وہ اسرار و دقائق جو مجدد پاک کا خاصہ ہےمکتوب نمبر267دفتر اول

 اس بیان میں کہ وہ اسرار ودقائق کہ جن کے ساتھ حضرت ایشاں یعنی حضرت مجدد رحمتہ الله علیه متمیز ہوئے ہیں ۔ ان میں سے تھوڑا حصہ بھی ظہور میں نہیں لا سکتے بلکہ رمز و اشارہ کے ساتھ بھی ان کی نسبت گفتگونہیں کی جاسکتی اور وہ اسرار چراغ نبوت سے مقتبس ہیں اور ملائکہ علیین بھی اس دولت میں شریک ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کاصحیفہ شریفہ جو ازروئے کرم کے اس حقیر کے نام لکھا ہوا تھا اور اس کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ جَزَاكُمْ ‌اللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ  خَيْرًا ( اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے)۔ حق جل سلطانہ کے انعامات کیا کیا لکھے اور ان کا کیا شکر ادا کرے۔ وہ علوم و معارف جن کا فیضان ہوتا ہے خداوند جل سلطانہ کی توفیق سے ان میں سے اکثر لکھے جاتے ہیں اور ہر اہل و نااہل یعنی کس و ناکس کے کانوں تک پہنچتے رہتے ہیں لیکن وہ خاص اسرار ودقائق جن کے ساتھ ہی فقیرمتمیز ہے ان کا تھوڑا سا حصہ بھی ظہور میں نہیں لا سکتا بلکہ وہ رمز واشار ہ کے ساتھ بھی اس مقولہ کی نسبت گفتگونہیں کر سکتا۔ بلکہ اپنے فرزند عزیز (خواجہ محمد صادق)کے ساتھ بھی جو فقیر کے معارف کا مجموعہ از مقامات اور سلوک و جذبہ کا نسخہ ہے۔ ان اسرار ودقائق کی کوئی رمز بیان نہیں کرتا اور ان کے پوشیدہ رکھنے میں بڑی کوشش کرتا ہے ۔ حالانکہ فقیر جانتا ہے کہ فرزند عزیز محرمان اسرار سے ہے اور خطا و غلط سے محفوظ ہے لیکن کیا کرے کہ معانی کی دقت اور باریکی زبان پکڑ لیتی ہے اور اسرار کی لطافت لبوں کو بند کر دیتی ہے۔ ۔ وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ ‌لِسَانِي ( میرا سینہ تنگ اور میری زبان بند ہو جاتی ہے) نقد وقت ہے اور وہ اسرار اس قسم کے نہیں ہیں کہ فقیران کو بیان نہیں کرتا بلکہ وہ ایسے ہیں کہ بیان میں لائے ہی نہیں جاسکتے

 فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہرزہ نیست ہم قصہ غریب و حدیث عجیب ہست

 ترجمہ نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد ہے حالت اس کی ناگفتہ بہ ہی سچ مچ 

یہ دولت جس کے چھپانے میں ہم کوشش کرتے ہیں انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے چراغ نبوت سے ملتی ہے اور ملائکہ ملائے اعلی نبینا علیہم الصلوات والتسلیمات بھی اس دولت میں شریک ہیں اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے تابعداروں میں سے جس کی کواس دولت سے مشرف فرمائیں وہ بھی اس دولت میں میرا شریک ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺسے دو طرح کے علم سیکھے ہیں ایک تو وہ علم ہے جس کو میں تمہارے سامنے منتشر اور بیان کرتا ہوں اور دوسراوہ علم ہے کہ اگر میں اس کو تمہارے پاس ظاہر کردوں تو میرا گلا کاٹ دو۔ 

اور یہ دوسراعلم  علم اسرار ہے کہ جس علم تک کسی کافہم نہیں پہنچتا۔ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

دوسرا امید ہے کہ وہ مکتوب(نمبر 266 دفتر اول) جو حضرات خواجہ زادگان کی خدمت میں لکھا ہے کہ آپ کی نظر شریف سے گزرا ہوگا۔ 

میرے مکرم مخدوم ! کوئی نئی بات جوطریقت میں پیدا کریں ۔فقیر کے نزدیک اس بدعت سے کم نہیں ہے جو دین میں پیدا کریں۔ طریقت کی برکتیں اس وقت تک فائز ہوتی رہتی ہیں جب تک کہ طریقت میں کوئی نئی بات پیدا نہ ہو اور جب کوئی نیا امر طریقت میں پیدا ہو جائے تو اسی وقت اس طریق کے فیوض و برکات کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ پس طریقت کی محافظت کرنا اور طریقت کی مخالفت سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے۔ آپ کو لازم ہے کہ جہاں کہیں اپنی طریقت کی مخالفت کسی سے دیکھیں زجرو مبالغہ سے اس کومنع فرمائیں اور طریقت کی ترویج و تقویت میں کوشش کریں۔ والسلام مع و الاکرام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ295 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں