پوشید ہ خزانوں کا سبب کے عنوان سے پہلے مراسلے کا دسواں حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے :۔ تا کہ میری نظر اس وقت تیرے اختیار اور قوت کی طرف ہو جب تو مجھ کو اشیاء میں داخل کرے اور میری اطاعت تیرے لیے ہو جب تو مجھ کو ان سے نکالے ، اور تو میرے لیے اپنے پاس سے یعنی اپنے امور کے پوشید ہ خزانےسے بلا واسطہ اور بغیر سبب کے غالب طاقت عطا فرما۔
اور وہ غالب طاقت :۔ وہی طاقتور وارد ہے ، جو بارگاہ قہار سے آتا ہے اور جوشے اس کے مقابلے میں آتی ہے وہ اس کو توڑ کر پاش پاش کر دیتا ہے ہیں وہ حق کو قائم کر دیتا اور باطل کو مٹا دیتاہے۔
اور وہ طاقت ایسی ہو جو میری مدد کرے اور میرے مقابلے میں دوسرے کی مدد نہ کرے یعنی وہ ظاہر اور ما سوی سے غائب ہونے میں میری مدد کرے۔ یہاں تک کہ میں ان کے مولائے حقیقی کے شہود میں ان دونوں سے گم ہو جاؤں اور وہ میرے مقابلے میں وہم اور حس اور غیر کے شہود کی مدد نہ کرے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی تشریح فرمائی ۔ اپنے نفس کے شہود سے غائب ہونے میں میری مددے۔ یعنی اس سے غائب ہونے میں مجھ کو طاقت پہنچائے پھر جب میں اس کے شہود پر غالب ہو جاؤں اور وہ مجھ سے شکست کھا جائے تو اس کا شہود ختم ہو جائے اور اس کے رب کا شہود باقی رہ جائے۔
اور کسی شے پر نصرت (مدد) کے معنی :۔ اس شے پر غالب ہونا ہے یہاں تک کہ وہ کمزور اور ختم ہو جائے۔
اور نفس کا شہود :- گویا کہ ایسا دشمن ہے جو تم سے جنگ کرتا ہے اور تم کو تمہارے رب تعالیٰ کےشہود سے جدا کر دیتا ہے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے تمہاری مددفرماتا ہے تو تم اس پر غالب ہو جاتے ہو اور اس کو اپنے سے دور کر دیتے ہو۔ تو تم اپنے محبوب حقیقی کے شہود سے قریب ہو جاتے ہو۔
اور جب نفس کا شہود فنا ہو جاتا ہے تو ظاہر کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کایہی مفہوم ہے: ۔ اور مجھ کو میرے ظاہر کے دائرے سے غائب کر دے لہذا جب ظاہر کا دائرہ فنا ہو گیا تو باطن کا وسیع میدان اور شہود کی کشادہ فضا باقی رہ گئی ۔
اور یہی دوسری ولادت ہے۔
کیونکہ بیشک انسان اپنی ماں کے شکم سے باہر آنے کے بعد جو پہلی ولادت ہے اپنے کو گھیر نے والی کائنات میں مقید ہو جاتا اور اپنی ذات کی شکل میں گھر جاتا ہے۔ خواہشات اس کو لقمہ بنا لیتے ہیں اور وہ حس اور وہم کے پیٹ میں اور کائنات کے قید خانے میں جو اس کی جسمانیت کو گھیرےہوئے ہے مقید ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کے ظاہر کا دائر ہ فنا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی عادتوں کے پیٹ سے اور اپنے نفس کی خواہشات سے باہر آتا ہے تو اس کی روح کل کائنات میں سوراخ کر دیتی ہے اور اس میں سے گزر کر کائنات کے خالق تک پہنچ جاتی ہے۔ لہذا بیشک وہ دوسری مرتبہ پیدا ہوا اور یہی وہ ولادت ہے جس کے بعد نہ فنا ہے نہ موت ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى وہ اس میں صرف پہلی موت کا مزہ چکھیں گے
اہل ظاہر کے نزدیک ضمیر ھا کا مرجع جنت ہے اور اہل باطن کے نزدیک یہی دوسری ولادت ہے۔
سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کے اس قول کا یہی مفہوم ہے:۔
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يُولَدْ مَرَّتَيْنِ و ہ شخص ہم میں سے نہیں جو دو مرتبہ نہیں پیدا ہوا
حضرت شطیبی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے اقوال میں سے اس قول کو اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔
حضرت نبی کریم ﷺ کے اس قول کے بارے میں بعض عارفین نے فرمایا ہے۔
لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے بلکہ جہاد اور نیت ہے
ہجرت کی دو قسمیں ہیں:۔
ایک ہجرت صغری ( چھوٹی ہجرت ) :- وہ اپنے وطنوں سے جسموں کی ہجرت ہے۔ دوسری ہجرت کبری (بڑی ہجرت ) :- وہ نفوس کا اپنے مرغوبات اور اپنی عادات سے ہجرت کرنا ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺ کے اس قول کا یہی مفہوم ہے ۔
رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ لْاَ صْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاَ كْبَرِ ہم جہاد اصغر سے جہادا کبر کی طرف لوٹے
آنحضرت ﷺ نے جہاد نفس کو جہاد اکبر ، اور جسم کو جہاد اصغر قرار دیا ہے۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے۔
الْهِجُرَةُ بَاقِيَّةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
ہجرت قیامت کے دن تک باقی رہے گی ، یعنی ظاہری اور باطنی ہجرت ۔ لہذا جس شہر یا ملک میں اپنے دین کا مددگار نہ پائے یا جس مقام میں اپنے قلب کو حاضر نہ پائے وہاں سے ہجرت واجب ہے۔ اور جو خواہش اس کو اس کے رب سے جدا کر دے اس خواہش سے ہجرت واجب ہے۔ وباللہ التوفیق۔
اور اس مکتوب کا حاصل :- اول سے آخر تک سلوک کا بیان ہے ، اہل عقل کیلئے اس مکتوب کا مطالعہ پوری کتاب کے مطالعہ سے کافی ہے
یہاں پہلا مکتوب ختم ہوا جو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے بعض اصحاب کے پاس روانہ فرمایا۔