یہ چھبییسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چھبیسویں مناجات
اِلٰهِىْ تَقدَّسَ رِضَاكَ أَن تَكُونَ لَهُ عِلَّۃٌ مِّنْكَ فَكَيْفَ تَكُوْنُ لَهُ عِلَّةٌ مِّنِّىْ
اے میرے اللہ ! تیری رضا اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے تیری جانب سے کوئی سبب ہو۔ تو اس کے لئے میری جانب سے کوئی سبب کیسے ہوسکتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کی رضامندی نہ کسی سبب سے حاصل ہوتی ہے نہ کسی عمل اور طلب سے۔ بلکہ وہ صرف عطائے الہٰی اور خصوصی بخشش ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَٱللَّهُ يَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِهٖ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلۡفَضۡلِ ٱلۡعَظِيمِاللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل کا مالک ہے۔
لہذ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے اس کی طرف سے کوئی سبب ہو کیونکہ وہ قدیم ہے تو اس کی رضامندی کے لئے اس کے غیر کی طرف سے کوئی سبب کیسے ہو سکتا ہےجب کہ وہ غنی و کریم ہے۔
اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
أنتَ الْغَنِيُّ بِذَاتِكَ عَنْ أَنْ یَّصِلَ إِلَيْكَ النَّفْعُ مِنْكَ، فَكَيْفَ لَا تَكُونُ غَنِياً عَنِي؟ تو اپنی ذات میں اس سے بے نیاز ہے کہ تیری طرف سے کوئی نفع تجھ کو پہنچے۔ تو میری طرف سے تو کیوں بے نیاز نہ ہوگا ؟
لہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی ناراضی اس سے بے نیاز ہے کہ ان دونوں کے لئے کوئی سبب ہو۔ اسی طرح اس کی ذات اقدس اس کی طرف سے یا اس کے غیر کی طرف سےفوائد کے پہنچنے سے پاک ہے کیونکہ جس طرح اس کی ذات اقدس قدیم ہے۔ اسی طرح اس کے اوصاف اطہر از لی قدیم ہیں ۔
حضرت ابو بکر واسطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: رضا اور ناراضی اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے دو وصف ہیں۔ وہ ابد تک اس کے ساتھ جاری رہیں گے، جس کے ساتھ ازل میں جاری ہوئے۔ یہ دونوں وصف مقبولوں اور مردودوں پر علامت کی حیثیت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لہذا مقبولوں کے گواہان (علامات ) اپنے نور کے ساتھ ان کے اوپر ظاہر ہوئے۔ جس طرح مردو دوں کے گواہان اپنی ظلمت کے ساتھ ان کے اوپر ظاہر ہوئے لہذا اس سے زرد رنگیں ، اور چھوٹی آستینیں ، اور اٹھے ہوئے قد میں کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی عادت اور اس کی سنت اس طریقے پر جاری ہے کہ جس شخص پر عبادت اور نیکی ظاہر ہوئی تو یہ رضامندی اور خوشی کی علامت ہے۔ اور جس شخص پر مخالفت اور نافرمانی ظاہر ہوئی ، تو یہ نا راضی اور نقصان کی علامت ہے۔ اور اس کو لے کر شریعتیں نازل ہوئی ہیں اور آدمی اسی طریقے پر مرتا ہے جس طریقے پر اس نے زندگی گزاری ہے اور شاذ و نا در حالات کے لئے کوئی حکم نہیں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
حضرت نبی کریم ﷺکے اس قول کے بارے میں بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے:
إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَبْقَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّار
انسان اہل دوزخ کا عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر کتاب (ازلی مقدر ) سبقت کرتی ہے۔ (قضاء قدر کا لکھا ہوا اس کے سامنے آتا ہے ) پس وہ اہل جنت کا عمل کرتا ہے۔ لہذادہ جنت میں داخل جاتا ہے۔
اور انسان اہل جنت کا عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر کتاب سبقت کرتی ہے پس و ہ اہل دوزخ کاعمل کرتا ہے۔ لہذاوہ دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔
بے شک پہلی قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے زیادہ ہیں۔ اور دوسری قسم کے لوگ شاذ و نادر یعنی اتنے کم ہیں کہ ان کے لئے کوئی حکم نہیں ہے۔ یعنی وہ کسی شمار میں نہیں ہیں ۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب سے بڑھی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيل اللہ تعالیٰ حق فرماتا ہے۔ اور وہی راستے کی ہدایت کرتا ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اکابرین بزرگان دین ، سابقہ (نوشہ تقدیر ) اور خاتمہ (موت کا وقت ) سے ہمیشہ ڈرتے تھے۔ اس لئے کہ یہ نہیں معلوم ہے کہ قضا و قدر کا فیصلہ کیا ہے۔
چھبییسویں مناجات