حضرت مصطفی ﷺکی روشن اور بزرگ سنت کی تابعداری کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ طریقت اور حقیقت شریعت کو کامل کرنے والی ہیں اور اس بیان میں کہ علوم شرعیہ اور علوم صوفیہ کے درمیان جو مقام صدیقیت میں ولایت کے مرتبوں میں سے اعلی مرتبہ ہے، فائز ہوتے ہیں۔ ہرگز مخالفت نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ درویش کی طرف لکھا ہے۔
حق تعالی اپنے نبی اور ان کی بزرگوار آل ﷺ کی طفیل ظاہرو باطن کو حضرت مصطفی ﷺکی سنت کی متابعت سے آراستہ پیراستہ کرے۔ حضرت محمد رسول الله ﷺحق تعالی کے محبوب ہیں اور جو چیز کہ خوب اور مرغوب ہے وہ حق تعالی کے مطلوب اورمحبوب کے لئے ہے۔ اسی واسطے حق تعالی اپنے کلام پاک میں فرماتاہے وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ بیشک تو بڑے خلق پر ہے اور نیز فرماتا ہے۔ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ تومرسلین میں سے ہے اور راہ راست پر ہے اور نیز فرماتا ہے۔ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ بیشک یہ میرا راستہ سیدھا ہے تم اس پر چلو اور راستوں پر نہ چلو۔
آنحضرت ﷺکی ملت کو صراط مستقیم کہا اور اس کے ماسوائے کو ٹیڑھے راستوں میں داخل فرمایا اور ان کی تابعداری سے منع فرمایا اور آنحضرت ﷺنے خدا کا شکر کرتے ہوئے اور خلق کو ہدایت کا نشان بتلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ خَيْرَ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍسب باتوں سے بہتر ہدایت مصطفی ﷺکی ہے اور نیز آپنے فرمایا ہے۔ أدَّبَنِي رَبِّي فأَحْسَنَ تَأدِيبِيمجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور میری تعلیم اور ادیب اچھی طرح کی اور باطن ظاہر کو پورا کرنے والا ہے اور بال بھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتے۔ مثلا زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے جھوٹ کا خطرہ دور کرنا طریقت اور حقیقت ہے۔ یعنی اگریہ نفی تکلف اور بناوٹ سے ہے تو طریقت ہے اور اگر تکلف کے بغیر حاصل ہے تو حقیقت ہے۔ پس حقیقت میں باطن جس کو طریقت اور حقیقت کہتے ہیں۔ ظاہر کو جو شریعت ہی پورا اور کامل کرنے والا ہے۔
پس اگر طریقت و حقیقت کی راہ پر چلنے والوں میں سے اثنائے راہ میں ایسے امور سرزد ہوں جو بظاہر شریعت کے مخالف ہیں تو وہ سکر(مستی) وقت اور غلبہ حال پرمبنی ہیں اور اگر مقام سے گزار کرصحو میں لے آئیں تو وہ مخالفت رفع ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے مخالف علوم سب کے سب دور ہو جاتے ہیں۔
مثلا صوفیہ سکر(مستی) کے باعث احاطہ ذاتی کے قائل ہوتے ہیں اور بالذات حق تعالی کو(بلا کیف) عالم کا محیط جانتے ہیں۔ یہ حکم اہل حق لوگوں کی راؤوں کے مخالف ہے کیونکہ یہ لوگ احاطہ علمی کے قائل ہیں ۔ حقیقت میں علماء کی رائیں بہت ہی بہتر ہیں اور اگر یہی صوفیہ اس بات کے قائل ہوں کہ حق تعالی کی ذات کسی حکم کے ساتھ محکوم نہیں ہوتی اور کسی علم سے معلوم نہیں ہوتی تو اس میں احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا) کے ساتھ کام کرنا اس قول کے مخالف ہے اور واقعی حق تعالی کی ذات بیچون اوربیچگون (بے مثل و بےکیف)ہے اور کسی حکم کو اس کی طرف راہ نہیں۔ وہاں حیرت و نادانی ہے اور اس مقام میں جہل صرف اور سرگردانی ہے۔ اس پاک جناب میں احاطہ و سر یان کی کیا مجال ہے۔ ہاں ایک بات ہے جس کے سبب ان صوفیہ کی طرف سے جو ان احکام کے قائل ہیں عذر خواہی کی جائے اور کہا جائے کہ ذات سے ان کی مرادتعین اول ہے اور چونکہ اس کو متعین پر زائد نہیں جانتے اس لئے اس تعین کو عین ذات کہتے ہیں اور وہ تعین اول جو وحدت تعبیر کیا گیا ہے تمام ممکنات میں جاری و ساری ہے تو اس لحاظ سے احاطہ ذاتی کے ساتھ حکم کرنا درست ہے یہاں ایک اور دقیقہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے۔
جاننا چاہئے کہ حق تعالی کی ذات علمائے اہل حق کے نزدیک بیچون اور بیچگون ہے اور اس کے سوا جو کیا ہے اس پر زائد ہے اور وہ تعین بھی اگر ان کے نزدیک ثابت ہو جاۓ تو زائد ہوگا اور اس کو حضرت ذات بیچون کے دائرے سے باہر جانیں گے۔ پس اس کے احاطے کو ذاتی نہ کہیں گے۔ پس علماء کی نظر صوفیہ کی نظر سے بلند ہے اور صوفیہ کے نزدیک جوذات ہے وہ ان علماء کے نزدیک ماسوائے میں داخل ہے اور قرب ومعیت ذاتی بھی اسی قیاس پر ہیں اور باطنی معارف دشریعت کے ظاہری علوم کے درمیان پورے اور کامل طور پر موافقت کا ہونا یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے امور میں بھی مخالفت کی مجال نہ رہے۔ مقام صدیقین میں ہے جو تمام مقام ولایت سے بالاتر مقام ہے اور مقام صدیقیت سے بڑھ کر مقام نبوت ہے جو علوم نبی ﷺکو وحی کے ذریعے پہنچے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو الہام کے طور پر منکشف ہوئے ہیں۔ ان دونوں علموں (علم نبی و علم صدیق)کے درمیان صرف وحی اور الہام کا فرق ہے۔ پھر مخالفت کی کیا مجال ہوگئی اور مقام صدیقیت کے سوا اور جس قدر مقام ہیں ان میں ایک قسم کاسکر(مستی) متحقق ہے۔صحو تام (پوری طرح ہوش)صرف مقام صدیقیت ہی میں ہے۔
دوسرا فرق ان دونوں علموں کے درمیان یہ ہے کہ وحی میں قطع ہے اور الہام میں ظن کیونکہ وحی بذریعہ فرشتہ کے ہے اور فرشتے معصوم ہیں ۔ ان میں خطا کا احتمال نہیں اور الہام اگر چہ محل عالی رکھتا ہے جسے قلب کہتے ہیں اور قلب عالم امر سے ہے لیکن قلب کا قتل اورنفس کے ساتھ ایک قسم کاتعلق ثابت ہے اور نفس اگر چہ تزکیہ (رذائل سے پاک) کے ساتھ مطمئنہ ہو جائے لیکن اپنی صفات سے ہرگز نہیں بدلتا۔ اسی واسطے اس مقام میں خطا کی مجال ظاہر ہے۔
جاننا چاہئے کہ نفس کے مطمئنہ ہو جانے کے باوجود اس کی صفات کے باقی رکھنے میں بڑے فائدے اور نفعے ہیں۔ اگرنفس بالکل اپنی صفات کے ظہور سے روکا جائے تو ترقی کا راستہ بند ہو جائے اور روح فرشتہ کا حکم پیدا کرلے اور اپنے مقام میں بند رہ جائے کیونکہ ترقی کا حاصل ہونانفس کی مخالفت کے باعث ہے۔ اگر اس میں مخالفت نہ رہی تو ترقی کیسی ہوگی۔
سرور کائنات ﷺ جب کفار کے جہاد سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ. نفس کے جہادکو جہادا کبر فرمایا اورنفس کی مخالفت اس مقام میں عزیمت و اولی کے ترک سے ہے بلکہ ترک عزیمت کے ارادہ کرنے سے ہے کیونکہ اس مقام میں نفس کی مخالفت ترک عزیمت کے تحقق وثبوت سے ناممکن ہے اور اسی ارادہ سے اس کو الله تعالی کی بارگاہ میں اس قدر ندامت اور پشیمانی اور التجا اور عاجزی حاصل ہوتی ہے کہ ایک سال کا کام ایک گھڑی میں حاصل ہو جاتا ہے۔
اب ہم اصل بات کی طرف جاتے ہیں یہ بات مقرر اور ثابت ہے کہ جس چیز میں محبوب کے اخلاق اور خصلتیں پائی جاتی ہیں ۔ محبوب کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ چیز بھی محبوب ہو جاتی ہے۔ یہ اس رمز کا بیان ہے جو اس آیت کریمہ میں ہے۔ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ پس آنحضرت ﷺکی تابعداری میں کوشش کرنا مقام محبوبیت تک لے جانے والا ہے۔ پس ہر ایک دانا اور عقلمند پرواجب ہے کہ ظاہر باطن میں آنحضرت ﷺکی کامل تابعداری میں کوشش کرے بات بہت لمبی ہوگئی ہے امید ہے کہ معذور فرمائیں گے۔
سخن کا جمال جب جمیل مطلق کی طرف سے ہے تو جس قدر لمبا ہو جائے اچھا معلوم ہوتا ہے۔ قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا. اگر اللہ کی باتیں لکھنے کے لئے سمندروں کی سیاہی چلائی جائے تو سمندر ختم ہو جائیں مگر اللہ کے کلمات نہ لکھے جائیں۔ اگر چہ اتنے سمندر اور اس کے ساتھ ملائے جائیں۔
اب بات کو کسی اور طرف لے جانا چاہئے۔حامل رقعہ ہذا مولانا محمد حافظ صاحب علم ہے اور اس کا عیال بہت ہے۔ گزارے کا سبب نہ ہونے کے باعث لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ اگر توجہ فرما کر کے نشان والی اور سرداری اور شرافت کے مرتبہ والی سرکارشیخ جیو سے کچھ وظیفہ یا امداد اس کے واسطے مقررکرا دیں تو آپ کی کامل بخشش ہوگی زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ150 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی