق انگیز نعرے اور درد آمیز آواز اور وجد ورقص سب مقامات ظلال اور ظہورات و تجلیات ظلیہ کے وقت ہوتے ہیں ۔ اصل سے واصل ہونے کے بعد ان امور کا حاصل ہونا متصور نہیں۔ اس مقام میں محبت کے معنی ارادہ و طاعت کے ہیں۔ جیسا کے علماء نے فرمایا ہے نہ کہ اس سے اور کوئی زائد معنی جو ذوق وشوق کا منشا (پیدا ہونے کی جگہ) ہیں جیسا کہ بعض صوفیہ نے گمان کیا ہے۔ 

اے فرزند! غور سے سن چونکہ مقام ولایت میں دوئی کا دور ہونا مطلوب ہے اس واسطے اولیاء ارادہ کے زوال اور دور کرنے میں کوشش کرتے ہیں۔ 

شیخ بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اُرِيْدُ أَنْ لَّا أُرِيْدُ(میرا ارادہ یہ ہے کہ کوئی ارادہ نہ رہے )اور مرتبہ نبوت میں چونکہ دوئی کا اٹھ جانا درکار ہیں۔ اس واسطے نفس ارادہ کا زوال مطلوب نہیں اور کس طرح مطلوب ہو جبکہ ارادہ فی حد ذاتہ(اپنی ذات کی حد میں) ایک کامل صفت ہے۔ اگر کوئی نقص کوئی نامناسب اور ناپسندیدہ امر نہ ہو بلکہ اس کی تمام مرادیں حق تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہوں اور ایسے ہی مقام ولایت میں تمام صفات بشریت کی نفی میں کوشش کرتے ہیں اور مرتبہ نبوت میں ان صفات کے برے متعلقات کی نفی کرتے ہیں نہ کہ ان صفات کی اصل کی نفی، جوفی حدذاتہ کامل ہیں۔ مثلا صفت علم جو فی حد ذاتہ ایک کامل صفت ہے۔ اگر اس میں کوئی نقص آ گیا ہے تو اس کے برےمتعلق کے باعث ہے۔ پس اس صفت کے برے متعلق کی نفی ضروری ہے نہ کہ اس صفت کےاصل کی نفی علی ہذا القیاس۔ 

پس وہ شخص جوولایت کی راہ سے مقام نبوت میں آیا ہے۔ اس کے لئے اثنائے راہ میں اصل صفات کی نفی سے چارہ ہیں اور وہ شخص جو ولایت کی راہ کے بغیر مرتبہ نبوت میں پہنچا ہے اس کے لئے اصل صفت کی نفی ضروری نہیں ۔ اس کوصرف ان صفات کے برے متعلقات کی نفی کرنی پڑتی ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ اس ولایت سے جو مذکور ہوئی ہے مرادظلی ولایت ہے جس کو ولایت صغری اور ولایت اولیاء سے تعبیر کرتے ہیں لیکن انبیاء کی ولایت جوظل سے گزر گئی ہے۔ وہ اور ہے وہاں صفات بشریت کے برے تعلقات کی نفی ہے نہ کہ ان صفات کے اصل کی نفی اور جب صفات کے برےمتعلقات کی نفی حاصل ہوگئی تو گویا انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی ولایت حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد جو عروج  واقع ہوگا۔ وہ کمالات نبوت کے متعلق ہوگا۔ 

اس بیان سے واضح ہوا کہ نبوت کے لئے اصل ولایت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ولایت اس کے مبادی اور مقدمات میں سے ہے لیکن کمالات نبوت تک پہنچنے میں ظلی ولایت کا حاصل ہونا درکار نہیں ۔ بعض کے لئے اس کا اتفاق پڑ جاتا ہے اور بعض کے لئے ہرگز اس میں عبور واقع نہیں ہوتا۔ فافہم۔ 

اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اصل صفات کا دور کرنا ان صفات کے برے متعلقات کے دور کرنے کی نسبت بہت مشکل ہے۔ پس کمالات نبوت کا حاصل ہونا کمالات ولایت حاصل ہونے کی نسبت زیادہ آسان اور اقرب ہوگا اور ہر امر میں جو اپنے اصل کے ساتھ وصول رکھتا ہے۔ اسی آسانی اور قرب کی نسبت ہے بر خلاف ان امور کے جو اپنی اصل سے جدا ہیں ۔ کیا نہیں دیکھتا کہ اصل کیمیا نہایت آسان عمل سے میسر ہے اور نہایت ہی اقرب طریقے حاصل ہے اور وہ جو اصل سے جدا ہے وہ محنت میں ہے اور تمام عمر اس کے حاصل کرنے میں فانی کر دیتا ہے۔ پھر بھی حرمان و مایوسی اس کو حاصل ہوتی ہے اور وہ چیز جو اس بڑی کوشش کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اس اصل کے مشابہ اور مانند ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ عارضی شکل و شباہت اس سے دور ہو جاتی ہے اور اپنے اصل کی طرف رجوع کر جاتی ہے اورمکرودغا تک پہنچ جاتی ہے۔ برخلاف اصل کے واصل کے جوبا و جودعمل کی آسانی اور راہ کی نزدیکی کے مکرودغا سے محفوظ ہے۔ اس راہ کے بعض سالک جونت ریاضتوں اور مشکل مجاہدوں کے ساتھ ظلال میں سے کسی ظل تک  پہنچ جاتے ہیں۔ گمان کرتے ہیں کہ مطلب تک پہنچناسخت ریاضتوں اور مشکل مجاہدوں پر منحصر ہے اور نہیں جانتے کہ اس راہ کے سوا ایک اور راہ ہے جو زیادہ قریب ہے اور نہایت النہایت تک پہنچانے والا ہے۔ وہ اجتباء ( برگزیدہ اور پسندیدہ کرنے) کا راستہ ہے جو فضل کرم پر وابستہ ہے اور وہ راستہ جو انہوں نے اختیار کیا ہے۔ وہ انابت (توبہ و رجوع) کا  راستہ ہے جومجاہدوں پر موقوف ہے اور اس راہ کے واصل اقل قلیل یعنی بہت کم ہیں اور راہ اجتباء کےواصل جم غفیر یعنی بے شمار ہیں۔ 

تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام  اجتباء کے راستہ پر چلے ہیں اور ان کے اصحاب بھی تبعیت (اتباع کے طور پر)و وراثت کے طور پر اجتباء کی راہ سے واصل ہوئے ہیں ۔ ارباب اجتباء کی ریاضتیں نعمت وصول کا شکر ادا کرنے کے لئے ہیں۔ رسول علیہ الصلوة والسلام نے اس شخص کے جواب میں جس نے آپ سے عرض کیا کہ جب آپ کے اول و آخر گناہ بخشے ہوئے ہیں تو پھر آپ کیوں اتنی تکلیف اور ریاضت برداشت کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ أَفَلَا ‌أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًاکیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ ہوں) اور انابت والوں کے مجاہد ے اصول کے لئے ہیں اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ 

راه اجتباء راه بردن یعنی دوسرے کو لے جانے والا راستہ ہے اور راہ انابت راه رفتن یعنی خود چل کرطے کرنے والا راستہ ہے۔ بردن سے رفتن تک بڑا فرق ہے۔ جلدی جلدی لے جاتے ہیں اور جلدی پہنچا دیتے ہیں اور دیردیر سے چلتے ہیں اور راہ ہی میں رہ جاتے ہیں۔ 

حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم فضلی یعنی فضل والے ہیں ۔ بیشک سچ ہے جب تک فضل نہ ہو، دوسروں کی نہایت ان کی بدایت (ابتدا) میں کس طرح مندرج ہو۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اس فقیر نے ان عریضوں میں جواپنے پدر بزرگوار قدس سرہ کی خدمت اقدس میں لکھے ہیں۔ لکھا ہے کہ تمام مرادیں مرتفع ہوئی ہیں لیکن نفس ارادہ ابھی قائم ہے کچھ مدت کے بعد وہ بھی مرادات کی طرح دور ہو گیا جب حضرت سبحانہ وتعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت سے مشرف فرمایا تو معلوم ہوا کہ اس ارادہ کے برے متعلق کا رفع ہوا ہے نہ کسی ارادہ کا کیونکہ لازم نہیں ہے کہ اصل کے رفع ہونے کے بعد  برے تعلق کا رفع ہونا پورے اور کامل طور پر حاصل ہو بلکہ بسا اوقات محض فضل سے اس قدر میسر ہوجاتا ہے کہ تعمل وتکلف(عمل و محنت) سے اس کا سواں حصہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ 

اے فرزند! مقام ولایت میں دنیا و آخرت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور آخرت کی گرفتاری کو دنیا کی گرفتاری کی طرح سمجھنا پڑتا ہے اور آخرت کے درد کو دنیا کی طرح نامناسب جاننا پڑتا ہے۔ 

امام داؤد طائی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں۔ إن أردت السلامة ‌سلّم ‌على ‌الدنيا، وإن أردت الكرامة كبّر على الآخرة اگر تو بچنا چاہتا ہے تو دنیا کو سلام کہہ دے اور اگر تو کرامت چاہتا ہے تو آخرت پر تکبیر کہے دے۔ 

اوراسی گروہ میں سے کوئی اور بزرگ اس آیت کے موافق فرماتا ہے۔ ‌مِنْكُمْ ‌مَنْ ‌يُرِيدُ الدُّنْيَا ‌وَمِنْكُمْ ‌مَنْ ‌يُرِيدُ الْآخِرَةَ بعض تم میں سے دنیا چاہتے ہیں اور بعض تم میں سے آخرت۔ گویا فریقین سے شکایت ہے۔ 

غرض فنا جوماسوائے حق کے نسیان سے مراد ہے دنیا و آخرت کو شامل ہے اور فنا و بقادونوں ولایت کے اجزاء ہیں۔ پس ولایت میں آخرت کا نسيان ضرور ہے اور کمالات نبوت کے مرتبہ میں آخرت کی گرفتاری بہتر اور محمود ہے اور دار آخرت کا درد پسندیدہ اور مقبول ہے بلکہ اس مقام میں آخرت کا درد اور آخرت کی گرفتاری ہے۔ 

آیت کریمہ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا ‌وَطَمَعًا اپنے رب کو خوف اور طمع سے پکارتےہیں) اور آیت کریمه وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ ‌عَذَابَهُ (اپنے رب سے ڈرتے اور اس کے عذاب سے خوف کرتے ہیں) اور آیت کریمہ الَّذِينَ ‌يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ اپنے اللہ تعالیٰسے غیب کے ساتھ ڈرتے ہیں اور قیامت کے ڈر سے کانپتے ہیں اس مقام والوں کے لئے نقدوقت ہے۔ ان کا نالہ وگر یہ احوال آخرت کےیاد کرنے سے ہے اور ان کا الم و اندوه احوال قیامت کے ڈر سے ہے۔ ہمیشہ قبر کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے اور زاری کرتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کا درد ان کے نزدیک درد آخرت ہے اور ان کا شوق دمحبت آخرت کا شوق و محبت ہے کیونکہ اگر لقاء ہے تو اس کا وعدہ بھی آخرت پر ہے اور اگر رضا ہے تو اس کا کمال بھی آخرت پر موقوف ہے۔ دنیا حق تعالیٰ کی مبغوضہ اور آخرت حق تعالیٰ کی مرضیہ اور پسندیدہ ہے مبغوضہ کو مرضیہ کے ساتھ کسی امر میں برابر نہیں کر سکتے کیونکہ مبغوضہ کی طرف سے منہ پھیر لینا چاہیئے مرضیہ کی طرف شوق سےبڑھنا چاہیئے۔ مرضیہ کی طرف سے منہ پھیرنا عین سکر اور حق تعالیٰ کی مرضی موعود کے برخلاف ہے۔ آیت کریمہ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى ‌دَارِ ‌السَّلَامِالله تعالیٰ دار السلام کی طرف بلاتا ہے) ان معنوں پر شاہد ہے۔ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ بڑےمبالغہ اور تاکید کے ساتھ آخرت کی ترغیب فرماتا ہے۔ پس آخرت کی طرف سے منہ پھیرنا در حقیقت حق تعالیٰ کے ساتھ معارضہ یعنی لڑائی کرنا اور اس کی مرضی کے رفع کرنے میں کوشش کرنا ہے۔ , امام داود طائی رحمتہ الله علیہ نے باوجود اس بزرگی کے کہ ولایت میں قدم راسخ رکھتے  تھےترک آخرت کوکرامت کہامگرنہ جان کہ اصحاب کرام سب کے سب درد آخرت میں مبتلا تھے اور آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ 

ایک دن حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ ایک کو چہ میں سے گزر رہے تھے کہ کسی قاری نے اس آیت کو پڑھا إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ ‌لَوَاقِعٌ  مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ  بیشک تیرے رب کا عذاب آنے والا ہے اس کو کوئی ٹالنے والا نہیں اس کو سنتے ہی آپ کے ہوش جاتے رہے اور اونٹ سے بے خود ہوکر زمین پر گر پڑے 

۔ وہاں سے اٹھا کر ان کو گھر لے گئے اور مدت تک اسی درد سےبیمار رہے اور لوگ ان کی بیمار پرسی کو آتے رہے۔ ہاں احوال کے درمیان مقام فنا میں دنیا و آخرت کا نسیان میسر ہو جاتا ہے اور آخرت کی گرفتاری کو دنیا کی گرفتاری کی طرح سمجھتے ہیں لیکن جب بقاء سے مشرف ہو جا ئیں اور کام کو انجام تک پہنچائیں اور کمالات نبوت اپنا پر تو ڈالیں تو پھر سب دردآخرت اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتالاحق حال ہوتا ہے۔ بہشت اور اس کے درختوں اورنہروں اور حور وغلمان کو دنیا کی اشیاء کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں جیسا کے غضب و رضا ایک دوسرے کےنقیض ہیں ۔ اشجار وانہار وغیرہ جو بہشت میں ہیں ۔ سب اعمال صالحہ کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ 

حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ بہشت میں کوئی درخت نہیں ہے اس میں خود درخت لگاؤ۔ یاروں نے عرض کیا کہ ہم کس طرح درخت لگائیں فرمایا تسبیح اورتحمید اورتہلیل کے ساتھ یعنی سبحان اللہ کہوتا کہ بہشت میں ایک درخت تمہارے لئے لگ جائے پس بہشت کا درخت تسبیح کا نتیجہ ہے اور جس طرح اس کلمہ میں حروف و اصوات کے لباس میں کمال تنزیه مندرج ہے اسی طرح ان کمالات کو بہشت میں درخت کے لباس میں پوشیدہ فرمایا ہے۔ على هذا القياس جو کچھ بہشت میں ہے۔ عمل صالح کا نتیجہ ہے اور جو کمالات وخوبی کہ نہایت تقید میں ہے اور قول وعمل صالح کے لباس میں مندرج ہے۔ بہشت میں وہی کمالات لذتوں اور نعمتوں کے پردہ میں ظہور کریں گے۔ پس وہ لذت ونعمت ضرور حق تعالیٰ کی پسندیدہ اور مقبول اور بقا و وصول کے لئے وسیلہ ہوگی۔

رابعه بیچاری اگر اس سر سے آگاہ ہوتی۔ ہرگز بہشت کے جلانے کا فکرنہ کرتی اور اس کی گرفتاری کوحق تعالیٰ کی گرفتاری کے ماسوانہ جانتی۔ برخلاف دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے جن کامنشاء خبث وشرارت ہے اور ان کا انجام آخرت میں مایوسی اور ناامیدی ہے۔ أَعَاذَنَا ‌اللَّهُ مِنْہُیہ لذت ونعمت اگر مباح شرعی ہے تو محاسبہ در پیش ہے اگر اللہ تعالیٰ کی مرحمت نے دستگیری نہ کی تو پھر افسوس صد افسوس اور اگر مباح شرعی نہیں تو وعید کا مستحق ہے۔ 

رَبَّنَا ‌ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ يا الله ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہم پر مہربانی اور بخشش نہ کرے تو ہم خساره والوں میں سے ہوں گے۔

پس یہ لذت اس لذت کے ساتھ کیا نسبت رکھتی ہے۔ یہ لذت زہر قاتل ہے اور وہ لذت تریاق نافع۔ پس آخرت کا درد یا عام مومنوں کو نصیب ہے یا اخص الخواص کے نصیب خواص اس درد سے پرہیز کرتے ہیں اور کرامت و بزرگی اس کے خلاف میں سمجھتے ہیں۔

آن ایشا نندمن چنینم یارب ترجمہ: وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں خدایا

۔ والسلام والاکرام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ466ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں