اڑتالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اڑتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثامن والاربعون فی العمل الصالح‘‘ ہے۔

 منعقده 8 شعبان  45 5 بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ

اللہ کے غضب سے بچو، یہ خسارے کا سودا ہے

 رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: ۔

من تزين للناس بما يحبون وبارز الله بما يكره لقي الله عزوجل وهو عليه غضبان – “جس شخص نے اپنا بناؤ سنگھار ایسی چیز سے کیا جسے لوگ پسند کرتے ہیں ، اور اللہ سے ایسی چیز سے مقابلہ کیا جسے دو نا پسند کرتا ہے، اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا۔“

اے منافقو ! کلام نبوت سن لو، دنیا کے بدلے میں آخرت کا سودا کرنے والو ، مخلوق کے بدلے خالق کو بیچنے والو، اور باقی کے بدلے فانی کومول لینے والو! تمہاری یہ تجارت بڑے خسارے کی ہے، تمہارا اصل مال بھی جاتارہا۔ تم پر افسوس ! تم اللہ کے غصے اور غضب کا نشانہ بنے ہوئے ہو، کیونکہ جو ایسی چیز سے اپنی زینت بتا تا ہے ،اللہ تعالی اس پر غصہ فرماتا ہے، تو مکاری چھوڑ دے، اپنے ظاہر کو شرعی آداب سے مزین کر ، اور خلقت کو باطن سے نکال کر باطن کو سنوار ، خلقت کے دروازے بند کر دے اور اسے اپنے دل سے فنا کر ڈال،  یوں سمجھ کہ خلقت پیدا ہی نہیں ہوئی ۔ ان کے ہاتھوں سے نفع اور نقصان نہ دیکھ، تو نے قلب کی زینت چھوڑ دی اور قالب کی زینت میں لگ گیا۔ دل کی زینت توحید اور اخلاص اور اللہ پر بھروسہ کرنے اور اس کے ذکر کرنے اور اس کے غیر کو بھلا دینے میں ہے، حضرت عیسی علیہ السلام نے  ارشاد فرمایاالعمل الصالح هو الذي لا تحب أن تحمد عليه – نیک عمل وہی ہے جس پر تعریف کی امید نہ کی جائے کہ لوگ تیری تعریف کریں۔ اے آخرت کے لحاظ سے بیوقوفو، دیوانو! – اور دنیا کے لحاظ سے عاقلو!  یہ عتقل ایسی ہے جو تمہیں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ تو ایمان کو حاصل کرنے میں کوشش کر تجھے ایمان حاصل ہو جائے گا توبہ کر اور عذر کر اور شرمسار ہو، اپنی آنکھوں سے رخساروں پر آنسو بہا اللہ کے خوف سے رونا گناہوں اور غضب الہی کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ جب دل سے توبہ کرو تو سچی توبہ کا نور چہرے پر چمکنے لگے گا، تیرا چہرہ روشن ہو جائے گا۔

 جب تک قدرت ہے راز چھپانے کی کوشش کرتارہ:

ارشادفرمایا۔

اے بیٹا! اپنے راز کی حفاظت کر ، جب تک تجھے قدرت ہے تو حفاظت کی کوشش کرتا رہ، جب تو مغلوب ہو جائے اور راز ظاہر ہوہی جائے ، تب تو معذور ہے۔ کیونکہ محبت پر دے اور ستر کی دیواروں کو گرادیتی ہے، اور حیا اور وجود اور خلقت کی نظر کرنے کی دیواروں کو خراب اور ویران کر دیا کرتی ہے۔

خود ساختہ وجدوالے کو باہر نکال دینے کا  حکم ہے، اور جو بے اختیار وجد میں آ جائے ، اس کے قدموں کی خاک کا سرمہ بنایا جاتا ہے کیونکہ بناوٹ نفسانی امر ہے اور غلبہ بے اختیاری امر ہے، وہ مخلوق کے دکھانے کا ہے اور وہ رب والا ہے ۔ کوشش کر تو نہ ہووہی ہو، کوشش کر کے نقصان کے ازالے اور نفع کے حصول کے لئے تو کوئی حرکت نہ کرے، جب تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالی تیرے لئے ایک خادم مقرر کر دے گا ، اور تیری حفاظت کرتا رہے گا، اور تجھ سے ہر طرح کی تکلیف دور کرتا رہے گا، تو اللہ کے ساتھ ایسا ہو جا جیسے نہلانے والے کے ہاتھ میں مردہ ہے، جیسے چاہتا ہے پلٹ دیتا ہے۔ جیسے کہ اصحاب کہف حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ تھے تو اللہ کے ساتھ بلا وجود اور بے اختیار اور بنا تدبیر کے ٹھہرارہ، اس کے سامنے اس کی قضاؤں اور قدروں  کے مصائب در پیش آتے وقت اس کی تقدیر پر ایمان کے ساتھ ثابت قدم رہ۔ ایمان، تقدیر کے ساتھ قائم رہتا ہے، جبکہ نفاق تقدیر سے بھاگتا ہے،منافق پر جب چند دن اور راتیں گزرتی ہیں اس کا بدن دبلا ہو جاتا ہے۔ حرص اور عادت اورنفس موٹا ہو جا تا ہے۔

 اس کے باطن اور دل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں ،  اس کے گھر کا دروازه آباداور اس کا اندرونی حصہ ویران، اللہ کا ذکر زباں سے کرتا ہے دل سے نہیں ، اس کا غصہ نفس کے لئے ہے اللہ کے لئے نہیں،جبکہ مومن کا معاملہ اس کے برعکس ہے:

 اللہ کا ذکر زبان و دل دونوں سے کرتا ہے ، اس کی زبان اکثر ساکت اور دل ذاکر ہوتا ہے۔ اس کا غصہ اللہ ورسول کے لئے ہے، اپنے نفس اور حرص اور عادت اور دنیا کے لئے نہیں۔نہ کسی پرحسد کرتا ہے نہ کوئی اس پر حسد کرتا ہے۔ نہ خوشحالوں سے ان کی خوشحالی پر جھگڑا کرتا ہے ۔

کسی خوشحال سے جھگڑا کرنا خجالت اور رسوائی کا باعث ہو سکتا ہے

اے بیٹا! تو خودکو اس بات سے بچا اور پھر بچا کر تو کسی خوشحال سے جھگڑا کرے ۔ کیونکہ وہ تو سلامت رہے گا اور بلند مرتبہ ہو جائے گا ،تو مارے حسد کے خجل اور ذلیل ہوتا ہے۔ دشمنی و جھگڑے سے ہلاک ہو جائے گا ، ۔ جھگڑا کر کے تو اس کے نصیب کو کیسے بدل سکتا ہے۔ حالانکہ جونعمتیں اسے میسر ہیں ، اللہ کے علم میں سابق ہو چکی ہیں ۔ جب تو اللہ کے ساتھ اس کے سابق علم میں اپنے اور غیر کے بارے میں جھگڑا کرے گا تو اللہ کی نظر سے گر جائے گا ، تیراعمل تجھے کچھ فائدہ نہ دے گا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:  عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ  “عمل کر نے والامحض مشقت اٹھانے والا ہے ۔‘‘ تو ان کی بارگاہ میں تو بہ کر لے معصوم بندہ عقل اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے گناہوں سے بچارہتا ہے، تجھ پر اللہ کی طرف سے جو مصیبت آئی ہے، اس کی وجہ سے وہ اللہ کی طرف آنے کے ارادے سے باز نہیں رہتا، تو اس مصیبت کا اپنے سے دور ہونے کا انتظار کر اور اللہ سے نا امید نہ ہو۔ کیونکہ ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کشائش ہے۔

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ – وہ ہر ایک دن نئی شان میں ہے ۔“ وہ ایک قوم کی حالت دوسری قوم کی طرف پلٹا دیتا ہے۔اس کے ساتھ صبر کر اور اس کی تقدیر پر راضی رہ۔ کیونکہ لَا تَدْرِي ‌لَعَلَّ ‌اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا

تو نہیں جانتا کہ شائد اللہ تعالی اس کے بعد کوئی اور راہ نکال دے، جب تو بلا پر صبر کرے گا تو تیری بلا ہلکی کردی جائے گی اور تیرے لئے کوئی ایسی راہ نکال دے گا جسے وہ بھی پسند کرے گا اورتو بھی راضی ہوگا، اور جب تو جزع فزع کرے گا اور تقدیر پر اعتراض کرے گا تو وہ تجھ پر بلا اور بھی بھاری کر دے گا ، اور تیرے اعتراض کی وجہ سے اس کا غصہ اور عذاب بھی بڑھ جائے گا۔ اے لوگو! تم پر بلا اس لئے نازل ہوتی ہے کہ اللہ پر اعتراض کرتے ہو اور اس سے جھگڑا کرتے ہو، اپنے نفسوں اور خواہشوں اور اپنی غرضوں کے ساتھ قائم ہو، دنیا کی محبت میں اس کے جمع کرنے کی حرص میں جمے ہوئے ہو۔

اگر دنیا کے بغیر چارہ نہ ہوتو …

 اے مسلمانو!اگر دنیا کے بغیر چارہ نہ ہو تو تمہارے نفس کودنیا  کے دروازے پر رہنا چاہیئے، اور تمہارے دل کو آخرت کے دروازے پر، اور تمہارے باطن کو اللہ کے دروازے پر رہنا چاہئے ، یہاں تک کہ

نفس دل بن جائے اور جومزادل نے لیا ہے نفس بھی حاصل کرے۔اور دل کا باطن بن جائے ، اور جو مزا باطن نے لیا ہے ، دل بھی حاصل کرے۔اور باطن ذات الہی میں فنا ہو جائے ، نہ مزالے اور نہ مزاد یا جائے ۔ ایسے میں وہ کیمیا بن جائے گا، اور ایک درہم جب ہزار مثقال تانبے میں ڈالا جائے گا تو وہ تانبے کو سونا بنادے گا۔( انسان کمال کی ) یہ غایت کلی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

خوش خبری ہے اس کے لئے جس نے میرے قول کو سمجھا اور اس پر ایمان لایا –

خوش خبری ہے اس کے لئے جو اس پر اخلاص سے عمل کرے ۔ خوش خبری ہے کہ جس نے عمل کو اپنے ہاتھ میں لیا اور جس کے لئے عمل کیا ہے اس کے قریب کر دے۔

 مر کے تو مجھے دیکھے گا ، میں تجھ سے تکلیف دور کروں گا:

اے بیٹا! جب تو مر جائے گا تو مجھے دیکھے گا اور پہچانے گا ،اپنے دائیں بائیں دیکھے گا کہ میں نے تیرا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، اور تجھ سے تکلیف کو دور کر رہا ہوں اور تیرے حق میں سوال کرتا ہوں ، تو کب تک خلقت کو اللہ کا شریک ٹھہراتا رہے گا اور اس پر بھروسہ کرتارہے گا، تجھ پر واجب ہے کہ تو جان لے کہ ان میں سے کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان ۔ نہ کوئی فقیر، نہ کوئی غنی، نہ کوئی معزز، نہ کوئی ذلیل، تو اللہ ہی کو لازم پکڑ ، نہ خلقت پر بھروسہ کر ، نہ اپنی کمائی اور قوت اور طاقت پر بھروسہ کرے ۔ اللہ کے فضل پر بھروسہ کر ، اس پر توکل کر جس نےتجھے کسب پر قدرت عنایت کی ہے، اور خاص اس نے تجھے رزق دیا ہے، جب تو ایسا کرے گا تو وہ تجھے اپنے ساتھ سیر کرائے گا، تجھے اپنے عجائبات قدرت وعجائبات علم از لی دکھائے گا، تیرے قلب کو اپنی طرف ملا لے گا اس ملاقات کے بعد وہ تجھے گزرے زمانے کی یا دلائے گا ، جس طرح کہ وہ جنت میں اہل جنت کو دنیا یاد دلائے گا۔ جب تو سبب کے حال کو توڑ دے گا تو سبب پیدا کرنے والے کی طرف پہنچ جائے گا، جب تو اپنی عادت کے خلاف کرے گا تو تجھ سے خلاف عادت ظاہر ہوگا ۔

جو خدمت کرتا ہے وہ مخدوم بنالیا جا تا ہے، جوا کرام کرتا ہے، اس کا اکرام کیا جاتا ہے، جو قریب ہوتا ہے اسے  قرب دیا جاتا ہےجو فرمانبرداری کرتا ہے وہ مطاع  بنا دیا جاتا ہے جو تواضع کرتا بلند کیا جاتا ہے- جواحسان کرتا ہے، اس پر احسان کیا جا تا ہے،  جوحسن ادب اختیار کرتا ہے ، اس کوقرب نصیب ہوتا ہے،  حسن ادب تجھے قریب کر دے گا جبکہ بے ادبی و گستاخی دور کر دے گی ۔ حسن ادب اللہ کی اطاعت ہے، اور گستاخی ،اللہ کی بے ادبی ونافرمانی ہے ۔

 اپنے نفس کے محاسبہ میں تاخیر نہ کرو:۔

 اے لوگو! اللہ کے سامنے اپنے نفسوں کو پیش کرو اور ان کے محاسبہ میں تاخیر نہ کرو،  اس میں اپنے نفسوں کے لئےآخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلدی کرو ، رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: ۔ إن الله عز وجل يستحي أن يحاسب المتورعين من عباده في الدنيا ’’جن نیک بندوں نے دنیا میں پر ہیز گاری اختیار کی، ان کا حساب کرتے ہوئے شرم فرمائے گا ۔‘‘۔یعنی حساب نہ لے گا تو پرہیزگاری اختیار کر ورنہ کل تیری گردن میں رسوائی کی رسی ہوگی تو دنیا میں اپنے تصرفات میں پر ہیز گاری کر ، در نہ دنیا  وآخرت میں تیری خواہشیں حسرتوں سے بدل جائیں گی ۔د نیا آگ کا گھر اور درہم غم فکر کا گھر ہے، جبکہ تو نے انہیں حرام طریقہ سے حاصل کیا ہو، اور حرام طریقہ سے خرچ کیا ہو ۔ جو کچھ میں تجھے کہہ رہاہوں، قیامت کے دن تجھ پر ظاہر ہو جائے گا۔ آج تو اندھا اور بہرہ ہے، رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: حُبُّكَ الشَّيْءَ ‌يُعْمِي ‌وَيُصِمُّ  کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے ۔“

تو اپنے دل کو دنیا کی محبت سے خالی کر کے برہنہ ہو جا، اسے بھوکا پیاسا رکھ، تا کہ اللہ تعالی اسے پہنائے، کھلائے اور پلائے اپنا ظاہر و باطن اللہ کے سپرد کر دے،تد بیر کو چھوڑ دے۔ وہی ہو تو نہ ر ہے ، ہمیشہ خدمت گزاررہ ، کیونکہ دنیاعمل کا گھر ہے اور آخرت اجرت وعطا اور بخشش کا گھر ہے، ۔ اکثر صالحین کا یہی طرز عمل ہے، یہاں عمل کر  وہاں بدلہ پائیں ، انہیں صالحین میں سے کچھ وہ بھی ہیں جنھیں دنیا میں کام کرنے سے وہ نکال دیتا ہے، ان پر رحم اور احسان فرماتا ہے اور آخرت سے پہلے ہی دنیا میں بھی انہیں راحت بخشتا ہے۔ ان کے فرائض ادا کر لینے کو کافی سمجھتا ہے اور انہیں نوافل سے راحت دیتا ہے، کیونکہ فرائض تو کسی بھی حال میں کسی بھی مقام پر ساقط نہیں ہوتے ۔ ایسا رتبہ ہزاروں بندگان خدا میں سے کسی ایک کا ہی ہوتا ہے اور وہ بہت ہی کامیاب ہیں۔

 دنیا سے منہ پھیر لے، دنیا میں ہی راحت پائے گا:

اے بیٹا! زہد کر اور دنیا سے منہ پھیر لے، دنیا میں ہی راحت پائے گا ، اور دنیا سے جو کچھ تیرے نصیب میں ہوگا وہ تجھے تک ضرور پہنچ کر رہے گا، تیرا نصیب تیرے پاس پہنچے بغیر نہ رہے گا ، حالانکہ تو معزز ومکرم سوال کیا گیا ہوگا ۔ ایسے میں خود نصیب تجھ سے قبول کے لئے عرض کرے گا، تو اپنے نفس اور خواہش نفس کے ساتھ نہ کھا، کیونکہ یہ ایک حجاب ہے جو تیرے دل کو اللہ سے روکتا ہے مؤمن اپنے نفس کو اپنے نفس کے لئے نہ کھلاتا اور نہ پہنا تا ہے اور نہ کوئی فائدہ پہنچا تا ہے بلکہ کھاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت پرقوت حاصل ہو ،  اس لئے کھا تا ہے کہ اس کے ظاہری قدم اللہ کے سامنے جھکے ر ہیں ،اسے خواہش نفسانی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا ۔ ولی اللہ اللہ کے حکم سے کھا تا ہے ، اور ابدال جو قطب کا وزیر ہوتا ہے، اللہ کے فعل سے کھاتا ہے، اور قطب کا کھانا اور تمام تصر فات رسول اکرم  ﷺ کے کھانے اور تصرفات کی مانند ہوتے ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ قطب تو رسول اللہ  ﷺ کا غلام اور نائب اور آپ کی امت میں خلیفہ ہے ۔ وہ تو رسول اکرم  ﷺ کا خلیفہ ہے،قلب باطنی خلیفہ ہے، اور مسلمانوں کا امام جوان کا بادشاہ ہے وہ ظاہری خلیفہ ہے۔ اور اس کی خصوصیت یہ ہے جس کی اطاعت ومتابعت ترک کرنا حلال نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا بادشاہ عادل ہوتو وہ قطب زمانہ ہوتا ہے، یہ مت سوچ لینا کہ ولایت یا قطبیت کوئی آسان کام ہے ۔ تم پر فرشتے مقرر ہیں جو تمہارے ظاہری افعال کا شکار اور نگہداشت کرتے ہیں۔ جبکہ باطنی افعال کی نگہداشت اللہ تعالی خود فرماتا ہے، تم میں سے ہر ایک قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا ہر ایک کے ساتھ وہ فرشتے ہوں گے جو دنیا میں اس کی نیکیاں اور بدیاں لکھ رہے تھے۔ ان کے پاس ننانوے رجسٹر ہوں گے، ہر ایک رجسٹر حد نظر تک دراز ہوگا۔ اس میں نیکی اور بدی اور جو کچھ اس سے دنیا میں صادر ہوا، سب کچھ لکھا ہوگا، ہر ایک کو ان سب کو پڑھنے کے لئے کہا جائے گا ،خواہ اس نے دنیا میں اچھی طرح لکھنا پڑھنانہ سیکھا ہوگا اور وہ اسے پڑھے گا ۔ چونکہ دنیا حکمت کا گھر ہے اور آخرت، قدرت کا گھر ہے۔ دنیا اسباب وذرائع کی محتاج ہے، آخرت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر کوئی دفتر کے لکھے سے انکاری ہوگا تو اس کے اعضاء بول کر اس لکھنے کی تصدیق کریں گے، ہر ایک عضو نے جو کچھ دنیا میں کیا، اس پر الگ الگ بات کرے گا، تم   ایک بڑے امر کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور تمہیں اس کی خبر ہیں، ارشاد باری تعالی ہے :

‌أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ “تمہارایہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 323،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 174دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں