حواس ظاہری

حواس ظاہری

اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں بہت سے حواس ظاہرہ اور باطنہ ودیعت فرمائے ہیں

حواس  دو قسم کے ہیں ایک حواس دماغی دوسرے حواس قلبی حواس دماغی دس ہیں  پانچ ظاہری پانچ باطنی

حواس انسانی صرف آلہ ادراک ہیں حقیقی ادراک صرف عقل کرتی ہے حواس ظاہری جنہیں ” قوی ظاہری “  بھی کہا جاتا ہے یہ ہیں

قوت باصرہ (دیکھنے کی طاقت )

 دیکھنے کے قوت ہے اس کا فعل بذریعہ آنکھ سے ہوتا ہے اس قوت سے اشکال(شکلیں) والوان(رنگ) کا ادراک ہوتا ہے

قوت سامعہ (سننے کی طاقت )

سننے کی قوت ہے آواز کا ادراک کرتی ہے اس کا فعل بذریعہ کان کے ہوتا ہے

قوت ذائقہ (چکھنے کی طاقت )

اس سے ہر شے کا مزہ معلوم ہوتا ہے اس کافعل بذریعہ زبان کے ہوتا ہے

قوت لامسہ (ٹٹولنے کی طاقت )

کسی شے کو چھو کر اور مس کر کے اس کی سختی و نرمی چکنا پن اور کھردراپن گرمی اور سردی کے محسوس کرنے کی قوت یہ جسم کی تمام جلد میں ہوتی ہے

قوت شامہ (سونگھنے کی طاقت)

قوت شامہ سے خوشبو اور بدبو کا ادراک ہوتا ہے اس کا فعل ناک کے ذریعے ہوتا ہے

حواسِ ظاہرہ کے ذریعے جومادیات کی معلومات حاصل ہوتی ہیں انھیں محسوسات اور مشاہدات کہا جاتا ہے۔

ان تمام حواس وقویٰ میں انسان و دیگر حیوانات معمولی فرق کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، سوائے قوت ناطقہ اور عاقلہ کے کہ یہ دونوں انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور انہی دونوں قویٰ کی بدولت انسان کو تمام حیوانات پر برتری حاصل ہے اور اس کی عظمت و شرف اور سید المخلوقات ہونے کی دلیل ہیں

حس مشترک

جب ہم حواس خمسہ ظاہری سے کسی چیز کو محسوس کرتے ہیں تواس کا طریقہ کاریہ ہوتا ہے کہ اس مادی شے کی صورت حواس باطنی کے ایک حاسے حس مشترک میں پہنچ کرہم کو معلوم ہوتی ہے۔ صورت سے مراد صرف شکل وہیئت ہی نہیں بلکہ ہر معلوم کو یہاں صورت کہتے ہیں۔ اس طرح مبصرات ،مسموعات، مشموعات ، مذوقات اور ملموسات سب کی صورتیں ہیں جو حس مشترک میں جاکر جمع ہوتی ہیں اور نفس ناطقہ یا روح ان کا مطالعہ کر کے ان کے بارے میں فیصلہ دیتے ہیں۔ یہی دراصل ہمارا فیصلہ ہوتا ہے۔ جو اس خمسہ ظاہری کے ذریعہ سے جو صورت حس مشترک میں پہنچ رہی ہے وہ وجود حسْی ” کہلاتی ہے اور جب صورتوں سے حواس ظاہری کا تعلق کاٹ دیا جائے تو یہ صورتیں فوراحس مشترک سے خیال میں چلی جاتی ہیں جو دوسرا حاسہ باطنی ہے اور یہی حس مشترک کا خزانہ ہے۔ خزانہ اس معنی میں کہ حواس ظاہری سے رشتہ منقطع ہونے کے بعد صورتیں خیال میں جمع ہو جاتی ہیں۔ پھر عند الضرورت جب ہم ان پر توجہ کرتے ہیں تو وہ دوبارہ حس مشترک میں آکر محسوس ہو جاتی ہیں۔ اب ان صورتوں کا وجود جو خیال سے حس مشترک میں آتی ہیں وجود خیالی کہلاتا ہے ۔ اس طرح حس مشترک، نفس ناطقہ یا روح کے مطالعہ صُور کا محل ہے ، گویا یہ روح کی وہ کتاب ہے جس میں روح حیات کا مطالعہ کرتی ہے۔ اور روح کی وہ کتاب جس میں وہ معانی وانتزاعیات کا مطالعہ کرتی ہے “وہم” ہے ۔ اس کا خزانہ حافظہ ہے یہ دونوں بھی باطنی حاسے ہیں


ٹیگز

حواس ظاہری” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں