یہ جامع دعا اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی آخری دعا ہے جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
إِلٰهِي كَيْفَ لَا أَفْتَقِرُ إِلَيْكَ وَأَنْتَ الَّذِي فِي الْفَقْرِ اَقَمْتَنِي أَمْ كَيْفَ أَفْتَقِرُ إِلىٰ غَيْرِكَ وأَنْتَ الَّذِي بِجُودِكَ أَغْنَيْتَنِي أَنْتَ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُكَ تَعَرَّفْتَ لِكُلِّ شَيْءٍ فَمَا جَهَلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الَّذِي تَعَرَّفَ إِلَيَّ فِي كُلِّ شَيْءٍ فَرَأَيْتُكَ ظَاهِرًا فِي كُلِّ شَيْءٍ فَاَنْتَ الظَّاهِرُ لِكُلِّ شَيْءٍ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ لِكُلِّ شَيْءٍ ، يَا مَنِ اسْتَوَى بِرَحْمَانِيَّتِهِ عَلَى عَرْشِهِ فَصَارَ الْعَرْشُ غَيْباً فِى رَحْمَانِيَّتِهِ ، كَمَا صَارَتِ الْعَوَالِمُ غَيْبًا فِي عَرْشِهِ مَحَقْتَ الْآثَارِ بِالْآثَارِ وَمَحَوْتَ الْأَغْیَارُ بِمُحِیْطَاتٍ أَفْلَاكِ الْأَنْوَارِ يَا مَنْ اِحْتَجَبَ فِي سُرَادِقَاتِ عِزِٗهِ عَنْ أَنْ تُدْرِكَهُ الْأَبْصَارُ يَا مَنْ تَجَلَّى بِكَمَالِ بَهَائِهِ فَتَحَقَّقَتْ عَظْمَتُہُ الْاَسْرَارَ ، كَيْفَ تَخْفٰى وَأنْتَ الظَّاهِرُ ، أَمْ كَيْفَ تَغِيبُ وَأَنْتَ الرَّقِيبُ الْحَاضِرُ ، وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ وَبِهِ اسْتَعِينُ
اے میرے اللہ ! میں تیرا محتاج کیسے نہ رہوں جب کہ تو نے ہی مجھ کومحتاجی میں قائم کیا ہے یا میں تیرے غیر کا محتاج کیسے ہو جاؤں جب کہ تو نے ہی اپنے فضل و کرم سے مجھ کو بے نیاز کر دیا ہے؟ تو ہی وہ ذات پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تو نے ہرشی کو اپنی پہچان کرائی ۔ لہذا کوئی شی تجھ سے نا واقف نہیں رہی۔ اور تو ہی وہ ذات پاک ہے کہ تو نے ہرشی میں مجھ کو اپنی پہچان کرائی ۔ پس میں نے ہرشی میں تجھ کو ظاہر دیکھا۔ پس تو ہی ہرشی کا ظاہر ہے۔ اور تو ہی ہرشی کا باطن ہے۔ اے وہ ذات پاک ! جو اپنی رحمانیت کے ساتھ اپنے عرش پر قائم ( غالب ) ہے ۔ پس عرش اس کی رحمانیت میں گم ہو گیا۔ جیسا کہ کائنات اس کے عرش میں گم ہے۔ تو نے آثار کو آثار سے باطل کر دیا اور تو نے اغیار کو انوار کے گھیر نے والے افلاک سے مٹا دیا۔ اے وہ ذات اقدس جو اپنی عزت کے پردوں میں آنکھوں کے دیکھنے سے پوشیدہ ہو گئی ۔ اے وہ ذات اقدس جو اپنے حسن و جمال کے کمال کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ۔ پس اس کی عظمت اسرار میں مضبوطی سے قائم ہو گئی ۔ تو کیسے چھپ سکتا ہے جب کہ تو ہی ظاہر ہے۔ یا تو کیسے غائب ہو سکتا ہے جب کہ تو نگہبان حاضر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ اور میں اس سے مدد مانگتا ہوں میں نے جس کے جمع کرنے کا (یعنی کتاب الحکم کی تشریح) ارادہ کیا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قوت سے مکمل ہو گیا۔ پس اگر یہ حق اور درست ہے تواللہ بزرگ وبرتر کا احسان و کرم ہے ور نہ بندہ تو خطاو تقصیرکا مرکب ہے۔ اور خاص کر اپنی بے سروسامانی اور علم کی کمی کی بناء پر خطا و نسیان کا امکان زیادہ ہے۔
إِلٰهِي كَيْفَ لَا أَفْتَقِرُ إِلَيْكَ وَأَنْتَ الَّذِي فِي الْفَقْرِ اَقَمْتَنِي اے میرے اللہ ! میں تیرا محتاج کیسے نہ رہوں ۔ جب کہ تو نے ہی مجھ کو محتاجی میں قائم کیا ہے؟ اس لئے کہ میرا ہر سانس تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ لہذا میں اپنی پیدائش اور امداد میں ہر وقت تیر امحتاج ہوں ۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:
يَأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ
اے انسانو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو ۔
اور یہ پیدائش کی نعمت کی محتاجی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنْ يَّشَأْ يُذْهِبْکُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم سب کو ختم کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دے۔
اور یہ امداد کی نعمت کی محتاجی ہے۔
أَمْ كَيْفَ أَفْتَقِرُ إِلىٰ غَيْرِكَ وأَنْتَ الَّذِي بِجُودِكَ أَغْنَيْتَنِي ؟ یا میں تیرے غیر کامحتاج کیسے ہو جاؤں ۔ جب کہ تو نے ہی اپنے فضل و کرم سے مجھ کو بے نیاز کر دیا ہے ۔
اس طریقے پر کہ جن اشیاء نے مجھ کو فکر و غم میں مبتلا کیا ۔ ان میں تو میرے لئے کافی ہو گیا۔ اور تو نے میری روزی اور ان تمام اشیاء کی ضمانت لی، جن سے میرا وجود قائم ہے۔ اور تو نے مجھ کو اپنی معرفت سے غنی کر دیا۔ تا کہ میں تیرے غیر کا محتاج نہ ر ہوں ۔ حدیث شریف میں ہے۔
لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَإِنَّمَا الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ سامان کی زیادتی سے غنا نہیں ہوتی ہے بلکہ غنانفس کی غنا ہے ۔
یعنی روح کی غنا ہے۔ اور روح کی غناصرف اپنے رب کے ساتھ ہوتی ہے۔
أَنْتَ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُكَ تَعَرَّفْتَ لِكُلِّ شَيْءٍ توہی دو ذات پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو نے ہرشی کو اپنی پہچان کرائی۔ اس طریقے پر کہ تو نے ان کے سامنے اپنے جلال اور جمال کا نورظا ہر فر مایا۔ لہذا ہرشی تیری حمد کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہوگئی۔ اور تیرے سامنے سجدے میں گر گئی۔
فَمَا جَهَلَكَ شَيْءٌ لہذا کوئی شی تجھ سے ناواقف نہیں رہی
یعنی ہرشی تیری عارف ہے۔ اور تیری ربوبیت کا اقرار کر رہی ہے۔ خواہ ظاہری و باطنی طور پرخوشی ور ضامندی سے ہو۔ یا صرف باطنی طور پر رضا مندی سے ہو۔
وَأَنْتَ الَّذِي تَعَرَّفَ إِلَيَّ فِي كُلِّ شَيْءٍاور تو وہ ذات پاک ہے کہ تو نے ہرشی میں مجھ کو اپنی پہچان کرائی۔
یعنی آثار کے اختلافات اور حالات کی تبدیلیوں سے تو نے مجھ کو ہرشی میں اپنی پہچان کرائی۔
فَرَأَيْتُكَ ظَاهِرًا فِي كُلِّ شَيْءٍ میں نے تجھ کو ہرشی میں ظاہر دیکھا یعنی تیرے اس ازلی نور کے ساتھ دیکھا۔ جس نے ہوش کے وجود کو فنا کر دیا ہے۔
فَاَنْتَ الظَّاهِرُ لِكُلِّ شَيْءٍ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ لِكُلِّ شَيْءٍ پس توہی ہرشی کاظاہر ہے اور تو ہی ہرشی کا باطن
حدیث شریف میں ہے اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ َأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اے میرے اللہ ! تو ہی اول ہے۔ لہذا تجھ سے قبل کوئی بھی نہیں ہے۔ اور تو ہی آخر ہے۔ لہذا تیرے بعد کوئی شی نہیں ہے۔ اور تو ہی ظاہر ہے لہذا تیرے اوپر کوئی بھی نہیں ہے۔ اور توہی باطن ہے۔ لہذا تیرے سوا کوئی ہی نہیں ہے۔
اور ظہور کی قسمیں اس کتاب کی ابتداء میں مکمل طریقے پر ہو چکی ہیں۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہاں ان کو ایسی عبارت سے بیان فرمایا ہے کہ ایسی عبارت اس سے پہلے نہیں بیان ہوئی۔ چنانچہ فرمایا۔
يَا مَنِ اسْتَوَى بِرَحْمَانِيَّتِهِ عَلَى عَرْشِهِ فَصَارَ الْعَرْشُ غَيْباً فِى رَحْمَانِيَّتِهِ ، كَمَا صَارَتِ الْعَوَالِمُ غَيْبًا فِي عَرْشِهِ
اے وہ ذات پاک ! جواپنی رحمانیت کے ساتھ اپنے عرش پر قائم (غالب ) ہوئی پس عرش اس کی رحمانیت میں گم ہے۔ جیسا کہ کائنات اس کے عرش میں گم ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس عبارت میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر کی طرف اشارہ فرمایا ہے
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى رحمان عرش پر قائم ہوا
اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول
ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنِ پھر رحمان عرش پر قائم ہوا
میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ بیان فرمایا: اللہ تعالیٰ کا عرش پر قائم ہونا صرف اپنی رحمانیت کے ساتھ ہے
لہذا عرش اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سےڈھانپا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی رحمانیت میں گم ہے۔ کیو نکہ اس کی رحمانیت کے ساتھ عرش کی کوئی نسبت نہیں ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ایسا وصف ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور صفت موصوف کے ساتھ لازم ہوتی ہے۔
لہذا جب عرش غائب ہو گیا۔ اور اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی رحمانیت میں پوشیدہ ہو گیا تو کائنات بھی اس کی رحمانیت میں غائب ہو گئی ۔ کیونکہ وہ عرش کے وجود میں غائب ہے۔
پس جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی رحمانیت میں عرش کا وجود غائب ہو گیا تو کل کائنات کا وجود بھی غائب ہو گیا کیونکہ کل کائنات عرش کے پیٹ میں اس طرح ہے جیسے زمین میں ایک حلقہ ۔ اور عرش کا ئنات کو اسی طرح گھیرے ہوئے ہے جس طرح رحمانیت عرش کو گھیرے ہوئے ہے۔ لہذا رحمانیت کے ساتھ عرش کی کوئی نسبت نہیں ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
مَحَقْتَ الْآثَارِ بِالْآثَارِ تو نے آثار کو آثار سے باطل کر دیا
پہلا آثار کائنات ہے اور دوسرا آثار عرش ہے۔ پس کل کائنات عرش کی عظمت میں باطل ہو گئیں یہاں تک کہ وہ کالعدم ہو گئیں:
وَمَحَوْتَ الْأَغْیَارُ بِمُحِیْطَاتٍ أَفْلَاكِ الْأَنْوَارِ
اور تو نے اغیار کو انوار کے گھیر نے والے افلاک سے مٹا دیا۔
اغیار سے مراد عرش ہے۔ اور وہ کل کائنات ہے۔ جس کو عرش گھیرے ہوئے ہے۔ یا تم اس طرح کہو : عرش سے فرش تک ہر وہ شی جو عالم خلق میں داخل ہے۔ یاوہ اشیا ، جن کا وجود عرش سے علیحدہ فرض کیا گیا ہے وہ اغیار ہیں۔ اور انوار کے افلاک ذات اور صفات کے انوار ہیں ۔
لہذا جب ذات اقدس کی عظمت کے انوار سے اغیار یعنی آثار باطل یعنی فنا ہو گئے تو صرف انوار باقی رہ گئے ۔ اور وجود میں اللہ تعالیٰ واحد قہار منفرد ( تنہا) رہ گیا۔ پس صفات کے انوار ہی ذات کے انوار ہیں۔ اور ذات کے انوار ہی صفات کے انوار ہیں ۔و اللہ تعالیٰ اعلم ۔
يَا مَنْ اِحْتَجَبَ فِي سُرَادِقَاتِ عِزِٗهِ عَنْ أَنْ تُدْرِكَهُ الْأَبْصَارُ اے وہ ذات اقدس جو اپنی عزت کے پردوں میں آنکھوں کے دیکھنے سے پوشیدہ ہوگئی۔
سرادقات کے معنی چہار دیواری۔ اور یہاں حجابات قہریہ سے کنایہ ہے۔ اور وہ عزت کے وہ حجابات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنی شدت ظہور کے باوجود اپنے بندوں سے پوشیدہ ہو گیا ہے۔ اور عزت کے حجابات حس اور وہم اور غفلت کے دائرے اور وہ پردے ہیں جو قلوب پر پڑجاتے ہیں۔ اور وہ پانچ امور میں منحصر ہیں ۔
پہلا امر دنیا کی محبت ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قہر سے انسان کے قلوب میں بو دیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمتیں اس کی طرف پھر گئیں ۔ اور عقلیں اس میں کھو گئیں۔ اور قلوب اس کی خیالی صورتوں سے تاریک ہو گئے۔ اور نظریں اس میں پھنس گئیں ۔ لہذا اب وہ دنیا کے علاوہ کسی دوسری شی کی طرف نہیں لوٹ سکتی ہیں اور اسی دنیا کی محبت کے سبب اکثر بندے اللہ تعالیٰ سے محجوب ہو گئے ہیں مگر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی محبت سے محفوظ رکھا۔
دوسرا امر اسباب کو اس کے مسببب کے ساتھ متعلق کرتا ہے اور عادتوں کو ان اشیاء سے متعلق کرتا ہے جن کے وہ عادی ہیں جیسے کہ روزہ کا معاملہ سبب کی حرکت پر اور اورد رختوں اور سبزیوں کا پیدا ہونا بارشوں پر اور ان کے علاوہ دوسرے اسباب کو متعلق کرنا ہے۔
پس جاہلوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ اسباب مسببوں سے جدا نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہ مسبب الاسباب سے محجوب ہو گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ حکیم علیم بغیر اسباب کے روزی دیتا ہے۔ اور بے حساب عطا فرماتا ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ محجوب ہوئے کیونکہ وہ اسباب کے ساتھ مشغول ہو گئے۔ اور رب الارباب کے شہود سے رک گئے ۔ مگر اہل عقل میں سے وہ لوگ جس کی بصیرت اسباب سے آگے بڑھ گئی۔
تیسراامر ظاہری شریعت کی ترغیب و ترہیب اور علم وعمل کے ساتھ ٹھہر جانا ہے۔ پس کچھ لوگ ایسے ہیں جو ترغیب کے ساتھ ٹھہر گئے ۔ لہذاوہ ثواب حاصل کرنے کے لئے عمل میں مشغول ہوئے ۔ اور وہ عابدین ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو ترہیب کے ساتھ ٹھہر گئے لہذا ان کے اوپر خوف غالب ہو گیا اور وہ زاہدین ہیں ۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو علم کی ترغیب کے ساتھ ٹھہر گئے ۔ لہذادہ مہارت اور حروف کے علم میں مشغول ہو گئے ۔ اور یقین اور خوف اور معرفت کے علم کو ترک کر دیا۔ اور وہ علمائے ظاہر ہیں ۔
پس وہ علم کے ساتھ معلوم سے محجوب ہو گئے ۔ اور معلوم ، اللہ حی وقیوم کی معرفت ہے۔
چوتھا امر : عبادت کی حلاوت اور مناجات کی لذت کے ساتھ ٹھہر جانا ہے اور وہ اس شخص کے لئے زہر قاتل ہیں جو ان کے ساتھ ٹھہر گیا اور وہ اہل مراقبہ ہیں۔ اور بہت سے عابدین وزاہدین اسی وجہ سے محجوب ہوئے ہیں اور کبھی ان سے ظاہری کرامات ظاہر ہوتے ہیں تو وہ ان کو اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ حجاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
پانچواں امر قدرت کا اثر ان تجلیوں پر ظاہر ہوا۔ اور اس کا عبودیت کے اوصاف سے موصوف ہوتا ہے۔ مثلا فقرا ءاور ذلت اور جہل ، اور مرض اور موت اور ان کے علاوہ دوسرے بشری اوصاف جو خصوصیت کا راز پوشیدہ کئے ہوئے ہیں۔ اور بعض فنافی الذات کی طرف نظر رکھنے والے اس کے ساتھ محجوب ہو گئے ۔ لہذا دہ و ہیں واپس ہو گئے ۔ جہاں سے وہ آئے تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے۔
وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اور وہ حکمت والا خبر رکھنے والا ہے
پس یہی عزت کے وہ حجابات ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ پوشید ہ ہو گیا ہے اور بے شک اس اللہ عزیز تک کوئی وہم اس کی تقدیر میں طمع کرکے ترقی نہیں کر سکتا ہے اور نہ کوئی سمجھ اس کی تصویر کا ارادہ کر کے اس کی صمدانیت تک بلند ہوسکتی ہے۔
اور بیان کیا گیا ہے۔ اللہ عزیز وہ ہے جس کی عظمت کے سمندر میں عقلیں گم ہو گئیں اور اور اسکی کی نعمت کے سمجھنے میں ذہن و دماغ حیران ہو گئے اور اس کے جلال اور جمال کے اوصاف پوری طرح بیان کرنے سے زبا نیں گونگی ہو گئیں۔
لَا أُحْصِىْ ثَنَاءً عَلَيْكَ ، أَنتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ میں تیری تعریف نہیں بیان کر سکتا ہوں ۔ تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔
يَا مَنْ تَجَلَّى بِكَمَالِ بَهَائِهِ اے وہ ذات اقدس جو اپنے حسن و جمال کے کمال کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ۔
فَتَحَقَّقَتْ عَظْمَتُہُ الْاَسْرَارَ پس اس کی عظمت اسرار میں مضبوطی سے قائم ہو گئی ۔
یعنی عارفین کے اسرار میں قائم ہوگئی۔ لہذا ان کا سرور اور ان کی خوشی قیامت تک ہمیشہ قائم رہے گی ۔ پھر ان کی بشاشت رب العالمین کی طرف ان کے دیکھنے سے متصل ہو جائے گی ۔
ایک عارف نے یہ حقیقت اشعار میں بیان فرمائی ہے
سُرُورِىْ بِكُمْ أَضْحٰى يَجِلُّ عَنِ الْوَصْفِ وَقُرْبِیَّ مِنْكُمُ بِالْمُوَدَّةِ وَالْعَطْفِ
تمہارے ساتھ میرا سرور، بیان سے باہر ہے۔ اور تم سے میرا قرب، دوستی اور مہربانی کے ساتھ ہے ۔
وَأَنتُمْ مَعِيَ حَيْثُ اسْتَقَلَّ بِيَ الْهَوَى فَلِیْ بِكُم ُشُغْلٌ عَنِ الدَّانِي وَالْإِلْفِ
اور تم میرے ساتھ اس حیثیت سے ہو، جس حیثیت سے میرے ساتھ محبت مضبوط و مستقل ہے۔ لہذا اقارب اور احباب سے منہ پھیر کر میری مشغولیت تمہارے ساتھ ہے۔
سُوَيْدَاءُ قَلْبِي أَصْبَحَتْ حَرَمًا لَكُمْ تَطُوفُ بِهَا الْأَسْرَارُ مِنْ عَالَمِ اللُّطْفِ
میرا قلب تمہارا حرم ہو گیا ہے۔ عالم لطف کے اسرار اس کا طواف کرتے ہیں۔
رَسَائِلُ مَا بَيْنَ الْمُحِبِّيْنَ أَصْبَحَتْ تَجِلُّ عَنِ التَّعْرِيفِ وَالرَّسْمِ وَالْعُرْفِ
دو دوستوں کے درمیان ایسے خطوط ہیں جو تعریف اور تحریر اور بیان سے باہر ہیں ۔
رَسَائِلُ جَاءَ تُنَا بِرَيَّا جَنَابِكُمْ عَوَارِفُ عَرُفٍ فَاقَ كُلَّ شَذَ اعُرْفٍ
وہ خطوط جو تمہاری بارگاہ کی سیرابی و تازگی کے ساتھ ہمارے پاس آئے ہیں وہ عرفان کی خوشبوئیں ہیں جو ہر تیز خوشبو پر فوقیت رکھتی ہیں۔
كَيْفَ تَخْفٰی۔ تو کیسے چھپ سکتا ہے۔ یعنی عارفین کی بصیرتوں سے تو کیسے چھپ سکتا،
وَاَنْتَ الظَّاهِرُ ۔ جبکہ تو ہی ظاہر ہے ۔ یعنی تو ہی تنہا ظاہر ہے۔ تیرے ساتھ کوئی ظاہر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۔ وہی اول اور آخر اور ظاہر اور باطن ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ ظاہر ہے لیکن مخلوقین کی آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتی ہیں ۔ اور حادث کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔ اور حق سبحانہ تعالیٰ کو حق سبحانہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔ لہذا حادث مخلوق فنا ہو جاتی ہے۔ اور صرف قدیم باقی رہ جاتا ہے تو قدیم قدیم کو دیکھتا ہے اور حق تعال تعالیٰ کو پہچانتا ہے۔ لہذا جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے وصف کو اپنے وصف سے نہ ڈھانپ لے اس وقت تک اس کے نور کے ظہور کی شدت کے باوجود تم اس کے شہود اور معرفت کی حرص نہ کرو ۔
أَمْ كَيْفَ تَغِيبُ وَأَنْتَ الرَّقِيبُ الْحَاضِرُ ۔ یا تو کیسے غائب ہو سکتا ہے جب کہ تونگہبان حاضر ہے یعنی ایسا حاضر ہے جس سے کوئی شی نہ پوشیدہ ہے نہ غائب ہے۔ اور وہ ہرشی کو محیط (گھرےہوئے)ہے۔
وَاللهُ الٌمُوَفِّقُ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔
یعنی صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دینے والا ، اورعین حقیقت تک پہنچانے والا اللہ تعالی ہی ہے
وَ بِهِ اسْتَعِیْنُ اور میں اس سے مدد مانگتا ہوں
کیونکہ بے شک وہ طاقتور مددگار ہے ۔
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِاللہ علی و عظیم کے سواکسی کے پاس نہ کچھ اختیار ہے نہ قوت
وَصَلَّى اللهُ عَلَى سَيّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدِ نِ الْمُصْطَفَى الكَرِيمِ، وَعَلَى ، وعلى آله وصحبه وسلم تسليما دائما إلى يوم الدين .
اور میں اس طرح کہتا ہوں جس طرح حضرت شیخ خلیل نے فرمایا
اور میں اہل علم و عقل کے سامنے اس خطا و نسیان کے لئے جو اس کتاب میں واقع ہوئی ہو معذرت پیش کرتا ہوں اور میں نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ ان سے یہ استدعا کرتا ہوں کہ وہ رضامندی اور درستی کی نظر سے دیکھیں۔ لہذا اگر ان کو اس کتاب میں کوئی نقص نظر آئے تو اس کو مکمل کریں۔ اور اگر کوئی غلطی پائیں تو اس کی اصلاح کریں کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) خطاؤں سے خالی اور لغزشوں سے پاک ہو۔
اور جیسا کہ ابن مالک نے تسہیل میں فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ ایسے حسد کرنے والے سے ہم کو محفوظ رکھے جو انصاف کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور بہترین اوصاف سے منہ پھیر لیتا ہے اور ہم کو ایسے شکر کی توفیق عطا فرمائے جو متواتر نعمتوں کا باعث ہو۔ اورسختیوں کے ختم ہونے کا سبب ہو۔
اور جیسا کہ حرز امانی میں فرمایا ہے۔
فَيَا عَاطِرَ الْأَنْفَاسِ أَحْسَنُ تَأَوَّلاًاے سانسوں کو معطر کرنے والے بہتر تاویل کر۔
اور میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچائے، جو اس کو تحریر کریں یا اس کا مطالعہ کریں یا اس میں سے کچھ حاصل کریں یا اس کو سنیں ۔ یا ان پر عمل کریں جو اس کتاب میں درج ہے ۔یا اس کو قبول کریں اور ان کے حاصل کرنے والے کو حضرت خیر الانام سیدنا ومولانا محمد شفیع و مقبول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحا به وعتر تہ واحزابه وسلم اہل محبت و وصول کے طفیل اس کے تمام امید و مقاصد تک کامیابی سے پہنچادے۔ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اور مرسلین پر سلام ہو۔ اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ جو کل عالموں کا رب ہے
۔
اور ہماری آخری دعا یہ ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ وإمَامِ الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ – اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِيِّ الْأُمِّي وَعَلَى اٰلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمُ