اٹھارہویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اٹھارویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثامن عشر فی جھاد النفس والھوی والشیطان ‘‘ ہے۔

منعقده 12/ ذیعقدہ545 بروز اتوار بوقت صبح  بمقام خانقاہ شریف

ظاہری جہاداور باطنی جہاد:

حضرت شیخ قدس سره العزیزنے کچھ کلام کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ  نے تمہیں دو جہادوں کی خبردی ہے ایک ظاہری جہاد ہے، اور ایک باطنی جہاد باطنی جہاد یہ ہے کہ نفس اور خواہش اور شیطان اور طبیعت سے لڑو، گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرو، حرام خواہش کو چھوڑ کر توبہ پر ثابت قدم رہو –

ظاہری جہاد یہ ہے کہ کافروں سے جو اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کے حکموں سے روکنے والے ہیں جنگ کرو، ان کی تلواروں اور تیروں اور نیزوں کا مقابلہ کرو، یہاں تک کہ قتل ہو جاؤ یاقتل کرڈالو 

باطنی جہاد، ظاہری جہاد سے بہت سخت اور مشکل ہے کیونکہ وہ ایک لازم شے ہے اور بار بار آنے والی ہے ، اور باطنی جہادہ ظاہری جہاد سے کیونکر سخت نہ ہو، اس لئے کہ اس میں نفس کو لبھانے والی چیزوں حرام چیزوں کو چھوڑنا ہے، اور تمام شرعی احکام کو بجا لانا اور تمام ممنوعات سے باز رہنا ہے۔ چنانچہ جوشخص دونوں جہادوں میں احکام الہی پرعمل پیرا ہوا ،اسے دنیا اور آخرت دونوں کی جزائیں حاصل ہوئیں ، شہید کے بدن پر لگنے والے زخم ایسے ہیں کہ کسی کے ہاتھ میں فصد کھولی جائے ، ان زخموں سے شہید کو ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی ، اور جوشخص نفس سے جہاد ( مجاہدہ نفس ) کرنے والا ہے ، اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہے ، اس کے لئے موت ایسی ہے جیسے کسی پیاسے کو ٹھنڈا پانی مل جائے ۔

اللہ کے محبوب بندے کے لئے ہرلحظہ ایک خاص امر و نہی ہے:

اے لوگو! اللہ تعالی تمہیں کسی چیز کی تکلیف نہیں دیتا مگر تمہیں اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے ۔ اللہ کے محبوب بندے کے لئے ہر لحظہ ایک خاص امر ونہی ہے، جو دوسری مخلوق اور منافقوں کے علاوہ نفس پرقلبی اعتبار سے لازم ہے، اہل نفاق جو اپنی نادانی کے باعث اللہ اور رسول  ﷺ کے دشمن ہیں وہ (اللہ ورسول کی اس دشمنی کی وجہ ہے ) دوزخ میں ضرور داخل ہوں گے ، اور یہ لوگ دوزخ میں کیوں نہ داخل ہوں گے حالانکہ دنیا میں اللہ کی مخالفت کرتے رہے اور اپنے نفسوں اور خواہشوں اور حرصوں اور عادتوں اور شیطانوں کی موافقت میں لگے رہے، اور آخرت پر دنیا کو اختیار کرتے رہے۔ یہ دوزخ میں کیسے نہ داخل ہوں گے، انہوں نے قرآن کوسنا اور اس پر ایمان نہ لائے ،  نہ اس کے حکموں پرعمل کیا اور نہ ان چیزوں سے ر کے جن سے روکا گیا تھا۔

اللہ والوں کو تمنا ہے کہ ربانی تابعداری سے کسی وقت بھی خالی نہ رہیں:

 اے لوگو! قرآن مجید پرایمان لاؤ اور اس پر عمل کرو ،اپنے اعمال اخلاص کے ساتھ بجا لاؤ، اعمال میں ریا کاری اور نفاق کو دخل نہ دواعمال پرخلقت سے تعریف اور اس سے بدلہ نہ مانگو،مخلوق میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں (یعنی خاص افراد ہیں جو قرآن مجید پر ایمان لائے ، اور اس پر خاص اللہ کے لئے عمل پیرا ہوئے ۔ اس لئے اخلاص والے تھوڑے ہیں اور نفاق والے بہت ، اللہ کی تابعداری میں تم کتنے کامل ہو، اور اللہ کے دشمن اوراپنے دشمن شیطان مردود کی تابعداری میں کتنے زیادہ مستعد ہو، اللہ والوں کی تو یہی تمنا ہے کہ اللہ کی تابعداری میں کسی وقت بھی خالی نہ رہیں، انہیں پتہ ہے کہ تکلیفوں اور قضاؤں اور بلاؤں کو برداشت کرنے ( ان پر صبر ، کرنے سے دنیا و آخرت میں بھلائی بکثرت حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ تعالی کے تصرفات اور تبدیلیوں میں ہمیشہ اس کی موافقت کرتے رہتے ہیں۔ ۔ کبھی صبر میں اورکبھی شکر میں، کبھی قرب میں اور کبھی دوری میں کبھی مہر میں میں کبھی رنج میں اور کبھی راحت میں، کبھی غنا میں اور کبھی فقر میں، کبھی صحت میں اور کبھی مرض میں،

ان سب کی تمنائیں یہی ہیں کہ اپنے دلوں کی حفاظت اللہ تعالی کے ساتھ رکھیں، اہل دل کی آرزو یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ رہ کر اپنی اور خلقت کی سلامتی کی تمنا کرتے ہیں ، اور خلقت کی اصلاح وفلاح کے لئے سوالی رہتے ہیں۔

اللہ کی اطاعت میں سب طرح کی سلامتی ہے:

اے بیٹا تو صحیح و درست بن فصیح ہو جائے گا، تو حکم میں صحیح  بن، ہر حکم مانتارہ علم میں صحیح ہو جائے گا ، باطن میں صحیح ہو، ظاہر میں فصیح ہو جائے گا ۔ اللہ کی اطاعت میں سب طرح کی سلامتی ہے  اطاعت یہی ہے کہ اس کے تمام حکموں کی تعمیل کرو، اس کے منع کردہ سے باز رہو، اورقضا الہی پر صبر کرو، جو شخص اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے ، اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے ۔ اور جو اس کی اطاعت کرتا ہے ، ساری مخلوق اس کی مطیع ہو جاتی ہے وہ سب کو اس کا تابع فرمان بنا دیتا ہے۔ 

جو کچھ اپنے لئے چاہتے ہو، دوسرے کے لئے بھی وہی چاہو

 اے لوگو! میری نصیحت قبول کرو، کیونکہ میں تمہاری بھلائی چاہنے والا ہوں ۔ میں اپنے آپ سے اور تم سب سے اپنی تمام حالتوں میں جدا ہوں ، جن کاموں میں تم مشغول ہو، میں اس سے الگ ہوں، میرے اور تمہارے درمیان اللہ جو کچھ کرتا ہے، اس کے لئے میں سیر کرتا رہتا ہوں ، تم مجھ پر تہمت نہ لگاؤ کیونکہ جو کچھ جو اپنے لئے چاہتا ہوں، وہی کچھ تمہارے لئے چاہتا ہوں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:۔ لا يكمل المؤمن إيمانه حتى يريد لأخيه المسلم ما يريده لنفسه  مومن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ، جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیئے وہی چیز نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔“ یہ فرمان ہے ہمارے امیر اور سردار اور بزرگ اور ہمارے سفیر اور شفاعت کرنے والے، جو آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ۔ قیامت تک ہونے والے نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کے پیشوا ہیں ، ۔ جو شخص جو چیز اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہے اگریہی چیز اپنے مسلمان بھائی کے لئے نہ چاہے، تو اس سے اس کے ایمان کے کمال کی نفی ہوتی ہے، جب تم اپنے نفس کے لئے اچھے کھانے اور عمده لباس اور بہتر مکان اور اچھے مواقع اور بہت سا مال چا ہو۔ اور اپنے مسلمان بھلائی کے لئے اس سے برعکس چاہو تو تم اپنے کمال ایمان کے دعوی میں جھوٹے ہو۔ اے کم سمجھ والے تیرا ہمسایہ فقیر ہے، تیرے گھر والے فقیر ہیں ، اور تیری ملکیت میں جو مال ہے وہ اس قدر ہے کہ اس پر زکوۃ فرض ہے، اس مال پرتجھے ہر روز نفع حاصل ہوتا ہے، یہ نفع درنفع کا معاملہ ہے، تیرے پاس اتنامال ہے جو تیری حاجت سے زیادہ ہے۔ ایسے حال میں ضرورت مندوں کو نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ تو ان کی تنگی پر رضامند ہے، کیونکہ نفس اور حرص اور شیطان تیرے پیچھے لگے ہیں، اس لئے نیکی کا کام تجھ پرآسان نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ حرص کی قوت ہے،خواہشوں کی کثرت ہے۔دنیا کی محبت ہے اور ایمان کی قلت ہے۔

تو (غیر محسوس طور پر) اپنے نفس ، اپنے مال اور خلقت کے باعث شرک میں مبتلا ہے، تجھے اس کی ذرا بھی خبر نہیں کہ تجھے دنیا کی کتنی رغبت ہے اور دنیا کی حرص کتنی بڑھ گئی ہے ، جوموت کو اور اللہ سے ملنے کو بھول گیا ، وہ حلال اور حرام میں کچھ فرق نہیں کرتا تو ان کافروں کی طرح ہو گیا  جنہوں نے کہا

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا ‌الدَّهْرُ            

اور کہنے لگے: زندگی تو یہی دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں ہمیں تو صرف زمانے کی گردش مارتی ہے ۔

 گویا تو بھی انہیں لوگوں میں سے ایک ہے مگر تو نے اسلام کا زیور پہن لیا ہے کلمہ پڑھ کر اپنا خون بچالیا ہے،نماز روزے میں مسلمانوں کی طرح عادت سے ہو عبادت سے نہیں ، لوگوں پر اپنی پرہیزگاری ظاہر کرتے ہو، حالانکہ تیرادل نا فرمان ہے، ایسا کرنے سے تجھے کیا فائدہ حاصل ہوگا ۔ 

سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر شام کوحرام سے افطار کرنا بے فائدہ ہے: 

اے لوگو! سارا دن بھوکا پیاسارہ کر شام کوحرام مال سے روزہ افطار کرنا بے فائدہ ہے، دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات کو نا فرمانی میں گزار دیتے ہو اے حرام کھانے والو ! دن میں اپنے نفسوں کو پانی پینے سے باز رکھتے ہو اور شام کو مسلمانوں کے خون سے روزہ افطار کرتے ہو، تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو بدکاری کرتے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:

لا تخذل أمتى ما عظموا شهر رمضان”میری امت جب تک ماہ رمضان کی تعظیم کرتی رہے گی ، رسوانہ ہوگی ۔

رمضان المبارک کی تعظیم یہ ہے کہ اس  میں پر ہیز گارر ہو ۔ اور یہ کہ شرعی حدود کی حفاظت کرتے ہوئے روزے  رکھو ، اور روز و صرف اللہ ہی کے لئے ہو۔

 اے بیٹا! روزے رکھو، اور افطار کے وقت اپنی افطاری سے کچھ فقیروں کو بھی دو ، اور یوں ان کی غم خواری کرو، اکیلے نہ کھاؤ، کیونکہ جس نے اکیلے کھایا اوروں کو نہ کھلایا اسے محتاجی اور تنگ دستی کا خوف ہے ۔

اسلام کی سب شرائط بجا لا و یا مسلمان کہلا نا چھوڑ دو :

اے لوگو! تم خودتو پیٹ بھر کر کھاتے ہو، اور تمہارے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں ۔ اور تم دعوی کرتے ہو کہ ہم ایماندار ہیں ، تمہارا ایمان صیح حالت میں نہیں ہے، ۔ ( کیسی عجیب بات ہے کہ) تمہارے پاس کھانا کثرت سے ہو اور تمہارےگھر والوں سے بیچ رہے ، ایسے میں دروازے پر کھڑ اسائل محروم لوٹ جائے ، جلد ہی تجھے اپنا پتہ چل جائے گا، جلدہی تو اس سائل جیسا ہو جائے گا ، اور ویسا ہی محروم لو ٹایا جائے گا جیسے کہ تو نے قدرت ہونے کے باوجود اسے محروم لوٹایا تھا۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تو کیوں نہ کھڑاہوا، اور جو کچھ  تیرے سامنے موجود تھا  اس میں  سے لے کر فقیر کو کیوں نہ دیا  تو دواچھی باتیں جمع کر لیتا ،تواضع سے کھڑا ہوتا ، اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں دیتا ۔

ہمارے نبی حضرت محمد  ﷺ : سائل کو اپنے ہاتھ سے عنایت فرماتے ، اونٹنی کو اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے ، بکری کا دودھ اپنے ہاتھ سے دوہتے،اپنے کرتے کی سلائی اپنے ہاتھ سے کیا کرتے۔ تم رسول الله ﷺ کی پیروی کا کس طرح دعوی کرتے ہو، حالانکہ عملی طور پر رسول اللہﷺکے اقوال اور افعال کے مخالف چلتے ہو، تمہارا دعوی تو لمبا چوڑا ہے جس کا کوئی گواہ نہیں، ایک مثل مشہور ہے:

یا تو تم خالص یہودی ہو جاؤ یا توریت پر فریفتہ ہونا چھوڑ دو ۔‘‘

اسی طرح میں تم سے بھی کہتا ہوں: یا تو اسلام کی سب شرائط بجالا و یا مسلمان کہلانا چھوڑ دو۔“

اسلام کی سب شرائط کا بجالا ناتم پر لازم ہے، پھر اسلام کی حقیقت کو ثابت کرو، اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے سامنے سرجھکا دویعنی اللہ کے سامنے تسلیم ورضا اختیار کرو۔آج دنیا میں مخلوق سے غم خواری کرو گے تو کل قیامت کے دن اللہ اپنی رحمت سے تمہاری غم خواری کرے گا ، تم زمین والوں پر رحم کروتا کہ آ سمان والا تم پر رحمت فرمائے ۔

 کچھ مقام پانا ہے تو نفس کا ساتھ چھوڑ دے:

اس کے بعد سرکار غوث الاعظم قدس سره العزیز نے کچھ بات کی ، پھر فرمایا: جب تک اپنے نفس کے ساتھ قائم رہے گا، تب تک اس مقام تک پہنچے گا،  جب تک نفس کی خواہش کے مطابق اسے لذتیں پہنچائے گا تو اس کی قید میں رہے گا ، نفس کو اس کا پورا حق دے، اس کے حصہ ( کی لذت) سے باز رکھ، نفس کو اس کا حصہ دینے میں نفس کی بقا ہے، اورنفس کو اس کا حصہ (لذت پہنچانے سے اس کی بربادی ہے نفس کا ضروری حق یہ ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے ، پانی پلایا جائے ،لباس پہنا یا جائے ، اور رہنے کے لئے ٹھکانہ دیا جائے ، جبکہ نفس کا حصہ لذتیں اور اس کی خواہشیں ہیں ( اس سے نفس کو باز رکھ ) ۔ نفس کا حق شریعت کے ہاتھ سےلے،اور اس کا حصہ جوعلم خداوندی میں سابق ہو چکا ہے، قضا وقدر کے سپرد کر دے۔ نفس کو مباح چیزیں کھلاؤ اور حرام سے بچاؤ ، نفس کو شرع کے دروازے پر بٹھاؤ اور اس کے لئے شریعت کی پابندی کرنا ضروری قرار دے دو۔ اس صورت میں تم نے فلاح ونجات حاصل کر لی ۔ کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ ‌فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا

رسول ( ﷺ ) جو کچھ عنایت کریں لے لو، ، اور جس چیز سے روکیں ، رک جاؤ۔‘‘ تھوڑے پر صبر کر کے اس پر اپنے نفس کو ٹھہراؤ،  بعد میں اگر تقدیر اور علم الہی کے ہاتھوں تیرے پاس بہت زیادہ آ جائے تو اس میں تو محفوظ ہوگا ، اگرتھوڑے پر صبر کرلو گے تو نفس بر بادنہ ہو گا، اور جو اس کے نصیب کا ہے وہ کہیں نہ جائے گا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:

 ایمان والے کے لئے اتنا کافی ہے جتنا بکری کے بچے کے لئے یعنی مٹھی بھر خشک گھاس اور ایک گھونٹ پانی ۔‘‘ مؤمن قوت لا یموت کھا تا ہے اور زادراہ کی مانند لیتا ہے ، جبکہ منافق خوب مزے اڑاتا ہے ، مومن اس وجہ سے تھوڑا کھانالیتا ہے کہ وہ ابھی رستے میں ہے، ابھی منزل پر نہیں پہنچا، اسے پتہ ہے کہ منزل پر پہنچنے پر اس کی تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ، جبکہ منافق کے لئے نہ کوئی منزل ہے نہ مقصد، تمہاری طرف سے دنوں اور مہینوں میں کس قدر کوتاہی ۔ اپنی زندگی بلا مقصد اور بے فائدہ گزار کر ضائع کر رہے ہو، یہ میرے دیکھنے کی بات ہے کہ دنیا( کے معاملے) میں تم ( کوئی کمی) کوتاہی نہیں کرتے ،جبکہ اپنے دینوں میں کوتاہی کر کے نقصان کر رہے ہو، اس کے برعکس کرو گے تو اچھےر ہو گے۔ دنیا کسی کے ساتھ نہیں رہی، (اپنی عادت کے مطابق) تمہارے ساتھ بھی نہیں رہے گی۔

اپنی آخرت بر بادکر کے کسی کی دنیا آباد نہ کرو

اے لوگو! کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے زندہ رہنے کا کوئی پروانہ آ گیا ہے؟  کس قدر ناقص سمجھ کے مالک ہو جو شخص

– اپنی آخرت بربادکر کے کسی کی دنیا آباد کرتا ہے۔وہ دوسروں کے لئے دنیا جمع کر کے اپنادین خراب کرتا ہے؟ اپنے اور خدا کے درمیان دوری ڈالتا ہے، اپنے جیسی مخلوق کی خاطر اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے۔

اگر وہ جان لے اور یہ یقین کر کے کہ عنقریب وہ مرنے والا ہے، اسے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اوراللہ تعالی سب طرح کے اعمال کا حساب لینے والا ہے، تو وہ ضرور اپنے بہت سے اعمال میں سیدھی راہ پر آ جا تا۔

حضرت لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو نصیحت :

حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا! جب تم بیمار پڑتے ہو تو نہیں جانتے کہ بیماری کیسے آئی ، ، اسی طرح مر جاؤ گے تو خبر نہ ہوگی کہ موت کیسے آ گئی، میں تمہیں ڈراتا ہوں اور منع کرتا ہوں ،  نہ تم خدا کا خوف کرتے ہو اور نہ ا پنی بری حرکتوں سے باز آ تے ہو ، اے بھلائی سے غائب رہنے والو!د نیا میں شغل کرنے والو! دنیا عنقریب تم پرحملہ کر کے تمہارا گلا گھونٹ دے گی ، اور جو کچھ دنیا کے ہاتھ سے جمع کیا ہے، وہ تمہیں کچھ بھی فائدہ نہ دے گا ، دنیا کی جن لذتوں سے تم نے مزے اڑائے ،وہ بھی کام نہ دیں گی ، بلکہ یہ سارے کا سارا تمہارے لئے وبال جان بن جائے گا۔

تحمل اور قطع شرکوا پنی عادت بنالئے:

بیٹاتحمل اور قطع شرکواپنی عادت بنا لے، کلموں سے ملتے جلتے دوسرے کلے ہیں، جب کوئی تجھ سے ایک کلمہ کہے۔ پھر تو اس کا جواب دے تو اس کی طرف سے اس سے ملتے جلتے دوسرے کلمے آ جائیں گے، اس طرح سے بات بڑھ جائے گی اور دونوں میں لڑائی کا فساد برپا ہو جائے گا۔

مخلوق میں ایسے لوگ گنے چنے ہیں جو خلقت کو خالق کے دروازے کی طرف دعوت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ، اگر ان کی باتیں قبول نہ کی جائیں تو وہ خلقت کے خلاف اللہ کی دلیل ہیں ۔ خاصان خدا ایمان والوں کے لئے نعمت ہیں ، اور منافق جو اللہ کے دین کے دشمن ہیں، ( خاصان خدا ) ان کے لئے عذاب ہیں ۔ التجا ہے:

اللهم طيبنا بالتوحيد و بخرنا بالفناء عن الخلق وما سواك في الجملة ”اے اللہ! ہمیں توحید کی خوشبو عنایت فرما، اورمخلوق و ماسوا اللہ سے فنا کر کے معطر فرما۔ اے تو حید والو! اے شرک والو! مخلوق میں سے کوئی شے تمہارے ہاتھ میں نہیں ، ساری مخلوق عاجز ہے ۔ بادشاہ ہو یا رعایا ، شہنشاہ ہو یا امیر وفقیر، سب کے سب اللہ کی تقدیر کے قیدی ہیں، ان کے دل اس کی دسترس میں ہیں ۔ جدھر چاہتا ہے ادھر کو پھیر دیتا ہے، لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ’’ اس کی مثال کوئی شے نہیں ، اور وہ سب کی سننے والا اور سب کو سیکھنے والا ہے ۔‘‘ تم اپنے نفسوں کو موٹا نہ کرو، کیونکہ وہ تمہیں کھالیں گے ،  ( یا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شکاری کتے کو پالے اور اس کی پرورش کر کے موٹا کرے، اور اس کے ساتھ اکیلا ہی رہے ۔ پھر یقیناوہ کتا اسےکھالے گا تم اپنے نفسوں کی باتیں ڈھیلی نہ چھوڑو، اور نہ اس کی چھریاں تیز ہونے دو ۔ وہ تمہیں ہلاک ہونے کے لئے جنگلوں میں ڈال دیں گے اور تمہیں دھوکا د یں گے۔ انکی جڑیں کاٹ ڈالو، اور نفسوں کو اپنی خواہش میں نہ چھوڑو۔ اللهم اعنا على نفوسنا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمارے نفسوں کی سرکشیوں پر ہماری مدد فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ‘‘۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 135،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 86دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں