چھیالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چھیالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السادس والاربعون فی اتباع الرسول علیہ السلام‘‘ ہے۔

 منعقده 28 رجب 545 صبح اتوار بمقام خانقاہ شریف

دنیا کا بازار عنقریب بند ہو جائے گا:

دنیا ایک بازار ہے جو عنقریب بند ہو جائے گا، تم خلقت کے فضل پر نگاہ ڈالنے والے دروازے بند کر دو، اور اللہ کے فضل کے دروازے کھول دو، دل کی صفائی اور باطن کا قرب مل جائے تو اپنے خاص کاموں میں کمائی اور اسباب کے دروازے بند کر لو، جو کام عام طور سے تمہارے اہل وعیال اور متعلقین کے لئے ہیں، ان پر یہ دروازے بند نہ کرو ۔ تمہاری کمائی اور نفع اور تحصیل معاش اوروں کے لئے ہو، جبکہ خاص اپنے لئے اس کے فضل کے طبق سے طالب ہو، اور اپنے نفسوں کو دنیا کے ساتھ بٹھا دو اور اپنے قلبوں کو آخرت کے ساتھ ، اور اپنے باطن کو مولی تعالی کے ساتھ بٹھا دو۔۔ اور ۔ کہتے رہو

إنك تعلم مانريد جو ہم چاہتے تو جانتا ہے۔

اولیاءاللہ نبیوں کے نائب ہیں:

ابدال، اولیاء اللہ نبیوں کے نائب ہیں، وہ جو کچھ تمہیں حکم دیں اسے قبول کرو، کیونکہ وہ تمہیں اللہ کے حکم سے حکم کرتے ہیں اوران کے منع کرنے سے منع فرماتے ہیں ، انہیں بلوایا جائے تو بولتے ہیں، دئیے جائیں تو لیتے ہیں، اپنے نفسوں اور عادتوں سے کوئی حرکت نہیں کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشوں کو اللہ کے دین میں شریک نہیں کرتے ہیں، اپنے اقول وافعال میں رسول اکرم  ﷺ کی اتباع کرتے ہیں ۔انہوں نے یہ ارشاد باری سن لیا ہے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا

جو کچھ رسول دیں اسے لے لو، اور جس چیز سے روکیں ،رک جاؤ۔“ انہوں نے رسول اکرم  ﷺ کی فرماں برداری کی یہاں تک کہ انہیں بھیجنے والے کے پاس پہنچا دیا ۔ وہ آنحضرت  ﷺ کے قریب ہوئے ، آنحضرت  ﷺ نے انہیں اللہ کے قریب کر دیا۔ انہیں دربار الہی سے۔ القاب اورخلعتیں دلوائیں اور خلقت پر حکومت عطا کر وادی ۔

محبت، موافقت سے ہے اور عداوت ،مخالفت سے:۔

 اے منافقو! تمہارا گمان ہے کہ دین ایک قصہ کہانی ہے اور دین ایک مہمل اور بے کارامر ہے ،۔ تمہاری اورتمہارے شیطانوں اور تمہارے برے ہم نشینوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔

 اللهم تب على وعليهم وخلصهم من ذل النفاق و قيد الشرك الہی! میری اوران کی توبہ قبول فرما اور انہیں نفاق کی رسوائی اور شرک کی قید سے رہائی عطا فرما۔ تم اللہ کی عبادت کرو ،حلال کی کمائی سے اس کی عبادت پر مدد حاصل کرو۔ بے شک اللہ فرماں بردار ایمان والے ،حلال کی روزی کھانے والے بندے کو دوست رکھتا ہے -اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو کھائے اور کام کرے ، اور جو کھائے اور کام نہ کر ے ۔ وہ اسے دوست رکھتا ہے جو کما کر کھائے ۔ اور اس سے دشمنی رکھتا ہے جو کہ نفاق سے کھائے اور خلقت پر توکل کرے۔

و ہ توحید والے کو دوست رکھتا ہے اور مشرک کو دشمن۔ و ہ تسلیم ورضا والے کو دوست رکھتا ہے اور جھگڑا کرنے والے سے ناخوش۔ دوستی کی شرط پر موافقت کرتا ہے اور دشمنی کی شرط پر مخالفت ۔ اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو،اورد نیاوآخرت میں اس کی تدبیر کے ساتھ خوش رہو ایک بار میں کسی مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔ میں نے اللہ سے اس کے رفع کرنے کی دعا مانگی لیکن اس نے اس کے علاوہ ایک اور مصیبت مجھ پر ڈال دی، اس پر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔اس اثناءکسی کی آواز سنائی دی: ”ہم نے تجھے شروع میں نہ کہہ دیا تھا کہ تیری حالت تسلیم ورضا ) کی ہونی چاہئے ۔ چنانچہ مارے ادب کے میں چپ ہو گیا۔ تجھ پر افسوس ہے تو اللہ کی محبت کا دعوی کرتا ہے مگر دوستی اس کے غیر سے رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی سرا پا صفا ہے ، اس کا غیر مجسم کدورت! تیری غیر اللہ سے دوستی جب صفائی کو مکد رکر دے گی، تو تجھ پر کدورت ڈال دی جائے گی ،  تیرے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ جب وہ دونوں تھوڑی سی فطری پدری محبت کے ساتھ اپنے بیٹوں کی طرف مائل ہوئے تو دونوں کا ان بچوں ہی کے ساتھ امتحان لیا اور ہمارے نبی مکرم حضرت محمد ﷺ اپنے دونوں نواسوں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم کی طرف جب مائل ہوئے تو آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا: کیا آپ ان سے پیار کرتے ہیں؟‘‘ فرمایاں: ہاں ! – یہ سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: کی تدبیر کے ساتھ خوش رہو ۔ان میں سے ایک کو زہر پلایا جائے گا ، اور دوسرے کو شہید کیا جائے گا۔‘‘

اس وقت آپ  ﷺ نے دونوں کی محبت دل سے نکال دی ، اور دل کو اپنے مولی سے لگالیا، دونوں کے ساتھ جو خوشی تھی غم سے بدل گئی، اللہ تعالی اپنے نبیوں ولیوں اور نیک بندوں کے دلوں پر بڑی عزت رکھنے والا ہے، انہیں غیرکی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ اے نفاق سے دنیا کے طالب ! اپنا ہاتھ کھول ، اس میں کچھ بھی نہ پائے گا ، تجھ پر افسوس کہ تو نے محنت اور کمائی کو چھوڑ دیا ، اور دین کے بدلے لوگوں کے مال کھانے لگا۔ محنت مزدوری تمام نبیوں کا ذریعہ معاش تھا۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کا کوئی پیشہ نہ ہو، آخر کار انہوں نے اذن الہی سے خلقت سے کچھ لیا، اے دنیا کی شراب ، اور اس کی شہوتوں اور حرص میں بدمست ! عنقریب تجھے اپنی قبرمیں ہوش آ جائے گا ،اب بھی سمجھ جا۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 314،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 170دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں