عقائد کلامیہ کے بیان میں مکتوب نمبر266دفتر اول

 اہل سنت و جماعت )خدا ان کی کوشش کو مشکور فرمائے(کی رائے کے موافق بعض ان عقائد کلامیہ کے بیان میں جو آپ کو از روئے الہام و فراست کے حاصل ہوئے تھے نہ کہ ازروئے تقلید تخمین (گمان)کے۔ ابتدائے احوال میں حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات والتسلیمات کو خواب میں دیکھا تھا اور آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ تو علم کے مجتہدوں میں سے ہے اور اس واقعہ کو اپنے خواجہ بزرگوار (خواجہ باقی باللہ )کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ اسی دن سے مسائل کلامیہ میں ہر مسئلہ میں آپ کی رائے علیحدہ اورحکم جدا ہے ۔ لیکن مسائل میں مشائخ ما تریدیہ سے موافقت رکھتے ہیں اور فلسفہ کے رد کرنے اور اہل فلسفہ کی مذمت اور برائی کے بیان کرنے اور ان ملحدوں اور زندیقوں کی تردید میں جو صوفیہ کی مراد کو نہ سمجھ کرگمراه ہو گئے ہیں اور بعض ان فقیہ احکام کے بیان میں جو نماز سے تعلق رکھتے ہیں اور طریق نقشبندیہ کے کمالات اور اس میں سنت کی متابعت کو لازم پکڑنے کے بیان میں اور سماع وسرود کے سننے اور رقاصوں یعنی نا چنے اور گانے والوں کی مجلس میں حاضر ہونے سے منع کرنے اور اس کے مناسب بیان میں اپنے پیرزادوں خواجہ عبد اللہ اور خواجہ عبید اللہ کی خدمت میں صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ‌ربِّ ‌يَسِّرْ ‌ولا ‌تُعسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيرِ اے رب آسان کر اور مشکل نہ کر اور خیریت سے تمام کر حمدوصلوة اور تبلیغ دعوات کے بعد اپنے بزرگ مخدوم زادوں کی جناب میں عرض کرتا ہے کہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانوں میں غرق ہے۔ فقیر نے اس طریقہ(نقشبندیہ) میں الف ب کا سبق انہی سے لیا ہے اور اس راہ کے حروف تہجی بھی انہی سےسیکھے ہیں اور اندراج النہابت في البدایت(جذبہ کی دو قسمیں ہیں جذبہ بدایت وہ جذبہ جو سالک پر ابتدائی طور پروارد ہوتا ہے جذبہ نہایت کو حقیقی اور اصل جذبہ کہتے ہیں ) کی دولت ان کی صحبت کی برکت سے حاصل کی ہے اور سفر در وطن کی سعادت کو ان کی خدمت کے طفیل پایا ہے۔ ان کی شریف توجہ نے اس نا قا بل کو دو اڑھائی ماہ کےعرصہ میں نسبت نقشبندیہ تک پہنچا دیا اور ان بزرگواروں کا حضور خاص عطا فرمایا اور وہ تجلیات اور ظہورات اور انوار اور الوان اور بے رنگیاں اور بے کیفیتیاں جوان کی طفیل اس عرصہ میں ظاہر ہوئیں شرح وتفصیل سے باہر ہیں اور ان کی بزرگ توجہ کی برکت سے معارف توحید اور اتحاد اور قرب و معیت احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا)میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو گا جو اس فقیر پر نہ کھلا ہو اور اس کی حقیقت سے اطلاع نہ دی ہو ۔ وحدت کا کثرت میں اور کثرت کا وحدت میں مشاہدہ کرنا ان معارف کے مقامات اور مبادی میں سے ہے۔ 

غرض جہاں نسبت نقشبندیہ اور ان بزرگواروں کا حضور خاص ہے وہاں ان کا زبان پر لانا 

اور اس شہود(مشاہدہ) و مشاهده کا نشان بتانا نادانی ہے۔ 

ان بزرگواروں کا کارخانہ بہت بلند ہے اور ہر زراق(مکار) اور رقاص( ناچنے والے)

کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتاجب اس قسم کے بلند درجے والی دولت جناب کی حضور سے اس فقیر کوملی ہو تو پھر اس کے عوض اگر تمام عمر کے لئے اپنے سر کو جناب کی بلند درگاہ کے خادموں کے پامال کرتا رہے تو بھی جناب کا حق ادا نہ ہو سکے ۔ فقیر اپنی تقریروں کو کیا عرض کرے اور اپنی شرمندگیوں کا کیا اظہار کرے۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے معارف آگاه خواجہ حسام الدین احمد کو جزائے خیر دے جنہوں نے ہم کم ہمتوں کابوجھ اپنےذمہ لے کر کمر ہمت کو بلند بارگاہ کی خدمت کے لئے باندھا ہے اور ہم دور پڑے ہوؤں کو اس سے فارغ کر دیا ہوا ہے۔ 

گر برتن میں شود زباں ہر موے یک شکر تو از ہزار نتو انم کرد

 ترجمہ: اگر ہر بال میں میرے زباں ہو تو شکر اس کا نہ پھر بھی کچھ بیاں ہو 

فقیر تین مرتبہ حضرت ایشاں یعنی خواجہ بزرگوار کی قدم بوسی کی دولت سے مشرف ہوا اخیر دفعہ حضور نے اس فقیرکو فرمایا کہ بدن کی کمال کمزوری مجھ پر غالب آگئی ہے اور زندگی کی امیدکم ہے بچوں کے احوال سے خبردار رہنا ہوگا اور اسی وقت اپنے حضور میں آپ کو بلایا اور آپ اس وقت دائیوں کی گود میں تھے یعنی دودھ پیتے بچے تھے اور فقیر کوفرمایا کہ ان کی طرف توجه کرو فقیر نے حکم کے بموجب حضور کی خدمت میں آپ کی طرف توجہ کی حتی کہ اس توجہ کا اثر بھی اس وقت ظاہر ہوگیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی والدات کے لئے بھی غائبانہ توجہ کرو۔ حکم کے موافق غائبانہ توجہ کی گئی ۔ امید ہے کہ حضور کی برکت سے اس توجہ سے کئی قسم کے فائدے اور نتیجے حاصل ہونگے ۔ آپ ہرگز تصور نہ کریں کہ حضور کے کسی واجب الامثثال امر اور حضور کی وصیت لازمہ میں کسی قسم کی سستی یا غفلت واقع ہوئی ہو۔ ہرگز نہیں بلکہ آپ کے اور اذن کامنتظر ہے۔ 

اب چند فقرے نصیحت کے طور پر لکھے جاتے ہیں امید ہے کہ گوش ہوش سے سنیں گے۔ 

أَسْعَدَ كُمُ اللهُ سُبْحَانَهٗ الله تعالیٰ آپ کو سعادت دیوے عقلمندوں پر سب سے اول فرض ہے کہ اپنے عقائد کو علمائے اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم جو فرقہ ناجیہ ہیں کے عقائد کے موافق درست کرے۔ بعض ان عقائد اعتقادیہ کا بیان کیا ہے جن میں کسی قسم کی پوشیدگی ہے۔ 

جاننا چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ و تقدس خود موجود ہے اور تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہیں اورحق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یگانہ ہے اور فی الحقیقت کسی امر میں خواہ وجودی ہو یا غیر وجود کوئی بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے ۔ مشارکت رسمی اور مناسبت لفظی بحث ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف)  ہیں اور ممکنات کے صفات و افعال کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے۔ مثلا صفت العلم حق تعالیٰ کی ایک صفت قدیم اور بسیط حقیقی(جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے مجرد(خالی) اور شیون و صفات کی تفصیلوں سے معراہے) ہے جس میں تکثر اور تعدد کو ہرگز دخل نہیں ہے۔ اگر چہ وہ تکثر تعددتعلقات کے تعداد کے اعتبار سے ہو۔ کیونکہ وہاں صرف ایک ہی بسیط انکشاف ہے کہ جس کے ازل و ابد کے معلومات منکشف ہوتے ہیں اور تمام اشیاء کو ان کے متضاد اور تناسبہ(مخالف و موافق) احوال کے ساتھ کلی اور جزئی طور پر ہر ایک مخصوصہ اوقات میں آن واحد بسيط بن جاتا ہے لیکن اسی آن میں زید کو موجود بھی جانتا ہے اور معدوم اور جنین(ماں کے پیٹ میں) بھی جانتا ہے اور طفل بھی اور جوان بھی جانتا ہے اور بوڑھا بھی اور زندہ بھی جانتا ہے اور مردہ بھی اور کھڑا ہوا جانتا ہے اور بیٹھا ہوا بھی اور تکیہ لگانے والا جانتا ہے اور لیٹا ہوا بھی اور ہنستا ہوا جانتا ہے اور روتا ہوا بھی لذت پانے والا جانتا ہے اور رنج و دکھ پانے والا بھی اور عزیز جانتا ہے اور ذلیل بھی اور برزخ میں جانتا ہے اور حشرات(عرصہ قیامت) میں بھی اور جنت میں جانتا ہے اور لذت ونعمت میں بھی پس تعلق تعدد بھی اس موطن میں مفقود ہے کیونکہ تعلقات کا تعدد وقتوں کا تعدد اور زمانوں کاتکثر چاہتا ہے اور وہاں ازل سے ابد تک صرف ایک ہی آن واحد بسیط ہے جس میں کسی قسم کا تعد دنہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ پرزمانہ اور تقدم و تاخر کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ 

پس حق تعالیٰ کے علم میں اگر ہم معلومات کے ساتھ تعلق ثابت کریں تو ایک ہی تعلق ہوگا جو تمام مخلوقات کے ساتھ تعلق ہے اور وہ تعلق بھی مجہول الکیفیت ہے (اس تعلق کی کیفیت معلوم نہیں)اور صفت العلم کی طرح بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف) ہے۔ 

ہم اس تصور کے استبعادیعنی قیاس اورفہم سے دور اور بعید ہونے کو ایک مثال بیان کر کے دور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں کلمہ کو اس کی مختلف قسموں اور متغائرہ احوال(متفرق احوال) اور متغائرہ اعتباروں(مخالف اعتبار) کے ساتھ جان لے یعنی ایک ہی وقت میں کلمہ کو اسم بھی اورفعل بھی اور حرف بھی اور ثلاثی بھی اوررباعی بھی اور معرفہ بھی اورمبنی بھی اور مستقبل بھی اور امر بھی اور نہی بھی جان لے۔ بلکہ اگر وہ شخص یوں کہہ دے کہ میں کلمہ کی تمام اقسام اور اعتبارات کوکلمہ کے آئینہ میں ایک ہی وقت میں مفصل طور پر دیکھتا ہوں ۔ تو بھی جائز ہے جب ممکن کے علم بلکه ممکن کی دید میں اضداد کا جمع ہونا متصور ہے تو پھر اس واجب الوجود وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى کے علم میں یہ بات کسی طرح بعید معلوم ہوتی ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ اس جگہ اگر چہ بظاہرجمع ضدین ہے مگر حقیقت میں ان کے درمیان ضدیت مفقود ہے کیونکہ ہر چند زید کو آن واحد میں موجو داور معدوم جانا ہے کہ اس کے وجود کا وقت مثلا ہزار سال سن ہجری کے بعد ہے اور اس کےعدم سابق کا وقت اس سال معین سے پہلے ہے اور اس کےعدم لاحق کا وقت گیارہ سو سال کے بعد ہے۔ پس حقیقت میں ان دونوں کے درمیان زمانہ کے تغیر کے باعث کوئی ضدیت نہیں ہے اور باقی احوال کو بھی اس قیاس پر سمجھنا چاہیئے ۔ فَاَفْھَمْ ۔ 

اس تحقیق سے واضح ہوگیا کہ حق تعا لی کاعلم اگرچہ جزئیات کے ساتھ متعلق ہولیکن تغیر کی آمیزش اس میں داخل نہیں پاتی اور حدوث کا گمان اس صفت میں پیدا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فلاسفہ نے زعم(غلط دعوی) کیا ہے۔ کیونکر تغیر۔ اس تقدیر پر متصور ہوسکتا ہے جبکہ ایک کو دوسرے کے بعد جانا ہو اور جب سب کو آن واحد میں جان لےتو پھر تغیر وحدث کی گنجائش نہیں ہے پس کچھ حاجت نہیں ہے کہ ہم اس کے واسطے تعلقات متعدده ثابت کریں تا کہ تغیر و حدوث ان تعلقات کی طرف راجع ہونہ کہ صفت علم کی طرف۔ جیسا کہ بعض متکلمین نے فلاسفہ کے شبہ کو دفع کرنے کیلئے کیا ہے۔ ہاں اگر معلومات کی جانب میں تعلقات کا تعدد ثابت کریں تو ہوسکتا ہے۔ 

اور اسی طرح کلام بسیط ہے کہ ازل سے ابد تک ایک کلام کے ساتھ گویا(ناطق) ہے۔ اگر امر ہے تو وہیں سے پیدا ہے اور اگر نہی ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے اور اگر اعلام ہے تو وہ بھی وہیں سے ماخوذ ہے اور اگر استعلام ہے توبھی وہیں سے ہے اور اگر تمنمی یا ترجی(آرزو یا امید) ہے تو وہ بھی وہیں سے مستفاد(بطور فائدہ حاصل شدہ)  ہے۔ 

تمام منزلہ کتابیں اور مرسلہ صحیفے اس کلام بسيط کا ایک ورق ہیں۔ اگر توریت ہے تو وہیں سےلکھی گئی ہے اور اگر انجیل ہے تو اس نے بھی وہیں سے لفظی صورت حاصل کی ہے اور اگر زبور ہے تو وہیں سے مسطور ہے اور اگر فرقان ہے تو وہ بھی وہیں سے نازل ہوا ہے۔ع 

والله کلام حق کہ علی الحق یکی ست وبس           ترجمه واللہ کلام ہے ایک ہی فقط ہاں نزول میں مختلف آثار آئے ہیں۔ 

اور اسی طرح ایک ہی فعل ہے اور اسی ایک فعل کے ذریعے اولین و آخرین مصنوعات وجود میں آرہے ہیں۔ آیت کریم وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ ‌كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ آنکھ کے جھپکنے کی طرح ہمار امر صرف ایک ہی ہے۔ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ اگر احیا(زندہ کرنا) اور اماتت (مارنا) ہےتو اسی فعل سے وابستہ ہے اور اگر انعام یا ایلام(تکلیف) ہے تواسی فعل سےمتعلق ہے اور ایسے ہی اگر ایجاد ہے یا اعدام (مٹا دینا)ہے تو وہ بھی اسی فعل  سے پیدا ہے۔ پس حق تعالیٰ کے فعل میں بھی تعدد تعلقات ثابت نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی تعلق سےتمام اولین و آخرین مخلوقات اپنے اپنے وجود کے مخصومہ وقتوں میں ظاہر ہورہی ہیں ۔یہ تعلق بھی حق تعالیٰ ٰ کے فعل کی طرح بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف) ہے۔ کیونکہ چون کو بیچون کی طرف کوئی راہ ہیں ۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں اشعری نے چونکہ حق تعالیٰ کے فعل کی حقیقت سے اطلاع نہ پائی۔ اس نے تکوین کو حادث(پردہ خفا سے وجود میں آنے والا)  کہہ دیا اور حق تعالیٰ کے افعال کو بھی حادث جان لیا اور نہ جانا کہ یہ سب حق تعالیٰ کے از لی فعل کے آثار ہیں نہ کہ اس تعالیٰ کے افعال۔ 

اور بعض صوفیہ نے جوتجلی افعال ثابت کی ہے اور اس مقام میں ممکنات کے افعال کے آئینہ میں اس واحد جل شانہ کے فعل کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔ وہ بھی اسی قسم سے ہےیعنی وہ تجلی درحقیقت حق تعالیٰ کےفعل کے آثار کی تجلی ہے نہ کہ حق تعالیٰ کےفعل کی تجلی کیونکہ حق تعالیٰ کے فعل کے لئے جو بیچون اور بیچگون اور قدیم اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور جس کوتکوین کہتے ہیں ۔ محدثات (نئی باتوں)کے آئینوں میں کوئی گنجائش نہیں اور ممکنات کے مظہروں میں اس کا کوئی ظہور ہیں۔ 

در تنگنائے صورت معنی چگونہ گنجد . درگلبه گدایاں سلطاں چہ کاردارد

 ترجمہ: صورت کیےتنگ جامیں معنی نہیں سماتے گھرمیں گدا کے سلطان ہرگز نہیں ہیں آتے ۔

افعال وصفات کی تجلی فقیر کے نزدیک ذات کی تجلی کے سوامتصورنہیں ہے۔ کیونکہ افعال و صفات حق تعالیٰ اس کی ذات پاک سے الگ نہیں ہیں تا کہ ان کی تجلی ذات کی تجلی کے سوا متصور ہو سکے اوروہ جو حق تعالیٰ کی ذات سے الگ ہے وہ حق تعالیٰ کی صفات اور افعال کے ظلال ہیں جن کی تجلی کو افعال و صفات کے ظلال کی بھی کہنا چاہیئے نہ کہ افعال و صفات کی تجلی لیکن ہرشخص کا فہم اس کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور حق تعالیٰ تمام اشیاء کومحیط ہے اور ان کے ساتھ قرب ومعیت رکھتا ہے اس احاطہ اور قرب اور معیت سے وہ مرادنہیں ہے جو ہمارےفہم قاصر میں آ سکے۔ کیونکہ وہ حق تعالیٰ کی جناب پاک کے لائق نہیں اور جو کشف و شہود(مشاہدہ) سے معلوم کرتے ہیں ۔ اس سے بھی منزہ اور پاک ہے کیونکہ ممکن کوحق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال کی حقیقت سے سوائے نادانی اور حیرت کے کچھ حاصل نہیں ہے غیب کے ساتھ ایمان لانا چاہیئے اور جو کچھ مکشوف و مشہود ہو اس کو لا کی نفی کے نیچے لانا چاہیئے۔ 

عنقا شکارکس نشود دام باز چیں کاینجا ہمیشہ باد بدست است دام را

ترجمہ اٹهالے جال عنقا کب کسی کے ہاتھ آتا ہے لگاتا ہے یہاں جو جال خالی ہاتھ جا تاہے ۔

حضرت ایشان یعنی خواجہ صاحب بزرگوار کی مثنوی کی یہ بیت اس مقام کے مناسب ہے ۔

ہنوز ایوان استغنا بلند است مرافکر رسیدن ناپسند است

 ترجمہ بہت اونچا ہے استغنا کا ایواں نہ کر کوشش وہاں چڑھنے کی اینجاں 

پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ حق تعالیٰ اشیاء کومحیط اور ان کے قریب اور ساتھ ہے لیکن اس کے قرب اور احاطہ اور معیت کی حقیقت کو نہیں جانتے کہ کس طرح ہے اس کو احاطہ وقرب علمی کہنا بھی متشابہ تاویلوں سے ہے لیکن ہم ان کی تاویل کے قائل نہیں۔ 

اور حق تعالیٰ کسی چیز سے متحد نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی چیز اس سے متحد ہو سکتی ہے اور جو کچھ کہ صوفیہ کی بعض عبارات سے مفہوم ہوتا ہے ۔ وہ ان کی مراد کے برخلاف ہے کیونکہ ان کی مراد اس کلام سے جس سے اتحاد کا وہم گزرتا ہے۔ یعنی اِذَاتَمَّ الْفَقْرَ هُوَ اللهُ سے یہ ہے کہ جب فقرتمام ہوجائے اور نیستی حاصل ہوجائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا نہ کہ یہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے کیونکہ یہ کفر اور زندقہ ہے تَعَالَى اللہُ  سُبْحَانَہُ عَمَّا ‌يَتَوَھَّمَ ‌الظَّالِمُونَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا  الله تعالیٰ ظالموں کے وہم و گمان سے بہت برتر و بلند ہے۔ 

حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ عبارت ‌أَنَا ‌الْحَقُّ  کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں حق ہوں بلکہ یہ ہیں کہ میں نہیں ہوں اورحق موجود ہے اور تغیر و تبدل کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال کی طرف راہ نہیں ہے۔ فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا يَتَغَيَّرُ بِذَاتِهٖ وَلاَ بِصِفَاتِهٖ وَلَا فِيْ اَفْعَالِهٖ بِحُدُوْث ِالْأَکْوَانِ (پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات و صفات و افعال میں موجودات کے حدوث سےمتغیر نہیں ہوتا اور صوفیہ وجودیہ نے جوتنزلات خمسہ ثابت کئے ہیں و مرتبہ وجوب میں تغیر و تبدل کی قسم سے نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ کفر و گمراہی ہے بلکہ ان تنزلات کو حق تعالیٰ کے کمال کے مراتب ظہورات میں اعتبار کیا ہے بغیر اس بات کے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال میں تغیر و تبدل راہ پائے۔ 

اور حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں بھی غنی مطلق ہے اور کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور جس طرح وجود میں محتاج نہیں ہے ظہور میں بھی محتاج نہیں ہے اور بعض صوفیہ کی عبارت سے جو مفہوم ہوتا ہے کہ تعالیٰ اپنے اسمائی و صفاتی ظہور میں ہمارامحتاج ہے۔ یہ بات اس فقیر پر بہت گراں ہے۔ بلکہ جانتا ہے کہ ان کی پیدائش سے مقصود ان کے اپنے کمالات کا حاصل ہونا ہے نہ وہ کمال جو تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف عاید ہو سکے۔ آیت کریر وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ای لیعرفون (میں نے جن و انسان کو عبادت و معرفت کے لئے پیدا کیا ہے میں اسی مطلب کی تائید ہے۔ . پس جن و انسان کی پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنی معرفت حاصل ہوجائے جو ان کا کمال ہے۔ نہ کوئی ایسا امر جوحق سبحانہ کی جناب کی طرف عائد ہو سکے اور حدیث قدسی میں جو یہ واقع ہے فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ (میں نے خلقت کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ پہچانا جاؤں اس جگہ یہی مرادان کی معرفت ہے نہ یہ کہ میں معرفت ہوں اور ان کی معرفت کے ذریعےکمال حاصل کروں۔ تَعَالَى اللہُ عَنْ ذَالِکَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا ( الله تعالیٰ اس سے بہت ہی برتر اور بلند ہے )اور حق تعالیٰ نقصان کی تمام صفتوں اور حدود کے نشانوں سے منزہ اورمبراہے نہ جسم وہ جسمانی ہے اور نہ مکانی اور زمانی اور صفات کمال اس کے لئے ثابت ہیں جن میں سے آٹھ صفات کمال وجودذات تعالیٰ پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور وہ صفات یہ ہیں ۔ حیات ،علم و قدرت واردات و بصروسمع و کلام و تکوین(پیدا کرنا) اور یہ صفات خارج میں موجود ہیں اور یہ نہیں کہ وجوذات پرعلم میں وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور خارج نفس ذات تعالیٰ و تقدس ہیں جس طرح بعض صوفیہ وجودیہ نے گمان کیا ہے اور اس طرح کہاہے۔

 از روے عقل ہمہ غیر اند صفات باذات تو از روے تحقق ہمہ عین

 ترجمہ : ازروئے عقل وعلم کے سب صفات غیر ہیں اور زروئے تحقق کے سب ذات کے ساتھ عین ہیں۔ 

کیونکہ اس میں درحقیقت صفات کی نفی ہے کیونکہ صفات کی نفی کرنے والوں میں معتزلہ اور فلاسفہ نے بھی تغائر علمی اور اتحادخارجی کہا ہے اور تغائر علمی سے انکارنہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ علم کا مفہوم عین ذات کا مفہوم ہے۔ یا عین قدرت واردات کا مفہوم ہے بلکہ عینیت کی نفی کرنے والوں سے نہیں نکل سکتے کیونکہ تغائر اعتباری کچھ نفع نہیں دیتا۔ کَمَا عَرَفْتَ. جیسا تو نے سمجھ لیا۔

اورحق تعالیٰ قدیم اور ازلی ہے اور اس کے سوا کسی کے لئے قدیم اور ازلیت ثابت نہیں ہے۔ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور جو کوئی حق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے قدیم اور ازلی ہونے کا قائل ہوا ہے وہ کافر ہے۔ 

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے ابن سینا اور فارابی کی تکفیر اسی واسطے کی ہے کہ وہ عقول اور نفوس کے قدیم ہونے کے قائل ہوئے ہیں اور صورت اورہیولی کےقدیم ہونے کا گمان کیا ہے اور آسمانوں کوبمع ان اشیاء کے جوان میں ہیں قدیم جاناہے۔ 

اور ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا ملین کے ارواح کےقدیم کا قائل ہوا ہے۔ اس بات کو ظاہر کی طرف سے پھیر کراتاویل پرمحمول کرناچاہیئے ۔ تا کہ اہل ملت کے اجماع کے مخالف نہ ہو ۔ 

اورحق تعالیٰ قادرمختار ہے اور ایجاب کی آمیزش اور اضطرار کے گمان سے منزہ اور مبرا ہے۔ فلاسفہ بے خردنے کمال کو ایجاب میں جان کر حق تعالیٰ سے اختیار کی نفی کر کے ایجاب کو ثابت کیا ہے اور اور ان بےو قونوں نے اس واجب الوجود کو معطل و بیکار سمجھا ہے اور سوائے ایک مصنوع کے کہ وہ بھی ایجاب سے ہے زمین و آسمان کے خالق سے صادر ہوا ہو نہیں جاننا ہے اور حوادث کے وجود کو عقل فعال کی طرف نسبت دی ہے جس کا وجود ان کے وہم کے سوا کہیں ثابت نہیں ہے اور ان کے گمان میں ان کو حق تعالیٰ کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے۔ پس چاہیئے تھا کہ اضطراب و اضطرار کے وقت عقل فعال کی طرف التجا کرتے اور حضرت حق بجانہ کی طرف رجوع نہ کرتے ۔ کیونکہ حوادث کے وجود میں اس کا کچھ دخل نہیں جانتے اور کہتے ہیں کہ صرف عقل فعال ہی حوادث کے ایجاد سے تعلق رکھتی ہے بلکہ فعال کی طرف بھی ان کا رجوع نہیں کیونکہ ان کی بلیات کے دفع کرنے میں اس کا بھی کچھ اختیار نہیں ہے۔ یہ بد بخت(فلاسفہ) اپنی نادانی اور بیوقوفی کے باعث فرقہ ضلالہ یعنی گمراہ فرقوں کے پیش رو ہیں حالانکہ کافر بھی ان بدبختوں کے برخلاف حق تعالیٰ کی طرف التجا کرتے اور بلیات کا دفع کرنا اسی سے طلب کرتے ہیں ان بدبختوں میں بہ نسبت اور تمام فرقوں کے دو چیزیں زیادہ ہیں ۔ ایک یہ کہ احکام منزلہ کا کفر اور انکار کرتے اور اخبار مرسلہ کے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ اپنے بیہودہ اور واہی مطالب اور مقاصد کے ثابت کرنے میں جس قدر ان کو خبط لاحق ہوا ہے اور کسی بے وقوف کو اس قدر لاحق نہیں ہوا۔ آسمان اور ستارے جو ہر وقت بے قرار اور سرگرداں ہیں ان کامدار کاران کی اپنی حرکات اور اوضاع پر رکھا ہے اور آسمانوں کے خالق اور ستاروں کے موجد اور شرک اور مدبر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہیں اور دوراز معاملہ سمجھے ہیں ۔ یہ لوگ بہت ہی بےخرد اور بیوقوف ہیں اور ان میں سے زیادہ کمینہ اور بے وقوف اور احمق وہی ہے جوان کو دانا اور عقلمند جانتا ہے ۔ ان کے متسق اور منتظم یعنی مرتبہ علوم میں ہے ایک علم ہندسہ ہے جومحض لایعنی اور بیہودہ اور لا طائل ہے۔ بھلا مثلث کے تینوں زاویوں کا دونوں زاویہ قائمہ کے ساتھ برابر ہونا کس کام آئے گا اورشکل عروسی اور مامونی (اقلیدس کی اصطلاحیں)جوان کے نزدیک بڑی مشکل اور جانکاہ ہے۔ کسی غرض کے لئے ہے۔ 

علم طب و نجوم اور علم تہذیب اخلاق جوان کے تمام علوم میں سے بہتر علم ہے ۔ گزشتہ انبیاء علی نبینا علیہم الصلوة والسلام کی کتابوں سے چرا کر اپنے باطل اور بیہودہ علوم کو رائج کیا ہے جیسا کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ المنقذ عن الضلال میں اس امر کی تشریح اور تصریح کی ہے۔ 

اہل ملت اور انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے تابعدار اگر دلائل اور براہین میں غلطی کریں تو کچھ دور نہیں کیونکہ ان کے کام کا انداز انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید پر ہے اور اپنے مطالب عالیہ کے ثبوت کیلئے دلائل اور براہین کو صرف تبرع (بطور احسان)کے طور پر لاتے ہیں ۔ یہی تقلیدان کے لئے کافی ہے۔ برخلاف ان بدبختوں کے جو تقلید سے نکل کر صرف دلائل کے ساتھ اپنے مطالب کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے ہیں۔ ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا  یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کیا۔ 

حضرت عیسی علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کی دعوت جب افلاطون کو جوان بدبختوں کارئیس ہےپہنچی تو اس نے جواب میں یوں کہا کہ نَحْنُ قَوْمٌ مَّهْدَیُّوْنَ لَاحَاجَةَ بِنَا إِلىٰ مَنْ يَّهْدِيْنَا ہم ہدایت یافت لوگ ہیں ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے۔ 

اس بیوقوف کو چاہیئے تھا کہ ایسے شخص کو جو مُردوں کو زندہ کرتا اور مادرزاد اندھوں اور کوڑھی کو تندرست کرتا ہے جو ان کی حکمت کے طور سے خارج ہے پہلے دیکھتا اور اس کے حالات کو دریافت کرتا اور جواب دیتا ان دیکھے اس کا یہ جواب دینا اس کی کمال عداوت اور کینہ پن ہے۔ 

فلسفہ چوں اکثرش باشد سفه پس کل آں ہم سفه باشد که حکم كل حکم اکثر است 

ترجمہ: فلسفہ کا جب کہ اکثر ہے سفہ پس اس کا کل بھی سفہ ہوگا کہ حکم کل ہے اکثر کاحکم

 نجنا الله عن معتقداتهم السو اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے برے عقائد سے بچائے۔ 

فرزندی محمد معصوم نے انہی دنوں میں جواہر شرح مواقف کو تمام کیا ہے اثنائے سبق میں ان بے وقوفوں کی بڑی بڑی حماقتیں ظاہر ہوئیں اور بہت سے فائدے ان پر مترتب ہوئے۔ 

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا ‌لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے بے شک ہمارے رب کے رسول حق بات کو لائے ہیں۔ 

اورشیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ الله علیہ کی بعض عبارتیں بھی ایجاب کی طرف ناظر ہیں اور قدرت کے معنی میں فلسفہ کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں ۔ یعنی ترک کی صحت قادر سے تجویز نہیں کرتا اور فعل کی جانب کو لا زم جانتا ہے۔عجب معاملہ ہے کہ شیخ محی الدین مقبولوں میں سے نظر آتا ہے اور اس کے اکثر علوم جو آراۓ اہل حق کے مخالف ہیں خطا اورناصواب ظاہر ہوتے ہیں شاید خطاءکشفی کے باعث ان کو معذور رکھا ہے اور خطائے اجتہادی کی طرح ملامت کو اس سے ہٹا رکھا ہے۔ شیخ محی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد خاص بھی یہی ہے کہ اس کو مقبولوں میں سے جانتا ہے اور اس کے مخالف علوم کو خطا اور ضرر رساں دیکھتا ہے۔ 

اس طائفہ میں سے بعض لوگ شیخ کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور اس کے علوم کو ہی خطا پر جانتے ہیں اور بعض لوگ شیخ  کی تقلید اختیار کر کے اس کے تمام علوم کو بہتر اور صواب جانتے ہیں اور ان علوم کی حقیقت کو دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کرتے ہیں اور شک نہیں کہ ان دونوں فریقوں نے افراط و تفریط کا راستہ اختیار کیا ہے اور تو سط حال سے دور رہے ہیں۔ کو جو مقبول اولیا میں سے ہے خطائےکشفی کے باعث کس طرح رد کیا جائے اور اس کے علوم کو جو صواب سے دور اور اہل حق کی آراء کے مخالف ہیں تقلید سے کس طرح قبول کے جائیں.فالحق ھوالتوسط الذي وفقنى الله سبحانہ بمنه و کرمه پس حق یہی توسط ہے جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے بخشی ہے۔ 

ہاں مسئلہ وحد ۃوجود میں اسی گروہ (صوفیہ)میں سے ایک جم غفیر یعنی بہت سے لوگ شیخ کے ساتھ شریک ہیں اگر چہ شیخ  اس مسئلہ میں بھی طرز خاص رکھتا ہے ۔ لیکن اصل بات میں سب کے سب باہم شریک ہیں ۔ یہ مسئلہ بھی اگر چہ بظاہر اہل حق کے مخالف ہے لیکن توجہ کے قابل اورجمع کے لائق ہے۔

اس فقیر نے اللہ تعالیٰ کی عنایت سے حضرت ایشاں قدس سرہ کی رباعیات کی شرح میں اس مسئلے کو اہل حق کے معتقدات کے ساتھ جمع کیا ہے اور فریقین کی نزاع کو لفظ کی طرف راجع کیا ہے اور دونوں طرف کے مشکوک اور شبہات کو اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ کامحل نہیں رہا۔ كما لا يخفى على الناظرفيه جیسا کہ اس کے دیکھنے والے پر پوشیدہ نہیں ہے۔ 

جاننا چاہیئے کے ممکنات کیا جواہر کیا اعراض اور کیا اجسام اور کیا عقول اور کیانفوس اور کیا افلاک اور کیا عناصر سب کے سب اس قادر مختار کی ایجاد کی طرف منسوب ہیں جو ان کو عدم کی پوشیدگی سے وجود میں لایا ہے اور جس طرح یہ سب چیزیں اپنے وجود میں حق تعالیٰ کی محتاج ہیں اسی طرح بقا میں بھی اس کے محتاج ہیں اور اس نے اسباب اور وسائل کے وجود کو اپنے فعل کا روپوش بنایا ہے اور حکمت کو اپنی قدرت کا پردہ بنایا ہے نہیں بلکہ اسباب کو اپنے فعل کے ثبوت کے لئے دلائل بنایا ہے اور حکمت کو قدرت کے وجود کاوسیلہ فرمایا ہے ۔ کیونکہ وہ دانالوگ بے بصیرت کی آنکھ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی متابعت کے سرمہ سے سرمگیں اورروشن ہوئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسباب و وسائل جواپنے وجود اور اپنے بقا میں حق تعالیٰ کے تابع ہیں اور اپنا ثبوت وقيام اسی سے اور اسی کے ساتھ رکھتے ہیں ۔ حقیقت میں جمادمحض ہیں ۔ وہ کس طرح دوسرے میں جو وہ بھی انہی کی طرح جماد محض ہے تاثیر کر سکتے ہیں اور اس میں اختراع(من گھڑت) واحداث کس طرح پیدا کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کے سوا اور قادر ہے اور جوان کو ایجادکرتا ہے اور ہر ایک کے لائق اور مناسب کمالات ان کو عطا فرماتا ہے اور جس طرح عقلمند جماد محض سے فعل کو دیکھ کر اس کے فاعل اور محرک کی طرف سراغ لے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فعل اس جماد کے حال کے مناسب نہیں ہے۔ بلکہ اس کے سوا کوئی اور فاعل ہے جو اس فعل کو اس میں ایجاد کرتا ہے پس جماد کا فعل عقلمندوں کے نزدیک فاعل حقیقی کےفعل کارو پوش ثابت نہ ہوا۔ بلکہ اس کی جمادیت کی طرف نظر کرنے کے لحاظ سے اس کا وہ فعل فاعل حقیقی کے وجود پر دلیل ہے پس یہاں بھی اسی طرح ہے۔ ہاں اسی بیوقوف کے فعل میں جمادکافعل فاعل حقیقی کے فعل کا روپوش ہے جس نے اپنی کمال نادانی اور بیوقوفی کے باعث جماد محض کو اس فعل کے سبب صاحب قدرت سمجھااور فاعل حقیقی کی طرف سے کافر اور منکر ہوا ہے۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا بہت کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہت کو اس سے ہدایت دیتاہے۔ 

یہ معرفت مشکوۃ نبوت سے مقتبس ہے لیکن ہرایک شخص کا فہم یہاں تک نہیں پہنچتا۔ اکثر لوگ کمال کو اسباب کے رفع کرنے میں جانتے ہیں اور اشیاءکو ابتداء ہی سے اسباب کے ذریعے کے بغیر حضرت حق سبحانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسباب کے رفع کرنے میں اس حکمت کارفع ہونا ہے۔ جس کےضمن میں بہت سی مصلحتیں منتظر ہیں – رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا ‌بَاطِلًا اے ہمارے رب تو نے اس کو باطل پیدا نہیں کیا۔ 

انبیاء علیہم الصلوة والسلام اسباب کو مد نظر رکھتے ہیں اور باوجود اس رعایت کے اپنے امر اور کام کو حضرت حق سبحانہ کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا علیہ والصلوة والسلام نےبد نظری کالحاظ کر کے اپنے بیٹوں کو فرمایا 

يَابَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ ‌أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (اے میرے بیٹو ایک دروازہ سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور باوجود اس رعایت کے پھر اپنے امر کو حق جل شانہ کے سپرد کر کے فرمایا وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بے پروا نہیں کرتا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ میں نے اس پر توکل کیا اور توکل کرنے والے اس پر توکل کرتے ہیں۔) اور حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی معرفت کو پسند فرمایا ہے اور اپنی طرف نسبت دے کر اس طرح فرمایا ہے وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (اور وہ بے شک بہت ہی صاحب علم تھا اس لئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)اور حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ بھی قرآن مجید میں ہمارے پیغمبر ﷺکو اسباب کے توسط کی طرف اشارہ فرماتا ہے يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ ‌حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (اے نبی تجھے اللہ اور تابعدار مومن کافی ہیں باقی رہی اسباب کی تاثیر ہوسکتا ہے کہ الله تعالیٰ بعض اوقات اسباب میں تاثیر بھی پیدا کردےتا کہ مؤثر اور بعض اوقات تاثیر کو ان میں پیدا نہ کرے اور کوئی اثر ان پر مترتب نہ ہو جیسا کہ ہم روزمرہ میں اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ان اسباب پر مسببات کے وجود پر مترتب ہوتے ہیں اورکبھی کوئی اثر ان سے ظاہر نہیں ہوتا ۔ اسباب کی تاثیر مطلق انکار کرنا مکابره اور ہٹ دھرمی ہے تاثیر کو ماننا چاہیئے اور اسی تاثیر کو اس سبب کے وجود کی طرح حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کی ایجاد سے جاننا چاہئے فقیر کی رائے اس مسئلہ میں یہی ہے۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ أَعْلَمُ  ۔ اس میان سے ظاہر ہوا کہ اسباب کا توسط اور وسیلہ توکل کے منافی نہیں ہے جیسا کے اکثر ناقصوں نے گمان کیا ہے بلکہ اسباب کےتوسط میں کمال تو کل ہے۔ 

حضرت یعقوب علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نے اسباب کو مد نظر رکھ کر اپنے امر کون سبحانہ و تعالیٰ کے سپرد کرنے کو تو کل فرمایا ہے۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (میں نے اسی پر توکل کیا اور توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں اور حق تعالیٰ خیر و شر کا ارادہ کرنے والا اور ان دونوں کا پیدا کرنے والا ہے لیکن خیر سے راضی ہے اور شر سے راضی نہیں ہے۔ ارادہ اور رضا کے درمیان یہ ایک بڑا دقیق فرق ہے جس کی طرف الله تعالیٰ نے اہل سنت و جماعت کو ہدایت فرمائی ہے۔ باقی تمام فرتے اس فرق کی طرف ہدایت نہ پانے کے باعث گمراہ ہو گئے۔ . 

معتزلہ بندہ کو اپنے افعال کا خالق کہتے ہیں اور کفر و معاصی کی ایجاد کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور شیخ محی الدین اور ان کے تابعداروں کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور اعمال صالحہ اسم الھادی کے پسندیدہ ہیں اسی طرح کفر ومعاصی بھی اسم المضل کے پسندیدہ ہیں۔ 

یہ بات بھی اہل حق کے مخالف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے جو رضا کا منشا ہے۔ جس طرح کہیں کہ اشراق واضائت آفتاب کے پسندیدہ ہے اور حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے بندوں کو قدرت و ارادہ دیا ہے کہ اپنے اختیار سے افعال کا کسب کرتے ہیں ۔ افعال کا پیدا کرنا حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف منسوب ہے۔ اور ان افعال کا کسب بندوں کی طرف منسوب ہے۔ عادت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ پہلے بندہ اپنے فعل کا قصد کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس عمل کو پیدا کردیتا ہے۔ چونکہ بندہ کا عمل اپنے قصد و اختیار سے صادر ہوتا ہے۔ اس لئے مدح وذم اور ثواب و عذاب بھی اس کے متعلق ہوتا ہے اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ بندے کا اختیارضعیف ہے تو بجا ہے اور اگر اس لحاظ سے کہا ہے کے فعل مامور کے ادا کرنے میں کافی نہیں ہے تو یہ صحیح نہیں ہے ۔ فان سبحانہ لا يكلف بما ليس في وسعه بل يريد اليسر ولا يريد العسر کیونکہ الله تعالیٰ ایسے فعل کے لئے تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی طاقت سے باہر ہے بلکہ وہ تو آسانی ہی چاہتا ہے اورتنگی کا ارادہ نہیں کرتا۔ 

غرض یہ کہ فعل موقت(وقت معین) یعنی چند روز فعل پر ہمیشہ کی جزا کا مقرر کرناحق تعالیٰ عزیز وحکیم کی تقدیر کے حوالہ ہے جس نے کفر موقت کے لئے ہمیشہ کاعذاب برابر برابرجزا فرمائی اور دائمی لذت ونعمت کو ایمان موقت پر وابستہ کیا۔ ذَلِكَ ‌تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

حق تعالیٰ کی توفیق سے اس قدرتو ہم بھی جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ کی نسبت (جوظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی پاک بارگاہ کے لئے ہرقسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے) کفر اختیار کرنے کے لئے جزابھی ایسی ہونی چاہئیے جو تمام سخت عذابوں سے بڑھ کر ہو اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہنا ہے اور ایسے ہی اس منعم بزرگ پرغیب کے ساتھ ایمان لانے اورنفس و شیطان کی مزاحمت کے باوجود اس کو راست گو جاننے کیلئے جزا بھی ویسی ہونی چاہیئے جو سب جزاؤں سے بہتر اور اعلی درجہ کی ہو اور وہ نازو نعمت ولذت میں ہمیشہ رہنا ہے۔ 

بعض مشائخ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بہشت میں داخل ہونا در حقیقت حق تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور ایمان کے ساتھ اس کو وابستہ کرنا اس لیے ہے کہ جو کچھ اعمال کی جزا ہوتی ہے وہ زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔ 

فقیر کے نزدیک بہشت میں داخل ہونا ایمان پر وابستہ ہے لیکن ایمان حق تعالیٰ کے فضل اور اس کا عطیہ ہے اور دوزخ میں داخل ہونا کفر پرمنحصر ہے اور کفرنفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔ مَا ‌أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا ‌أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَجو تجھے نیکی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تجھے برائی پہنچے وہ تیرے نفس سے ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ بہشت میں داخل ہونے کو ایمان کے ساتھ وابستہ کرنے میں در حقیقت ایمان کی تعظیم ہے بلکہ مومَن بہ (جس پر ایمان لایا گیا)کی تعظیم ہے جس پر اتنا بڑا عظیم الشان اجر مرتب ہوا ہے اور ایسے ہی دوزخ میں داخل ہونے کو کفر کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں ۔ کفر کی حقارت اور ا س ذا ت بزرگ کی کہ جس کی نسبت یہ کفر وقوع میں آیا ہے فضیلت ہے۔ جس پر ایسا ہمیشہ کا عذاب مترتب ہوا ہے برخلاف اس بات کے جوبعض مشائخ نے کی ہے جو اس دقیقہ سے خالی ہے اور نیز ہمیشہ کے لئے دوزخ میں داخل ہونے کے لئے جو اس کا عدیل ہے کوئی مثال اس طرح پر جاری نہیں ہے۔ کیونکہ دوزخ میں داخل ہونا در حقیقت کفر پر موقوف ہے۔ والله سبحانہ الملهم هذا.

اور آخرت میں مومن لوگ اللہ تعالیٰ کو بے جہت و بے کیف اور بے شبہ و بے مثال جنت میں دیکھیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اہل سنت و جماعت کے سوا تمام اہل ملت غیر اہل ملت فرقے منکر اور بے جہت اور بے کیف دیدار کو جائز نہیں سمجھتے حتی کہ شیخ محی الدین ابن عربی بھی دیدار آخرت کوتجلی صوری() کی حالت میں بیان کرتا ہے اور تجلی صوری کے سوا تجویز نہیں کرتا۔ 

ایک دن حضرت ایشاں قدس سرہ اپنے شیخ سے نقل کرتے تھے کہ اگر معتزلہ دیدار کوتنزیہ کے مرتبہ میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ کے بھی قائل ہوتے اور دیدار کو اس تجلی میں بھی جانتے تو ہرگز دیدار کا انکار نہ کرتے اور محال نہ سمجھتے لیکن ان کا انکار بے جہتی اور بے کیفی سے ہے جومرتبہ تنزیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ برخلاف اس تجلی کے اس میں جہت و کیف ملحوظ ہے۔ 

پوشیدہ نہ رہے کہ دیدار آخرت کوتجلی صوری کی طرح بیان کرنا درحقیقت دیدار سے انکار کرنا ہے کیونکہ وہ تجلی صوری اگر چہ دنیا کی صوری تجلیات سے جدا ہے حق تعالیٰ کا دیدار نہیں ہے۔ 

يراه المؤمنون بغير کيف         و ادراک و ضرب من مثال

ترجمہ: مومن خدا کو دیکھیں گے جنت میں خوش خصال بے کیف وبے جہت بے شبہ بے مثال

 انبیاء علیہم الصلوة والسلام کا معبوث ہونا اہل جہان کے لئے سراسر رحمت ہے۔ اگر ان بزرگواروں کا واسطہ اور ذریعہ نہ ہوتا تو ہم گمراہوں کو اس واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف کون ہدایت فرماتا اور ہمارے مولی جل شانہ کی مرضیات اور نا مرضیات میں کون تمیز کرتا ۔ ہماری ناقص عقلیں ان بزرگواروں کے نورو دعوت کی تائید کے بغیر معزول و بیکار ہیں اور ہمارے نا تمام اور ادھورےفہم ان کی تقلید کے بغیر اس معاملہ میں مخزول و خوار ہیں-ہاں عقل بھی اگر چہ حجت ہے لیکن حجت ہونے میں ناتمام ہے اور مرتبہ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے۔ حجت بالغہ(دلیل کامل) انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت ہے جس پر آخرت کا دائمی عذاب وثواب وابستہ ہے۔

 سوال: جب آخرت کا دائمی عذاب بعثت پر موقوف ہے تو پھر بعثت کو رحمت عالمیان کہنا کس وجہ سے ہے؟ .

 جواب: بعثت عین رحمت ہے جو واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کا سبب ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کومتضمن ہے اور بعثت کی بدولت معلوم ہو گیا ہے کہ یہ چیز حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے مناسب ہے اور یہ چیز نا مناسب ۔ کیونکہ ہماری اندھی اولنگڑی عقل جو حدوث اور امکان کے داغ سے داغدار ہے کیا جانتی ہے کہ اس حضرت وجوب کے لئے جس کے واسطے قدم لازم ہے۔ اس کے اسماء و صفات و افعال میں سے کون سے مناسب ہیں اور کون سے نا مناسب تا کہ ان کا اطلاق کیا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے بلکہ بسا اوقات اپنے نقص کی وجہ سے کامل کو نقصان جانتے ہیں اور کمال کو نقصان سمجھتے ہیں۔ یہ تمیز فقیر کے نزدیک تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے وہ شخص بڑا بد بخت ہے جو امور نا مناسب کو حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کرے اور ناشائستہ اشیا کوحق سبحانہ کی طرف نسبت دے بعثت ہی کی بدولت حق باطل سے جدا ہوا ہے اور بعثت ہی کی وجہ سے عبادت کے مستحق اور غیر مستحق میں تمیز ہوئی ہے۔ وہ بعثت ہی ہے جس کے ذریعے حق تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت کرتے ہیں اور بندوں کو مولی جل شانہ کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتے ہیں اور بعثت کے ذریعے حق تعالیٰ کی مرضیات پر اطلاع حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ گزر چکا اور بعثت ہی کی طفیل حق تعالیٰ کے ملک میں تصرف کے جواز اور عدم جواز میں تمیز ہوتی ہے۔ بعثت کے اس قسم کے فائدے بکثرت ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ بعثت سراسر رحمت ہے اور جو اپنے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی خواہش کے تابع ہو جائے شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کر دے اور بعثت کے موافق عمل نہ کرے تو بعثت کا کیا گناہ ہے اور بعثت کیوں رحمت نہیں۔

سوال :عقل فی ذاتہ اگر چہ جل شانہ کے احکام میں ناقص و ناتمام ہے لیکن یہ کیوں نہیں ہوسکتا کے تصفیے اور تزکیہ (رذائل سے پاک) کے حاصل ہونے کے بعد عقل کو مرتبہ وجوب تعالیٰ و تقدس کے ساتھ ہےبے تكیف مناسبت اور اتصال پیدا ہو جائے ۔ جس مناسبت اور اتصال کے سبب احکام کو وہاں سے اخذ کرے اور اس کو اس بعثت کی جو فرشتہ کے واسطے ہے کوئی حاجت نہ رہے۔ جواب: عقل اگرچہ یہ مناسبت اور اتصال پیدا کر لے لیکن یہ تعلق جو اس کا اس مادی صورت کے ساتھ ہے بالکل دورنہیں ہوتا اور اس کو پورا پورا تجرد(جو مادہ سے پاک ہوں) حاصل نہیں ہوتا۔ پس وہم ہمیشہ اس کا دامن گیر رہتا ہے اورمتخیلہ ہرگز ان کا خیال نہیں چھوڑتی اور قوت غضبی اور شہوی ہمیشہ اس کی دوست رہتی ہیں اور حرص و شر کی رذیل صفتیں اس کی ہمنشیں ہوتی ہیں اور سہو ونسیان جونوع انسان کا لازمہ ہے اس سے دور نہیں ہوتے اور خطا اورغلطی جو اس جہان کا خاصہ ہے اس سے جدا نہیں ہوتے ۔ پس عقل اعتماد کے لائق نہیں ہے اور اس کے ماخوذه احکام وہم کے غلبہ اور خیال کے تصرف سے نہیں بچ سکتے اور زبان کی آمیزش اور خطا کے گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ برخلاف فرشتہ کے کہ وہ ان اوصاف سے پاک اور ان رذائل سے مبرا ہے پس وہ بالضرور اعتماد کے لائق ہوگا اور اس کے ماخوذه احکام وہم  و خیال کی آمیزش اور نسیان و خطا کے گمان سے محفوظ ہوں گے اور بعض اوقات ان علوم میں جو تلقی روحانی(القائے روحانی) سے اخذ کیے ہوتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ قویٰ و حواس کے ساتھ ان کی تبلیغ کی اثناء میں بعض مقدمات مسلمہ غیر صادقہ جو وہم و خیال وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوئے ہوتے ہیں ۔ ان علوم میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ اس وقت ہرگزتمیز نہیں کر سکتے اور ثانی الحال میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس تمیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ پس وہ علوم ان مقدمات کے مل جانے کے باعث کذب کی ہیئت پیدا کر لیتے ہیں اور پھر اعتماد کے قابل نہیں رہتے یا دوسرا اس کا یہ جواب ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ تصفیہ اور تزکیہ (رذائل سے پاک) کا حاصل ہونا ان اعمال صالحہ کے بجالانے پر موقوف ہے جو حق تعالیٰ کو پسند ہیں اور یہ امر بعثت موقوف ہے جیسا کہ گزر چکا۔ 

پس ثابت ہوا کہ بعثت کے بغیر تصفیہ اور تزکیہ (رذائل سے پاک) کی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور وہ صفائی جو کافروں اور فاسقوں کو حاصل ہوتی ہے وہ نفس کی صفائی ہے نہ قلب کی صفائی اور صفانفس سے گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور خسارہ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور بعض امور غیبی کا کشف جو صفائی کے وقت کافروں اور فاسقوں کو حاصل ہوتا ہے اور استدراج (شعبدہ بازی) ہے جس سے مقصودان لوگوں کی خرابی اور خسارہ ہے۔ 

نَجَّانَا اللهُ سُبْحَانَهٗ من هذه البلية بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَيْهِ وَعَلَیْھِمْ عَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَوۃُ وَ التَّسلِيمَاتُ الله تعالیٰ سید المرسلین ﷺ کے طفیل ہم کو اس بلا سے بچائے۔ 

اور اس تحقیق سے واضح ہوا کہ تکلیف شرعی جو بعثت کی راہ سے ثابت ہوئی ہے وہ بھی رحمت ہے نہ کہ جس طرح تکلیف شرعی کے منکروں یعنی ملحدوں اور زندیقوں نے گمان کیا ہے اور تکلیف کوکلفت (بے چینی)سے تصور کر کے غیر معقول اور ناپسند جانا ہے اور جو کہتے ہیں کہ یہ کونسی مہربانی ہے کہ بندوں کو سخت مشکل امور کی تکلیف دیں اور کہیں کہ اگر تم اس تکلیف کے بموجب عمل کرو گے تو بہشت میں جاؤ گے اور اگر اس کے برخلاف کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے ان کو ایسے امور کی کیوں تکلیف دیتے ہیں ان کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ کھائیں پئیں اور سور ہیں اور اپنے حال میں رہیں یہ بد بخت اور بیوقوف نہیں جانتے کہ منعم کا شکر از روئے عقل کے واجب ہے اور یہ تکلیفات شرعیہ(شرعی پابندیاں)  اس شعر کے بجالانے کا بیان ہے۔ پس تکلیف عقل کی رو سے واجب ہے اور نیز جہان کا انتظام اس تکلیف پر منحصر ہے۔ اگر ہر ایک کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ان سے سوائے شرارت اور فساد کے کچھ ظاہر نہ ہوتا۔ ہر بوالہوس دوسرے کے جان و مال میں دست درازی کرتا اور خبث و فساد سے پیش آتا اور خود بھی ضائع ہوتا اور دوسرے کو بھی ضائع کرتا عياذ بالله سبحانه اگر شرعی موانع اور زواجر نہ ہوتے تو معلوم نہیں کس قدرشرارت اور فساد ظاہر ہوتا۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ اے داناؤں قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ 

کند زنگئے مست در کعبہ قے اگر چوب حاکم باشد زپے

ترجمہ: اگر چوب حاکم سے زنگی نہ ڈرتا تو مستی سے کعبہ میں قے جا کے کرتا ۔

یا ہم یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ خودمختار مالک ہے اور بندے اس کے مملوک اور غلام ہیں۔ پس جوحکم وتصرف جو وہ ان میں فرماتا ہے عین خیر وصلاح ہے اور ظلم و فساد کی آمیزش سے منزه اور مبرہ ہے لَا يُسْأَلُ ‌عَمَّا ‌يَفْعَلُ جو وہ کرتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ 

کر از ہرہ آنکه ازبیم تو کشاید زباں جزبہ تسلیم تو

 ترجمہ: نہیں طاقت کے کوئی تیرے ڈرسے زبان اپنی بجز تعلیم کھولے 

اگر سب کو دوزخ میں بھیج دے اور ان کو ہمیشہ کا عذاب فرمائے کوئی اعتراض کی جگہ نہیں اور غیر کے ملک میں یہ تصرف نہیں ہے جوستم کی صورت پیدا کرے۔ برخلاف ہمارے املاک کے جو درحقیقت اسی کے املاک ہیں ان املاک میں ہمارے تمام تصرفا ت عین ستم ہیں کیونکہ صاحب شرع نے بعض مصلحتوں کے باعث ان املاک کو ہماری طرف منسوب کیا ہے اور در حقیقت اسی کے املاک ہیں۔ پس ہمارا تصرف ان املاک میں اس قدر جائز ہے جس قدر کہ اس مالک مختار نے اس تصرف کو تجویز فرمایا ہے اور ہمارے لئے مباح کیا ہے اور جو کچھ ان بزرگواروں میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے حق جل وعلا کے جتلانے سے خبر دی ہے اور جن احکام کا بیان فرمایا ہے سب سچ اور واقع کے اخطاء کی تقریر کو ان کے حق میں جائز نہیں رکھا اور کہا ہے کہ ان کو خطا پر جلدی آگاہ کر دیتے ہیں اور صواب و بہتری سے اس کا تدارک فرماتے ہیں۔ فلا اعتدادبذلك الخطاء پس یہ خطا کی گنتی میں نہیں ہے۔ 

اور قبر کا عذاب کافروں کو اور بعض گنہگار مومنوں کے لئے حق ہے۔ مخبر صادق علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات نے اس کی نسبت خبر دی ہے۔ 

اور قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر و نکیر کا سوال بھی حق ہے۔ قبر دنیا اور آخرت کے درمیان ایک برزخ ہے۔ اس کا عذاب ایک وجہ سے عذاب دینوی سے مناسبت رکھتا ہے اور انقطاع پذیر ہے اور دوسری وجہ سے عذاب آخرت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جو درحقیقت آخرت کے عذابوں سے ہے۔ آیت النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا ‌غُدُوًّا وَعَشِيًّا آگ ان پرصبح و شام پیش کی جاتی ہے) عذاب قبر میں نازل ہوئی ہے اور اسی طرح قبر کا آرام بھی دو جہت رکھتا ہے۔ وہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے جس کی لغزشوں اور قصوروں کو کامل کرم اور مہربانی سے بخش دیں اور ہرگز اس کا مواخذہ نہ کریں اور اگر مواخذہ کے مقام میں آئے بھی تو کمال مہربانی سے دنیا کے رنجوں اور مصیبتوں کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیں اور جو کچھ بقیہ رہ جائے تو قبر کی تنگی اور ان تکلیفوں کو جو اس مقام میں مقرر کی ہوئی ہیں اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیں تا کہ پاک و پاکیزہ محشر میں مبعوث ہو اور جس شخص کے لئے ایسا نہ کریں اور اس کا مواخذه آخرت پر موقوف رکھیں اس کے حق میں بھی عدل ہے لیکن گنہگاروں اور شرمساروں کے حال پر افسوس ہے ہاں جو کوئی اہل اسلام سے ہے۔ اس کا انجام رحمت سے ہے اور عذاب ابدی سے محفوظ ہے یہ بھی بڑی اعلی نعمت ہے۔ 

ربناا تمم لنا نورنا واغفرنا إنك على كل شی ء قدير بحرمۃ سَيِّدِ الُمُرْسَلِيْنَ  عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ

اے ہمارے رب سيد المرسلین ﷺکے طفیل ہمارے لئے نور کو کامل کر اور ہمارے گناہوں کو بخش تو ہر شے پر قادر ہے۔ . 

روز قیامت حق ہے اور اس دن آسمان و زمین اور ستارے اور پہاڑ اور سمندر اور حیوان اور نباتات اور معاون سب کے سب معدوم اور نا چیز ہوجائیں گے۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور ستارے پراگندہ ہو کر گر جائیں گے اور زمین و پہاڑ اڑ جائیں گے۔ یہ اعدام اورفنا نفحہ اولی(پہلا صور) سے تعلق رکھتا ہے اور اور نفحہ ثانیہ (دوسرے صور)میں قبروں سے اٹھیں گے اورمحشر میں جائیں گے۔ 

اہل فلسفہ آسمانوں اورزمینوں کے نیست و نابود ہونے کو نہیں مانتے اور ان کافانی اور فاسد ہونا جائز نہیں سمجھتے اور ان کو ازلی ابدی کہتے ہیں اور باوجود اس امر کے ان میں سے متاخرین(بعد)  لوگ اپنی بیوقوفی کے باعث اپنے آپ کو اہل اسلام کے گروہ سے جانتے ہیں اور بعض اسلامی احکام کے بجالانے کا دعوی کرتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ بعض اہل اسلام ان کی ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور بے تحاشا ان کو مسلمان جانتے ہیں اور اس سے زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مسلمان ان لوگوں میں بعض کے اسلام کو کامل جانتے ہیں اور اگر کوئی ان کوطعن وتشنیع کرے تو بہت برا مناتے ہیں حالانکہ یہ لوگ نصوص قطعی کے منکر ہیں اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے اجماع کا انکار کرتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ جس وقت آفتاب کے نور کی چادر کو لپیٹ لیا جائے اور جس وقت تارے جھڑپڑیں) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ اور جب آسمان پھٹ جائے اورسن لے حکم اپنے پروردگار کا اور اسی لائق ہے) اور الله تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا ای شقت (اور آسمان پھٹ کر اس میں دروازے دروازے ہو جائیں گے۔) اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں اور نہیں جانتے کہ صرف کلمہ شہادت کا منہ سے بول لینا اسلام میں کافی نہیں ہے بلکہ ان تمام چیزوں کی تصدیق ضروری ہے جن کا بجا لانا اور ان پر عملدرآمد کرنا دین کی ضروریات سے سمجھا گیا ہے اور کفر کا فری سے تبرایعنی بیزار ہونا بھی ضروری ہے تا کہ اسلام ثابت ہوجائے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے) اور حساب اور میزان اور صراط حق ہے کہ مخبر صادق علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام نے ان کی نسبت خبر دی ہے اور نبوت کے حال سے بعض جاہلوں کے نزدیک ایسے امور کا بعید از عقل ہوتا اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ نبوت کی حقیقت عقل کی حقیقت سے برتر ہے اور انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے صادقہ اخبار کونظرعقل کے ساتھ موافقت کرنا درحقیقت طور نبوت سے انکار کرنا ہے کیونکہ یہاں تو معاملہ تقلید پر ہے۔ نہیں جانتے کہ طور نبوت طورعقل کے مخالف ہے بلکہ عقل انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی تقلید کے ایسے عالی مطالب کی طرف ہدایت نہیں پاسکتی۔ مخالفت اور چیز ہے اور وہاں تک نہ پہنچنا اور شئے۔ کیونکہ مخالفت مطلب تک پہنچنے کے بعدمتصور ہوتی ہے۔ 

بہشت و دوزخ موجود ہیں قیامت کے دن حساب لینے کے بعد ایک گروہ کو بہشت میں اور ایک دوزخ میں بھیج دیں گے اور ثواب و عذاب ابدی ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا جیساکہ قطعی اور مؤکدہ نصوص اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔ 

صاحب فصوص(شیخ محی الدین ابن عربی) کہتا ہے کہ سب کا انجام رحمت سے ہے۔ ‌وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍمیری رحمت سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے) اور کفار کے لیے دوزخ کا عذاب تین حصہ تک ثابت کرتا ہے اور بعدازاں کہتا ہے کہ آگ ان کے حق میں برد اور سلام یعنی ٹھنڈی اور سلامت ہو جائے گی۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام پر ہوئی تھی اور حق تعالیٰ کے وعید میں خلاف جائز سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی اہل دل صوفی کفار کے ہمیشہ کے عذاب کی طرف نہیں گیا ہے۔ اس مسئلہ میں بھی صواب سے دور جا پڑا ہے اور اس نے نہیں جانا ہے، کو مومنوں اور کافروں کے حق میں رحمت کا وسیع ہونا صرف دنیا ہی میں مخصوص ہے اور آخرت میں کافروں کو رحمت کی بو بھی نہ پہنچے گی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ ‌رَوْحِ ‌اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ( میری رحمت سے کافروں کے سوا اور کون ناامید نہ ہوگا اور ۔ ‌وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے بعد فرماتا ہے۔ ‌فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ پھر میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ 

شیخ نے آیت کے اول حصہ کو پڑھا ہے اور آخری حصہ پر عمل نہیں کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ ‌رَحْمَتَ ‌اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے) اور آیت کریمه فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ ‌مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ خلف وعدہ کی خصوصیت پر دلالت نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے کہ اس جگہ وعدہ خلافی کے نہ ہونے کا اقتصار و انحصار اس سبب سے ہو کہ وعدہ سے اس جگہ مراد رسولوں کی نصرت اور اور کفار پر ان کا غلبہ ہے اور یہ بات وعده و عید پرمتضمن ہے۔ یعنی رسول کے لئے وعدہ ہے اور کفار کیلئےوعید۔ پس گویا اس آیت میں خلف وعدہ کی بھی اور خلف وعید کی بھی نفی ہے۔ فالا يۃمستشهدة عليه لا له اور نیز وعید میں خلاف ہونا وعدہ کے خلاف کی طرح کذب کومستلزم ہے اور یہ بات حق تعالیٰ کی بلند بارگاه کے مناسب نہیں ہے یعنی حق تعالیٰ نے ازل میں جان لیا تھا کہ کفار کو ہمیشہ کا عذاب نہ دوں گا اور پھر باوجود اس بات کے کسی مصلحت کیلئے اپنے علم کے خلاف کہہ دیا کہ ان کو ہمیشہ کا عذاب کروں گا۔ اس امر کا تجوی کرنا نہایت ہی برا ہے۔ 

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ ‌الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (تیرا بڑی عزت والا رب اس بات سے برتر و پاک ہے جس کے ساتھ اس کو موصوف کرتے ہیں او ر مرسلین پر سلام ہو اور کفار کے لئے دائمی عذاب کے نہ ہونے پر اہل دل کا اجماع صرف شیخ کا اپنا کشف ہے اور کشف میں خطا کی مجال بہت ہے اور چونکہ یہ کشف مسلمانوں کے اجتماع کے مخالف ہے اس لئے اس کا کچھ اعتبار اور شمارنہیں ہے۔ 

فرشتے اللہ جل شانہ کے بندے ہیں جو گناہوں سے معصوم اور خطا و نسیان سے محفوظ ہیں۔ لَا ‌يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (جوامر ان کو اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کوحکم ہوتا ہے اور کھانے پینے اور زن ومرد ہونے سے پاک اور منزہ ہیں اور قرآن مجید میں ان کیلئے مذکر ضمیروں کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ مردوں کا گروہ عورتوں کے گروہ سے بزرگ اور شریف مانا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بھی اپنی ذات کے واسطےمذکر ضمیروں کا استعمال فرمایا ہے اور حضرت حق سبحانه و تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو رسالت کیلئے برگزیدہ کیا ہے جس طرح کہ بعض انسان کو بھی اس دولت سے مشرف کیا ہے ۔ اللَّهُ ‌يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ (اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں سے بعض کو رسول بنا لیتا ہے تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ خاص خاص انسان فرشتوں سے افضل ہیں۔ 

امام غزالی اور امام الحرمین (امام عبد الملک بن عبد اللہ الجوینی)اور صاحب فتوحات مکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ خاص ملک خاص انسان سے افضل ہیں اور جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فرشتہ کی ولایت نبی علیہ الصلوة والسلام کی ولایت سے افضل ہے لیکن نبوت اور رسالت کے درمیان نبی کے لئے ایک ایسا درجہ جہاں تک فرشتہ نہیں پہنچا ہے اور وہ درجہ عنصر خاک کی راہ سے ظاہر ہوا ہے جو بشر کے ساتھ مخصوص ہے اور اس فقیر پر یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کمالات ولایت کمالات نبوت کے مقابلہ میں کسی گنتی میں نہیں ہیں ۔ کاش کہ ان کے درمیان وونسبت ہی ہوتی جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہے جو راہ ولایت سے حاصل ہو۔ پس افضلیت مطلق انبیاء علیہم الصلوة والسلام کا حصہ ہے اورفضل جزئی ملائکہ کرام کے لئے ہے۔ پس بہتر وہی ہے جو جمہور علما شکر اللہ تعالیٰ سعیہم نے کہا ہے۔ 

اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ کوئی ولی کسی نبی کے درجہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اس ولی کا سر ہمیشہ اس نبی کے قدم کے نیچے ہوتا ہے۔ . 

جاننا چاہیئے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ میں جس میں صوفیہ و علماء کاباہم اختلاف ہے جب اچھی طرح اور ملاحظہ کیا جاتا ہے توحق بجانب علماء معلوم ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کی نظر نے انبیاء علیہم الصلاة والسلام کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے اور صوفیہ کی نظر ولایت کے کمالات اس کے معارف تک ہی محدود ہے۔ پس وہ علم جو نبوت کی پیش گاہ سے حاصل کیا جائے وہ بالضرور اس علم سے جو مرتبہ ولایت سے اخذ کیا جائے کئی درجے بہتر اور حق ہوگا۔ 

بعض معارف کی تحقیق اس مکتوب (260دفتر اول)میں جو اپنے فرزند ارشد کے نام طریقہ کے بیان میں لکھا ہے درج ہوچکی ہے اگر کچھ وقت اور پوشیدگی رہ جائے تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں۔

 ان تمام دینی امور کے ساتھ جو ضرورت اور تواتر کے طریق پر ہم تک پہنچے ہیں تصدیق قلبی سے مراد ہے اور اقرارز بانی بھی ایمان کارکن کہا ہے کہ سقوط کا احتمال رکھتا ہے اور کفر اور کافری اور کفر کے خصائص اور لوازم مثلا زنار باندھنا اور اس قسم کی اور رسوم سے جو اس میں پائی جاتی ہیں تبری کرنا اور بیزار ہونا اس تصدیق کی علامت میں سے ہے اور اگر عياذ بالله کوئی اس تصدیق کا بھی دعوی کرے اور کفر سے بیزاری اور تبری بھی ظاہر نہ کرے تو ظاہر ہے کہ ایساشخص دودینوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو ارتدادکے نشان سے داغدار ہے اور حقیقت میں اس کا حکم منافق کا حکم ہے۔ ” لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ (نہ ادھر کا نہ ادھر) آیت کریمہ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ ‌وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (اے نبی کفار اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پرسختی کر)اسی مضمون کی تائید کرتی ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اور اس کے رسولﷺکی محبت ان کے دشمنوں کی دشمنی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ اس جگہ یہ مصرعہ ثابت آتا ہے

 تولی بے تبری نیست ممکن ترجمہ نہیں ہوتی محبت بن تبری

 شیعہ نے جو یہ قاعدہ اہل بیت کی محبت اور دوستی میں جاری کیا ہوا ہے اور خلفائے ثلاثہ کے تبرےکو اس محبت کی شرط قرار دیا ہے نا مناسب ہے کیونکہ دوستوں کی محبت کے لئے شرط ہے کہ ان کے دشمنوں سے تبری کیا جاوے نہ کہ مطلق طور پر دشمنوں کے سوا غیروں سے بھی اور کوئی منصف عاقل اس بات کو جائز نہیں کہتا کہ پیغمبر عليه الصلاة والسلام کے اصحاب اہل بیت کے دشمن ہوں جبکہ ان بزرگواروں نے نبی ﷺکی محبت میں اپنے مالوں اور جانوں کو صرف کردیا اور جاہ و ریاست کو برباد کر دیا ہے اور کس طرح اہل بیت کی دشمنی کو ان کی طرف منسوب کر سکتے ہیں جبکہ نص قطعی کے ساتھ آنحضرت ﷺکے قرابت والوں کی محبت ثابت ہے اور دعوت کی اجرت ان کی محبت مقرر کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا 

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ‌الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا کہ یا رسول اللہ کہہ دو کہ میں تم سے اہل قرابت کی دوستی کے سوا اور کچھ ا جرنہیں مانگتا اور جوشخص ایک نیکی کمائے گا ہم اس کی نیکیوں میں اور نیکیاں زیادہ کریں گے۔ 

حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علی نبینا و علیہ الصلوة والسلام نے جو یہ بزرگی پائی اور شجرة انبیاء بن گئے حق تعالیٰ کے دشمنوں سے تبری کرنے کے باعث ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ ‌أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے اصحاب میں نہایت اعلی درجہ کی بہتر پیروی تھی جب کہ انہوں نے قوم کے لوگوں کو کہا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو بیزار ہیں اور ہم تم سے انکار کرتے ہیں اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاوہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔ 

اور حق جل وعلی کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے فقیر کی نظر میں اس تبری کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ تبری کا ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت حق سبحانه و تعالیٰ کو کفر اور کافری کے ساتھ عداوت ہے اور اللہ تعالیٰ آفاقی مشل لات و عزی اور ان کے عبادت کرنے والے بالذات حق سبحانہ کے دشمن ہیں اور دوزخ کا دائمی عذاب اس برے عمل کی جزا ہے اور اللہ انفسی یعنی ہوائے نفسانی اور تمام برے اعمال کی نسبت نہیں رکھتے کیونکہ غضب و عداوت ان کی نسبت ذاتی نہیں ہے ۔ اگر غضب ہے تو صفات کی طرف منسوب ہے اور اگر عقاب وعتاب ہے تو افعال کی طرف راجع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوزخ کا دائمی عذاب ان برے فعلوں کی جزا نہیں بنا بلکہ ان کی معرفت کو اپنی مشیت اور اردہ پر منحصر کیا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ جب کفر اور کافروں کے ساتھ ذاتی عداوت ثابت ہوچکی تو نا چار رحمت و رافت جو صفات جمال میں سے ہے آخرت میں کافروں کو نہ پہنچے گی اور رحمت کی صفت عداوت ذاتی کو دور نہ کرے گی وہ چیز جوذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس چیز کی نسبت جو صفت سے تعلق رکھتی ہے زیادہ اقوی اور ارفع ہے۔ پس مقتضائے صفت مقتضائے ذات کو تبدیل نہیں کر سکتا اور یہ جوحدیث قدسی میں آیا ہے کہ ‌سَبَقَتْ ‌رَحْمَتِي غَضَبِي(میری رحمت غضب پر بڑھی ہوئی ہے اس غضب سے مراد غضب صفاتی سمجھنا چاہیئے جو گنہگاروں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ غضب ذاتی جومشرکوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

 سوال:اگر کہیں کہ دنیا میں کافروں کو رحمت نصیب ہے ۔ جیسا کہ تو نے اوپرتحقیق کی ہے تو پھر دنیا میں رحمت کی صفت نے ذاتی عداوت کو کیسے دور کر دیا؟ جواب: میں کہتا ہوں کہ دنیا میں کافروں کو رحمت کا حاصل ہونا ظاہر اور صورت کے اعتبار سے ہے اور درحقیقت ان کے حق میں استدراج اور مکر ہے۔ 

آیت کریمہ أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ  ‌نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ  ۔ کیا یہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے ان کی امداد کئے چلے جارہے ہیں اس کےیہ معنی ہیں کہ ان کو فائدہ پہنچانے میں ہم جلدی کررہے ہیں۔ (نہیں) بلکہ یہ لوگ اصل مطلب ) کوسمجھتے نہیں۔ 

اور آیت کریمہ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ‌وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ  ہم انہیں اس طرح پر کہ ان کو خبر بھی نہ ہو آہستہ آہستہ (جہنم کی طرف گھسیٹ کرلے جائیں گے اور ہم ان کو دنیا میں) مہلت دیتے ہیں اور ہمارے داؤ بے شک (پکا) داؤ ہے۔ انہی معنوں پر شاہد ہیں۔ فليفهم.

فائده جلیلہ : دوزخ کا دائمی عذاب کفر کی جزا ہے۔ پھر اگر پوچھیں کہ ایک شخص باوجود ایمان کے کفرکی رسمیں بجالاتا اور کفر کی رسموں کی تعظیم کرتا ہے اور علماء اس کفر کا حکم لگاتے اور اس کو مرتد سمجھتے ہیں ۔ جیسا کہ ہندوستان کے اکثر مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں پس چاہیئے کہ علما ء کےفتوی کے بموجب وہ شخص آخرت کے عذاب ابدی میں گرفتار ہو۔ حالانکہ اخبارصحیحہ میں آچکا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ ایمان بھی ہوگاس کو دوزخ سے باہر نکال لیں گے اور دائمی عذاب میں نہ رہنے دیں گے ۔ تیرے نزدیک اس مسئلہ کی کیا تحقیق ہے۔ 

میں کہتا ہوں کہ اگر وہ شخص کا فرمحض ہے تو دائمی عذاب اس کے نصیب ہے ۔ ‌نَعُوذُ ‌بِاللَّهِ ‌مِنْہ ( اس سےاللہ کی پناہ)اور کفر کی رسموں کے بجالانے کے باد جو دذره ایمان بھی رکھتا ہے تو دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہوگا لیکن اس ذره بھر ایمان کی برکت سے امید ہے کہ دائمی عذاب سے اخلاص ہو جائے گا اور دائمی گرفتاری سے نجات پا جائے گا۔ 

فقیر ایک دفعہ ایک شخص کی بیمار پرسی کے لئے گیا جس کا معاملہ نزع کی حالت تک پہنچا ہوا تھا۔ جب فقیر اس کے حال کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اس کے دل پر بہت ہی ظلمتیں چھائی ہوئی ہیں۔ ان ظلمتوں کو دور کرنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ وہ ظلمتیں اس کے دل پر سے دور ہو جائیں لیکن اس کے دل نے قبول نہ کیا بہت سی توجہ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ظلمتیں صفات کفر سے پیدا ہوئی ہیں جو اس میں پوشیدہ تھیں اور وہ کدورتیں کفر اور اہل کفر کے ساتھ دوستی رکھنے کے باعث پیدا ہوئی ہیں ۔ توجہ کے ساتھ ظلمتیں دور نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ ان کلمات سے اس کا پاک ہونا دوزخ کے عذاب پر موقوف ہے جو کفر کی جزا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ذرہ بھر ایمان بھی رکھتا ہے جس کی برکت سے آخر کار اس کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ جب اس میں اس حال کا مشاہدہ کیا تو دل میں گزرا کہ آیا اس شخص پر نماز جنازہ پڑھنی چاہیئے یا نہ ۔ توجہ کے بعد ظاہر ہوا کہ نماز ادا کرنی چاہیئے۔ 

پس وہ مسلمان جو باوجود ایمان کے کافروں کی رسمیں بجا لاتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان پر نماز جنازہ پڑھنی چاہیئے اور کفار کے ساتھ نہ ملانا چاہیئے جیسا کہ آج تک یہ عمل برابر ہوتا چلا آیا ہے اور امیدوار ہونا چاہیئے کہ آخر کار ایمان کی برکت سے عذاب سے نجات پا جاویں گے۔ 

پس معلوم ہوا کہ اہل کفر کے لئے عفو اور مغفرت نہیں ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ الله تعالیٰ شرک کو نہیں بخشے گا اور اگر کا فرمحض ہے تو عذاب ابدی اس کے کفر کی جزا ہے اور اگر ذرہ کر ایمان رکھتا ہے تو اس کی جزا دوزخ کا عذاب مؤقت ہے اور اس کے تمام کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں چاہے تو ان کو بخش دے چاہے تو ان کو عذاب دے۔ فقیر کے نزدیک دوزخ کا عذاب موقت ہو خواہ دائمی‘ کفر اور صفات کفر کے ساتھ مخصوص ہے چنانچہ اس کی تحقیق آگے آئے گی اور وہ اہل کبائر کہ جن کے گناہ تو بہ یا شفاعت یا صرف عفوواحسان کے ساتھ مغفرت میں نہیں آتے یا جن کبیرہ گناہوں کا کفارہ دنیا کے رنج اور تکلیفوں اور موت کے سکر ات اور سختیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ امید ہے کہ ان کے عذاب میں جن کو عذاب قبر کے ساتھ کفایت کریں گے اور بعض کو قبر کی تکلیفوں کے علاوہ قیامت کی سختیوں اور ہول کے ساتھ کفایت کریں گے اور ان کے گناہوں میں سے کوئی ایسا گناہ باقی نہ چھوڑیں گے جس کے لئے عذاب دوزخ کی ضرورت پڑے۔ آیت کریمہ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ ‌يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ (وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملایا ان کیلئے امن ہے) اسی مضمون کی مؤید ہے کیونکہ ظلم سے مراد شرک ہے ۔ وَاَللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ ‌الْأُمُورِ كُلِھَا اور تمام امور کی حقیقت کواللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ 

اگر کہیں کہ کفر کے سوا بعض اور برائیوں کی جزا بھی دوزخ کا عذاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا ‌مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا (جس نے کسی مومن کوعمدا قتل کیا اس کی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ) اور اخبار میں بھی آیا ہے کہ جو شخص ایک نماز فریضہ کوعمدأقضا کرے گا اس کو دوزخ میں عذاب دیں گے۔ پس دوزخ کاعذ اب صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہ رہا۔ 

میں کہتا ہوں قتل کا عذاب اس شخص کے لئے جوقتل کو حلال جانے کیونکہ قتل کو حلال جانے والا کافر ہے جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ اور کفر کے سوا اور برائیاں جن کے لئے دوزخ کا عذاب آیا ہے۔ وہ بھی صفات کفر کی آمیزش سے خالی نہ ہوں گی۔ جیسا کہ اس برائی کو خفیف سمجھنا اور اس کے بجالانے کے وقت لاپروائی کرنا اور شریعت کے امرونہی کو خوارسمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ 

اور خبر میں آیا ہے کہ ‌شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنَ ‌أُمَّتِي (میری شفاعت میری امت کبیرہ گنا کرنے والوں کے لئے ہوگی اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ‌أُمَّتِي أُمَّةٌ ‌مَرْحُومَةٌ، لَا عَذَابَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ (میری امت امت مرحومہ ہے اس کو عذاب آخرت نہ ہوگا)اور آیت کریمہ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ ‌يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ اسی مضمون کی مؤید ہیں ۔ جیسا کہ مذکور ہوا اور مشرکوں کے اطفال اور شاہقان جبل اور پیغمبروں کے زمانہ فترت کے مشرکوں کا حال اس مکتوب(259دفتر اول) میں جوفرزندی محمد سعید کے نام لکھا ہے مفصل ذکر ہو چکا ہے وہاں سے معلوم کر لیں۔ 

اور ایمان کے کم و زیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے ۔ امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ الايمان لا يزيد ولا ينقص ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یزید وینقص کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔ 

اس میں کچھ شک نہیں کہ ایمان قلبی تصدیق اور یقین سے مراد ہے جس میں زیادت اور نقصان کی گنجائش نہیں اور وہ جو زیادت اور نقصان کو قبول کر ے دائرہ ظن میں داخل ہے نہ یقین میں ۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمال صالحہ کا بجا لانا اس یقین کو روشن کر دیتا ہے اور بُرے اعمال کا بجا لانا اس یقین کو مکدر و سیاہ کردیتا ہے۔ پس زیادت اور نقصان اعمال کے اعتبار سے اور اعمال صالحہ کا بجا لانا اس یقین کے روشن ہونے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفس یقین میں بعض نے اس یقین کو جب کہ منجلی اور روشن معلوم کیا تو اس یقین کی نسبت جوانجلا اور روشنی نہیں رکھتا زیادہ نہیں کہہ دیا۔ گویا بعض نے غیرمنجلی یقین کو یقین نہ جانا اور انہی بعض نے منجلی کو یقین جان کر ناقص کہہ دیا اور بعض دوسروں نے جو زیادہ تیز نظر رکھتے تھے جب دیکھا کہ یہ زیادت اور نقصان صفات یقین کی طرف راجع ہے نہ کہ نفس یقین کی طرف تواس سبب سے یقین کو غیر زائد و ناقص کہہ دیا جس طرح کہ دوآئینے جو باہم برابر ہوں لیکن اکمل اور نورانیت میں تفاوت(فرق)  رکھتے ہوں تو ایک شخص اس آئینہ کو جو زیادہ روشن ہے اور نمائندگی زیادہ رکھتا ہے کہہ دے کہ یہ آئینہ بنسبت اس آئینہ ہے جس میں ویسی روشنی اور انجلا نہیں ہے زیادہ ہے اور دوسراشخص کہہ دے کہ یہ دونوں آئینے برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی زیادت اور نقصان نہیں ہے ۔ فرق صرف انجلا اور نمائندگی میں ہے جو ان دونوں آئینوں کی صفات ہیں ۔ پس دوسرے شخص کی نظر صائب ہے اور حقیقت شے تک نافذ ہے اور شخص اول کی نظر کوتاہ ہے اور صفت سے بڑھ کر ذات تک نہیں پہنچتی ہے ‌يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ– الله تعالیٰ ایمان داروں کو بلند کرتا ہے اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ لوگ صاحب درجات بلند ہیں۔ 

اس تحقیق سے کہ جس کے اظہار کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس فقیر و توفیق بخشی مخالفوں کے وہ سب اعتراض جو انہوں نے ایمان کے کم و بیش نہ ہونے پر کئے ہیں، زائل ہو گئے اور عام مومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے ایمان کی طرح نہ ہوا کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا ایمان جوکامل طور پرمنجلی اور نورانی ہے۔ عام مومنوں کے ایمان سے جو مومنوں کے درجوں کے اختلاف کے بموجب بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں رکھتا ہے اور اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان جو وزن میں اس امت کے ایمان سے زیادہ ہے۔ انجلا اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیئے اور زیادت کو صفات کاملہ کی طرف را جع کرنا چاہیئے کیا نہیں دیکھتے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام نفس انسانیت میں عام لوگوں کے ساتھ برابر ہیں اور حقیقت اور ذات میں سب باہم متحد ہیں ۔ تفاضل یعنی ایک کا دوسرے سے افضل ہونا صفات کاملہ کے اعتبار سے ہے اور جس میں یہ صفات کامل نہیں ہیں گویا وہ اس نوع سے خارج ہے اور اس نوع کے فضائل اور خواص سے محروم ہے لیکن باوجوداس تفاوت کے نفس انسانیت میں زیادت اور نقصان کا کوئی دخل نہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ انسانیت زیادت و نقصان کے قابل ہے۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْمُلْهِمُ لِلصَّوَابِ ۔ 

اور نیز کہتے ہیں کی تصدیق ایمانی سے مراد بعض کے نزدیک تصدیق منطقی ہے۔ جوظن اور یقین کو شامل ہے۔ اس تقدیر پرنفس ایمان میں زیادت اور نقصان کی گنجائش ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس جگ تصدیق سے مراد دلی یقین اور اذعان(دل سے قبول کرنا) ہے نہ کہ معنی عام جوظن کو بھی شامل ہیں۔ 

امام اعظم رحمتہ الله علیہ کہتے ہیں کہ انا مومن حقا اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ انا مؤمن إنشاء الله تعالیٰ در حقیقت ان میں نزاع لفظی ہے لیکن مذہب اول باعتبار ایمان حال کے ہے اور مذہب ثانی باعتبار ایمان انجام اور عاقبت ہے لیکن صورت استثناء سے کنارہ کرنا بہتر اور مناسب ہے۔ کما لا يخفى على المنصف جیسا کہ منصف آدمی سے مخفی نہیں ہے۔ 

اور اولیاء اللہ کی کرامتیں ہیں اور ان سے بکثرت خرق عادات کے واقع ہونے کے باعث ان کی یہ بات عادت مستمرہ ہوگئی اور کرامت کا منکر علم عادی اور ضروری کا منکر ہے۔ نبی کامعجزہ دعوی نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے اور کرامت اس بات سے خالی ہے۔ بلکہ اس نبی کی متابعت کے اقرار کرنے کے ساتھ ملی ہوتی ہے ۔فلا اشتباه بين المعجزة والكرامة كما زعم المنكرون پس معجزہ اور کرامت کے درمیان کوئی اشتباه نہ رہا جیسا کہ منکروں نے گمان کیا ہے۔ 

اور فضیلت کی ترتیب خلفائے راشدین کے درمیان خلافت کی ترتیب کے موافق ہے لیکن شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے آئمہ کی ایک جماعت نے جن میں سے ایک امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہے اس بات نقل کیا ہے:۔ 

قال الشيخ الامام ابو الحسن الأشعرى إن تفضيل ابی بکرثم عمر على بقية الامۃ قطعی شیخ امام ابوالحسن اشعری فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت پھر حضرت عمر رضی الله عنہ کی فضیلت باقی امت قطعی ہے۔ 

قَالَ الذَّهَبِيّ وَقد تَوَاتر ذَلِك عَنهُ فِي خِلَافَته وكرسي مَمْلَكَته وَبَين الجم ‌الْغَفِير من شيعته ثمَّ بسط الْأَسَانِيد الصَّحِيحَة فِي ذَلِك قَالَ وَيُقَال رَوَاهُ عَن عَليّ نَيف وَثَمَانُونَ نفسا وَعدد مِنْهُم جمَاعَة ثمَّ قَالَ ‌فقبح ‌الله الرافضة مَا أجهلهمامام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ان کی خلافت ومملکت کے زمانہ میں اور آپ کے تابعداروں میں سے ایک جم غفیر کے درمیان یہ بات بطریق تواتر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تمام امت میں سے افضل ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں کہ اس بات کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اسی (80)سے کچھ زیادہ آدمیوں نے روایت کیا ہے اور ان میں سے ایک جماعت کا نام بھی لیا ہے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافضیوں کا برا کرے اور یہ کیسے جاہل ہیں۔ 

وروى البخاري عنه أنه قال خير ‌الناس بعد رسول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أبو بكر، ثم عمر، ثم رجل آخر، فقال له ابنه محمد بن الحنفية: ثم أنت يا أبت. فكان يقول: ما أبوك إلا رجل من المسلميناور بخاری نے ان سے روایت کی ہے فرمایا کہ نبی ﷺکے بعد سب لوگوں میں سے بہتر حضرت ابو بکر ہیں پھر حضرت عمر پھر ایک. اور شخص ۔ پس اس کے بیٹے محمد بن حنفیہ نے کہا کہ پھر آپ ۔ پس فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان شخص ہوں۔ 

وصحح الذي وغيره عن علي انه قال أَلَا وَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا يُفَضِّلُونِي عَلَيْهِمَا أَلَا فَمَنْ وَجَدْتُهُ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ ‌مَا ‌عَلَى ‌الْمُفْتَرِيامام ذہبی نے حضرت علی سے یہ کہا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ مجھے ان دونوں پر فضیلت دیتے ہیں اور جس کو میں پاؤں گا مجھے ان پر فضیلت دیتا ہے وہ مفتری ہے اور اس کی سزا بھی وہی ہوگی جومفتری کی سزا ہوتی ہے۔ 

وأخرج الدار قطيئ عنه لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ ‌الْمُفْتَرِياور دارقطنی نے آپ سے روایت کی ہے کہ جس کو میں دیکھوں کہ مجھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر پرفضیلت دیتا ہے تو میں اس کواتنے کوڑے لگاؤں گا جومفتری کی سزا ہے۔ 

اس قسم کی اور بہت سی مثالیں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اور ان کے سوا اور بہت سے صحابہ سے متواتر آئی ہیں جن میں کسی کو انکار کی مجال نہیں ہے حتی کہ عبدالرزاق جوا کابر شیعہ میں سے ہے کہتا ہے کہ أُفَضِّلُ الشَّيْخَيْنِ بِتَفْضِيلِ ‌عَلِيٍّ ‌إِيَّاهُمَا عَلَى نَفْسِهِ، وَلَوْ لَمْ يُفَضِّلْهُمَا مَا فَضَّلْتُهُمَا، كَفَى بِي إِزْرَاءً أَنْ أُحِبَّ عَلِيًّا ثُمَّ أُخَالِفَ قَوْلَهُمیں شیخین کو اس لئے فضیلت دیتا ہوں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خود اپنے اوپر ان کو فضیلت دی ہے ورنہ میں ان کو بھی فضیلت نہ دیتا۔ مجھےیہی گناہ کافی ہے کہ میں اس کو دوست رکھوں اور پھر اس کی مخالفت کروں ۔ کل ذلک مستفاد من الصواعق یہ سب کچھ صواعق سے لیا گیا ہے۔ 

لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر۔ پس اکثر اہل سنت اس بات پر ہیں کہ شیخین کے بعد افضل حضرت عثمان ہیں ۔ حضرت علی اور آئمہ اربعہ(چاروں امام ابو حنیفہ، شافعی مالک اور احمد حنبل) مجتہدین رحمته الله علیہم اجمعین کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ توقف جو حضرت عثمان کی فضیلت میں امام مالک سے نقل کیا ہے۔ اس کے بارہ میں قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امام مالک نے توقف سے حضرت عثمان کی تفصیل کی طرف رجوع کیا ہے اور قرطبی نے کہا ہے کہ ھوالاصح إنشاء الله تعالیٰ یہی درست ہے اور ایسے ہی وہ توقف جوبعض نے امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی اس عبارت سے سمجھا ہے کہ من علامات السنۃ والجماعة تفضيل الشيخين ومحبة الختنين شیخین (ابوبکر و عمر)کی تفضیل اور ختنین (دونوں دامادعثمان و علی) کی محبت اہل سنت و جماعت کی علامات میں سے ہے۔

اس فقیر کے نزدیک اس عبارت کے اختیار کرنے کامحل اور ہے چونکہ حضرت ختنین کی خلافت کے زمانہ میں فتنہ و فسادلوگوں میں بہت ظاہر ہوگیا تھا اور اس سبب سے لوگوں کے دلوں میں بہت کدورت آگئی تھی۔ اس لئے امام رحمته الله علیہ نے اس بات کو مدنظر رکھ کر ان کے حق میں محبت کا لفظ اختیار کیا ہے اور ان کی دوستی کو سنت کی علامات سے فرمایا ہے۔ بغیر اس امر کے کہ کسی قسم کا توقف ملحوظ ہو اور ہو بھی کیونکر جب کہ حنفی کتاہیں اس مضمون سے بھری ہیں کہ ان کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب پر ہے۔ 

الغرض شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور حضرت عثمان کی افضلیت اس سے کم تر ہے لیکن احوط یہی ہے کہ حضرت عثمان کی افضلیت کے منکر بلکہ شخین کی افضلیت کے منکر کو بھی کفر کا حکم نہ کریں اور مبتدع(بدعتی) اور ضال جانیں کیونکہ اس کی تکفیر میں علماء کا اختلاف ہے اور اس اجماع کے قطعی ہونے میں بہت قیل و قال ہے ایسا منکر یزید بد بخت کا ساتھی اور بھائی ہے کہ اسی احتیاط کے باعث علماء نے اس کے لعن کرنے میں توقف کیا ہے۔ وہ ایذا جو پیغمبر ﷺکو خلفائے راشدین کی جہت سے پہنچی ہے۔ وہ بعینہ اسی ایذا کی طرح ہے جو امامین(حسن و حسین) کی جہت سےپہنچی ہے عَلَيهِ وَعَلَیْھِمْ  الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ۔

اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللهَ وَمَنْ آذَى اللهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُرسول الله ﷺنے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان کو میرے بعد نشانہ نہ بناؤ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے گویا میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا اس نے گویا میرے ہی بغض کے باعث ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا دی اس نے گویا مجھے ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذ ادی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذادی اور جس نے اللہ اور رسول کو ایذادی وہ اس کا مواخذہ کرے گا۔ 

الله تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِلوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ 

اور جو کچھ مولانا سعد الدین نے شرح عقائدنسفی میں اس افضلیت کے حق میں انصاف سمجھا ہے وہ انصاف سے دور ہے اور وہ تردید جو اس نے کی ہے وہ سراسر لا حاصل ہے کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اس جگہ افضلیت سے وہ مراد ہے جو الله تعالیٰ کے نزدیک بکثرت ثواب کے اعتبار سے ہے نہ کہ وہ افضليت جو فضائل اور مناقب کے بکثرت ظاہر ہونے کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ ایسی افضلیت عقل مندوں کے نزدیک کچھ اعتبارنہیں رکھتی ۔ کیونکہ سلف صحابہ و تابعین نے جس قدرفضائل و مناقب حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) رضی اللہ عنہ کی نسبت نقل گئے ہیں وہ اور کسی صحابی کی نسبت منقول نہیں ہیں ۔ حتی کہ امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہمَا جَاءَ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَضَائِلِ ‌مَا ‌جَاءَ ‌لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اور جو فضائل حضرت علی کے بارہ میں آئے ہیں وہ کسی اور صحابی کی نسبت نہیں آئے اور باوجود اس امر کے امام مذکور نے خلفائے ثلاثہ کی افضلیت کا حکم کیا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ افضلیت کی وجہ ان فضائل و مناقب کے سوا کچھ اور ہے اور اس افضلیت پر اطلاع پانا دولت وحی کی ان مشاهده کرنے والوں کو میسر ہے جنہوں نے صریح طور پر قرآن سے معلوم کی ہے اور وہ صحابہ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات والتسلیمات ہیں ۔ پس جو کچھ شارح عقا ئدنسفی نے کہا ہے کہ اگر مراد افضلیت سے کثرت ثواب ہے تو پھر توقف کی جہت ساقط ہے کیونکہ توقف کی تبھی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس افضلیت کو صاحب شریعت کی طرف سے صریح طور پر یا دلالت کے طور پر معلوم نہ کیا ہو اور جب معلوم ہو چکی ہو تو پھر کیوں توقف کریں اور جو شخص سب کو برابر جانے اور ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا فضول سمجھے۔ وہ بوالفضول اور احمق ہے وہ کیسا عجب بوالفضول ہے جو اہل حق کے اجماع کوفضول جانتا ہے۔ شاید فضل کا لفظ اس کو اس فضولی کی طرف لے گیا ہے اور یہ جو صاحب فتوحات مکیہ نے کہا ہے کہ ان کی خلافت کی ترتیب کا سبب ان کی عمروں کی مدت ہے فضیلت اور مساوات پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ خلافت امر دیگر ہے اور افضلیت کی بحث دیگر ہے۔ اور اگر مان بھی لیں تو یہ بات اور اس قسم کی اور باتیں اس کے شطحیات(وہ کلمات جو واصلین کاملین سے حالت مستی و غلبہ شوق میں بے اختیار نکلےظاہر شریعت کے خلاف ) کی قسم سے ہیں جو تمسک کے لائق نہیں ہیں ۔ اس کے اکثر کشفیہ معارف جو اہل سنت کے علوم سے جدا واقع ہوئے ہیں ، صواب اور بہتری سے دور ہیں ۔ ایسی باتوں کی وہی شخص متابعت کرتا ہے جس کا دل بیمار ہے یا مقلد صرف ہے۔ اور جو کچھ صحابہ کے درمیان لڑائی جھگڑے واقع ہوئے ہیں ان کو نیک توجیہ پرمحمول کرنا چاہیئے اور ہوا وتعصب سے دورسمجھنا چاہیئے۔ 

تفتازانی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت میں افراط کرنے کے باوجودفرمایا ہے۔ وما وقع من المخالفات والمحاربات لم يكن عن نزاع في خلافة بل عن خطاء في الاجتهاد اورلڑائی جھگڑے ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ خلافت کے بارہ میں نزاع کے باعث نہ تھے۔ بلکہ اجتہاد میں خطا کے سبب تھے۔ 

اور اس کے حاشیہ خیالی میں ہے فان معاوية وأحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بأنه أفضل أهل زمانه الاحق بالإمامة منه بشبهة هى ترك القصاص عن قتلة عثمان رضی الله تعالیٰ عنه (کے معاویہ اور اس کے لشکر نے اس کی اطاعت سے سرکشی کے باوجود یہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ تمام اہل زمانہ سے افضل ہے۔ اور نیز وہ اس سے امامت کا زیادہ مستحق ہے ازروئے شبہہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے )اور حاشیہ قرہ کمال(الدین اسماعیل) قری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا ہے إخواننا بغوا علينا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لهم من التاويل (ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لئے تاویل ہے) اورشک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن تشنیع سے مرفوع ہے۔ 

حضرت خیر البشر علیہ وعلی آلہ الصلوة والتحیات کی صحبت کے حقوق کو مد نظر رکھ کر تمام اصحاب کرام کو نیکی سے یاد کرنا چاہیئے اور پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کی دوستی کے باعث ان کو دوست رکھنا چاہیئے ‌مَنْ ‌أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ (جس نے ان کو دوست رکھا اس نے میری محبت سے ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا)یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب کے متعلق ہے وہ وہی محبت ہے۔ ہم مجھ سے متعلق ہے اور ایسے ہی وہ بغض جوان سے متعلق ہے وہ وہی بغض ہے جو مجھ سے متعلق ہے۔ ہم کو حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والوں سے کچھ آشنائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے کہ ہم ان سے بیزار ہیں لیکن چونکہ سب کے سب حضرت پیغمبر صلوت اللہ والسلام کے اصحاب کرام ہیں جن کی محبت کے لئے ہم مامور اور ان کےبغض وایذ اسے ممنوع ہیں ۔ اس لئے ہم حضرت پیغمبر علیہم الصلوت و التسلیمات کی دوستی کے باعث سب کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے بغض وایذاسے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ان کابغض و ایذ ا آنحضرت ﷺکے بغض و ایذا تک پہنچا دیتا ہے لیکن محق(حق پر) کو محق اور مخطی(بلا قصد خطاوار) کو مخطی کہتے ہیں ۔ لیکن حضرت امیرحق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر اس سے زیادہ کہنا فضول ہے۔ . 

اس بحث کی تحقیق اس مکتوب (251)میں جو خواجہ اشرف کی طرف لکھا ہے مفصل ذکر ہو چکی ہے اگر کوئی بات مخفی رہ گئی ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں۔ 

عقائد کے درست کرنے کے بعد احکام فقہ کا سیکھنا ضروری ہے اور فرض و واجب و حلال وحرام و سنت و مندوب ومشتبه ومکروہ کے جانے سے چارہ نہیں ہے اور ایسا ہی اس علم کے مواق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ فقہ کی کتابوں کا مطالعہ ضروری سمجھیں اور اعمال صالحہ کے بجا لانے میں بڑی کوشش مد نظر رھیں ۔ نماز جو دین کا ستون ہے اس کے تھوڑے فضائل اور ارکان بیان کیے جاتے ہیں، غور سے سنیں۔ 

اول وضو کے کامل اور پورے طور پر کرنے سے چار نہیں ہے۔ ہر عضو کو تین بار تمام و کمال طور پر دھونا چاہیئے تا کہ وضو  سنت کے طریقہ پر ادا ہو اور سر کا مسح بالاستیعاب یعنی سارے سر کا مسح کرنا چاہیئے اور کانوں اور گردن کے مسح میں احتیاط کرنی چاہیئے اور بائیں ہاتھ کی خنصریعنی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے نیچے کی طرف خلال کرنا لکھا ہے اس کی رعایت رکھیں اور مستحب کے بجا لانے کو تھوڑا نہ جانیں ۔ مستحب اللہ تعالیٰ کے زیادہ پسند یدہ اور دوست ہے اگر تمام دنیا کے عوض اللہ تعالیٰ کا ایک پسندیدہ فعل معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق عمل میسر ہو جائے تو بھی غنیمت ہے اس کا بعینہ یہی حکم ہے کہ کوئی خزف ریزوں یعنی ٹھیکروں سے قیمتی موتی خرید لے یا بیہودہ اور بے فائدہ جمادیعنی پتھر سے روح کو حاصل کرلے۔ 

کمال طہارت اور کامل وضو کے بعد نماز کا قصد کرنا چاہیئے جو مومن کی معراج ہے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ فرض نماز جماعت کے بغیر ادا نہ ہونے پائے بلکہ امام کے ساتھ تکبیر اولی ترک نہ کرنی چاہیئے اور نماز کو مستحب وقت میں ادا کرنا چاہیئے اور قرأت میں قدر مسنون کو مد نظر رکھنا چاہیئے اور رکوع وسجود میں طمانیت ضروری ہے کیونکہ بقول مختار یا فرض ہے یا واجب اور قومہ میں اس طرح سیدھا کھڑا ہونا چاہیئے کہ تمام بدن کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آجائیں اور سیدھا کھڑا ہونے کے بعد طمانیت درکار ہے کیونکہ فرض ہے یا واجب یا سنت على اختلاف الاقوال ایسا ہی جلسہ میں جو دو سجدوں کے درمیان ہے۔ درست بیٹھنے کے بعد اطمینان ضروری ہے جیسا کہ قومہ میں اور رکوع وسجود کی کمتر تسبیحیں تین بار ہیں اور زیادہ سے زیادہ سات بار یا گیارہ بار ہیں، على اختلاف اقوال اور امام کی تسبیح مقتدیوں کے حال کے موافق ہے ۔ شرم کی بات ہے کہ انسان اکیلا ہونے کی حالت میں باوجود طاقت کے اقل تسبیحات پر کفایت کرے اور اگر زیادہ نہ ہو سکے تو پانچ یا سات بارتو کہے اورسجدہ کرنے کے وقت اول و ہ اعضاء ز مین پر رکھے جو زمین کے نزدیک ہیں۔ پس اول دونوں زانوں زمین پر رکھےپھردو ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی اور زانوں اور ہاتھ رکھنے کے وقت دائیں طرف شروع کرنا چاہیئے اور سر کے اٹھانے کے وقت اول ان اعضاء کو اٹھانا چاہیئے جو آسمان سے نزدیک ہیں ۔ پس پہلے پیشانی اٹھانی چاہیئے الخ اور قیام کے وقت اپنی نظر کو سجدہ کی جگہ پر اور رکوع کے وقت اپنے پاؤں پر اورسجده کے وقت اپنے پاؤں پر اور سجدہ کے وقت نوک بینی پر اور جلوس کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں پر یا دونوں بغلوں کی طرف رکھنا چاہیئے جب نظر کو پراگندہ ہونے سے روک رکھیں اور مذکورہ بالا جگہوں پر لگائے رکھیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ نماز جمعیت کے ساتھ میسر ہوگئی اور خشوع والی نماز حاصل ہوگئی جس طرح کہ نبی علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے اور ایسا ہی رکوع کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا کھلا رکھنا اورسجود کے وقت انگلیوں کا ملانا سنت ہے۔ اس کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے انگلیوں کا کھلا رکھنا یا ملانا بے تقریب اور بے فائد نہیں ہے۔ 

صاحب شرع نے اس میں کئی قسم کے فائدہ ملاحظہ کر کے اس پرعمل کیا ہے ۔ ہمارے لئے صاحب شریعت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کے برابر کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ یہ سب احکام مفصل اور واضح طور پر کتب فقہیہ میں مذکور ہیں ۔ یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ علم فقہ کے مطابق عمل بجالانے پر ترغیب ہو۔ 

وفقنا الله سبحانه و اياكم على الأعمال الصالحة الموافقة علوم الشريعة بعد أن وفقنا الله سبحانہ بتصحيح العقائد الدنية بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَيْهِ وَعَلَیْھِمْ عَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَوۃُ وَ التَّسلِيمَاتُ الله تعالیٰ حضرت سید المرسلین ﷺکے طفیل ہم کو اور آپ کو دینی عقائد کے درست ہونے کے بعد شرعی علوم کے موافق اعمال صالحہ کے بجالانے کی بھی توفیق دے۔ 

اگر نماز کے فضائل اور اس کے مخصوصہ کمالات کے معلوم کرنے کا شوق ہو تو تین مکتوبوں کو جو ایک دوسرے کے قریب ومتصل ہیں مطالعہ کر یں۔ پہلا مکتوب(260) فرزندی محمد صادق کے نام پراور دوسرا (261)میرمحمد نعمان کے نام پراور تیسرا(263) مشیخیت ماب میاں شخ تاج کے نام لکھا ہے۔ 

ان اعتقادی اورعملی دو پروں کے حاصل ہونے کے بعد اگر اللہ جل سلطانہ کی توفیق رہنمائی کرے تو صوفیہ کے طریقہ علیہ کا سلوک کرے۔ نہ اس غرض کے لئے کہ اس اعتقاد اور عمل سے بڑھ کر کوئی چیز حاصل ہو اور کوئی نئی بات ہاتھ آئے۔ بلکہ مقصودیہ ہے کہ معتقدات کی نسبت ایسایقین اور اطمینان حاصل کریں جو ہرگز کسی مشکک سے زائل نہ ہو اور کسی شبہ کے وارد ہونے سے باطل نہ ہو کیونکہ استدلال کے جو پاؤں ہوتے ہیں اور مستدل سے بےتمکین ہوتا ہے۔ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (خبر دار اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے)اور اعمال کی نسبت آسانی اور سہولت حاصل کریں اور سرکشی کو جونفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) سے پیدا ہوتی ہے دور کریں اور طریقہ صوفیہ کے سلوک سے یہ مقصود نہیں ہے کہ غیبی صورتوں اور شکلوں کا مشاہدہ کریں اور الوان و انوار کا معائنہ کریں ۔ یہ بات خودلہو و لعب میں داخل ہے۔ کیاحسی صورتیں اور شکلیں کم ہیں کہ ان کو چھوڑ کر ریاضتوں اور مجاہدوں کے ساتھ غیبی صورتوں اور انوار کی تمنا کریں ۔ یہ صورتیں اور وہ صورتیں اور یہ انوار اور وہ انوار سب حق جل و علی کی مخلوق اور اس کے وجود پر دلالت کرنے والے نشانات ہیں۔ 

اور طرق صوفیہ میں سے طریقہ علیہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا بہت مناسب اور بہتر ہے کیونکہ ان بزرگواروں نے سنت کی متابعت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے اجتناب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو متابعت کی دولت حاصل ہو اور احوال کچھ بھی نہ ہوں تو خوش ہیں اور اگر احوال کے باوجود متابعت میں فتور جانیں تو احوال کو پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگواروں نے سماع ورقص کو جائز نہیں سمجھا اور ان احوال کا جان پرمترتب ہوتے ہیں کچھ اعتبار نہیں کیا ہے بلکہ ذکر جہر کو بھی بدعت جان کر اس سے منع کیا ہے اور وہ فائدے اورثمرے جو اس پر مترتب ہوتے ہیں ان کی طرف التفات نہیں کی۔ 

ایک دن میں حضرت ایشاں رحمتہ اللہ علیہ کی ملازمت میں مجلس طعام میں حاضر تھا۔ شیخ کمال نے جو حضرات خواجہ قدس سرہ کے مخلص دوستوں میں تھا کھانا شروع کرتے وقت حضرت ایشاں کے حضور میں اسم الله کو بلند کہا، حضور کو بہت ناخوش معلوم ہوا اور یہاں تک کہ جھڑکا اور فرمایا کہ اس کو کہہ دو کہ ہماری مجلس طعام میں حاضر نہ ہوا کرے ۔

 اور میں نے حضرت ایشاں سے سنا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ علماء بخارا کو جمع کرکے حضرت امیرکلال قدس سرہ کی خانقاہ میں لے گئے تھے تا کہ ان کو ذکر جہر سے منع کریں ۔ علماء نے حضرت امیرکلال کی خدمت میں عرض کیا کہ ذکر جہر بدعت ہے نہ کیا کریں ۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ نہ کریں گے۔ 

جب اس طریقہ کے بزرگوار ذکر جہر سے منع کرنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں تو پھر سماع رقص اور وجد کا کیا ذکر ہے وہ احوال ومواجيد جوغیر شرع اسباب پر مرتب ہوں فقیر کے نزدیک استدراج کی قسم سے ہیں کیونکہ استدراج والوں کو بھی احوال و اذواق حاصل ہوتے ہیں اور جہان کی صورتوں کے آئینوں میں کشف و تو جید اور مکاشفہ و معائنہ ان کو ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس امر میں حکماء یونان اور ہند کے جوگی اور برہمن سب برابر ہیں ۔ احوال کے سچا اور صادق ہونے کی علامت علوم شرعیہ کے ساتھ ان کا موافق ہونا اور محرمہ اور مشتبہ امور کے ارتکاب سے بچنا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ سماع و رقص در حقیقت لہو و لعب میں داخل ہیں۔ آیت کریمہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي ‌لَهْوَ ‌الْحَدِيثِ (اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی (نالائق)ہے جو واہیات (خرافات) قصے کہانیاں مول لے لیتا ہے) سرود کے منع ہونے کے شان میں نازل ہوئی ہے۔ 

چنانچہ مجاہد جو ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کا شاگرد ہے اور کبار تابعین میں سے ہیں کہتاہے کہ لھوا الحديث سے مراد سرود ہے۔ 

في المدارك لهو الحديث السمر والغناء وكان ابن مسعود وابن عباس رضي الله عنهما ‌يحلفان ‌أنه ‌الغناءتفسیر مدارک میں ہے کہ لھوالحدیث سے مراد سمریعنی بے ہودہ قصے کہانیاں اور سرود ہے اور حضرت ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم قسم کھاتے تھے کہ بے شک وہ غنا اور سرودہے۔ 

حضرت مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول لَا يَشْهَدُونَ ‌الزُّورَ (زور میں حاضر نہیں ہوتے) کی 

تفسیر میں فرماتے ہیں أى لا يحضرون الغناء (یعنی سرودوسماع میں حاضر نہیں ہوتے۔ 

اور امام الدین ابو منصور ماتریدی سے شکایت کی گئی ہے کہ مَنْ قَالَ لِمُقْرِئِي ‌زَمَانِنَا ‌أَحْسَنْت عِنْدَ قِرَاءَتِهِ يَكْفُرُجس نے ہمارے زمانہ کے کسی قاری کو قرأت کے وقت کہا کہ تونے بہت اچھا پڑھا کافر ہو جاتا ہے اور اس کی عورت اس سے جدا ہو جاتی ہے اور اس کی تمام نیکیاں دور ہو جاتی ہیں۔ 

اور ابونصير الدبوسی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے قاضی ظہیر الدین خوارزمی سے نقل کیا ہے کہ من سمع الغناء من المغنى وغيره اویری فعلا من الحرام فیحسن ذلک باعتقاد أو بغیر اعتقادیصير مرتدا في الحال بناء على أنه أبطل حکم الشريعة فلايکون مومنا عند کل مجتھدا ولا يقبل الله تعالى طاعته واحبط الله تعالیٰ کل حسناته جس نے کسی گانے والے یا کسی اور سے سرودسنا یافعل حرام کو دیکھا اور اس کو اچھا جانا از روئے اعتقاد کے یا بغیر اعتقاد کے تو اس وقت مرتد ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کےحکم کو باطل کر دیا اور جس نے شریعت کےحکم کو باطل کردیا وہ کسی مجتہد کے نزدیک مومن نہیں رہتا اور نہ اللہ تعالیٰ اس کی اطاعت قبول کرتا ہے اور اس کی سب نیکیوں کو دور کر دیتا ہے۔ أَعَاذَنَا ‌اللَّهُ سُبْحَانَهُ عنْ ‌ذَالِكَ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے۔ 

آیات و احادیث اور آیات فقہیہ غنا اور سرود کی حرمت میں اس قدر ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ اگر کوئی شخص منسوخ حدیث یا روایت شاذہ کو سرود کے مباح ہونے میں پیش کرے تو اس کا ہرگز اعتبار نہ کرنا چاہیئے کیونکہ کسی فقیہ نے کسی زمانہ میں سرود کے مباح ہونے کا فتوی نہیں دیا ہے اور نہ ہی رقص و پا کوبی کو جائز قرار دیا ہے۔ 

چنانچہ امام ہمام ضیاء الدین شامی کی ملتقط میں مذکور ہے اور صوفی کاعمل حل وحرمت میں سند نہیں ہے۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اور ان کو ملامت نہ کریں اور انکا امر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر یں یہاں تو امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول معتبر ہے نہ ابو بکرشبلی اور ابی حسن نوری کاعمل۔ 

اس زمانہ کے بچے اور خام صوفیوں نے اپنے پیروں کے عمل کو بہانہ کر کے سردو ورقص کو اپنا دین وملت بنا لیا ہے اور اسی کو اطاعت و عبادت سمجھ لیا ہے ۔ الَّذِينَ اتَّخَذُوا ‌دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا (یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے لہو ولعب کو اپنا دین بنالیا ہے) اور روایت سابقہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ جوشخص فعل حرام کو حسن اور اچھاجانے وہ اسلام کے گروہ سے نکل جاتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے تو پھر خیال کرنا چا ہئیے کہ سماع ورقص کی مجلس کی تعظیم کرنا بلکہ اس کو اطاعت و عبادت سمجھنا کیسا برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے پیر اس امر میں مبتلا نہ ہونے اور ہم تابعداروں کو اس قسم کے امور کی تقلید سے چھڑادیا۔ 

سننے میں آتا ہے کہ مخدوم زادے سرود کی رغبت کرتے ہیں اور سرود و قصیدہ خوانی کی مجلس جمعہ کی راتوں میں منعقد کرتے ہیں اور اکثر یار اس امر میں موافقت کرتے ہیں ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ دوسرے سلسلوں کے مرید تو اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر اس امر کے مرتکب ہوتے ہیں اور شرعی حرمت کو اپنے پیروں کے عمل سے دفع کرتے ہیں اگرچہ فی الحقیقت اس امر میں حق نہیں ہیں۔ بھلا اس سلسلہ کے یار اس ارتکاب میں کون سا عذر پیش کریں گے۔ ایک طرف حرمت شرعی اور دوسری طرف اپنے پیروں کی مخالفت نہ اہل شریعت اس فعل سے راضی ہیں اور نہ ہی اہل طریقت اور اگر حرمت شرعی بھی نہ ہوتی تو پھر بھی طریقت میں صرف کسی نئے امر کا پیدا کرنا برا تھا۔ پھر ایسے امر کیونکر برے نہ ہوں جب کہ حرمت شرعی بھی اس کے ساتھ جمع ہو جائے۔ مجھے امید ہے کہ جناب مرزا جی اس امر سے راضی نہ ہونگے لیکن آپ کے آداب کو مدنظر رکھ کر صریح طور پر منع نہ کرتے ہوں گے اور یاروں کو اس اجتماع سے نہ روکتے ہوئے اس فقیر نے چونکہ اپنے آنے میں کچھ توقف دیکھا ہے اس لئے چند فقرے جمع کر کے لکھ کر دیئے ہیں اس سبق کو مرزا جی کی خدمت و ملازمت میں لے جائیں اور اول سے آخر تک ان کے سامنے پڑھیں ۔ والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ251 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

عقائد کلامیہ کے بیان میں مکتوب نمبر266دفتر اول” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں