یہ چوبیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چوبیسویں مناجات
إلٰهِي أَغْنِنِيْ بِتَدْبِيرِكَ عَنْ تَدْبِيرِى، وَ بِاِخْتِيَارِكَ عَنْ اخْتِيَارِي، وَ أَوْقِفُنِى عَلَى مَرَاكِز ِاضْطِرَارِى
اے میرے اللہ ! مجھ کو اپنی تدبیر کے ساتھ میری تدبیر سے ، اور اپنے اختیار کے ساتھ میرے اختیار سے بے نیاز کر دے۔ اور مجھ کو میری بے قراری کے مرکزوں پر قائم کر دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے ساتھ نفس کی تدبیر سے، اور اللہ تعالیٰ کے اختیار کے ساتھ بندے کے اختیار سے بے نیازی ، تمام امور کی تدبیر کرنے والے اور ان میں تصرف کرنے والے کے شہود میں نفس سے گم ہونے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ اللہ فاعل مختار، واحد قہار ہے۔ کیونکہ وہی تنہا تدبیر و اختیار ، اور مشیت و اقتدار کا مالک ہے۔ لیکن اس کے شہود میں نفس سے گم ہونے کے پہلے اپنی سیر کی معرفت کے حال میں یہ ناممکن ہے کہ بندہ تد بیر کی کدورت اور اختیار کی ظلمت سے نجات حاصل کرلے ۔
اس لئے حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ طلب کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو معرفت میں گم کر دے۔ تا کہ ان کی فکریں اور ارادے اور اختیارات صرف ایک فکر میں جمع ہو جا ئیں اور وہ ان کے محبوب حقیقی کا شہودہے۔
جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے:
كَانَتْ لِقَلْبِي أَهْوَاءٌ مُفَرَّقَةٌ فَاسْتَجْمَعَتْ مُذْرَاتْكَ الْعَيْنُ أَهْوَائِي
میرے قلب میں بہت سی متفرق خواہشیں تھیں لیکن جب میری آنکھ نے تجھ کو دیکھا تو سب خواہشیں صرف ایک خواہش میں جمع ہو گئیں
فَصَارَ يَحْسُدُنِي مَنْ كُنتُ أَحْسُدُهُ وَصِرْتُ مَوْلَى الْوَرَى مُذْصِرْتَ مَوْلَائِي
تو وہ لوگ مجھ سے حسد کرنے لگے جن سے میں حسد کرتا تھا۔ اور جب سے تو میرا مولا ہو گیا میں مخلوق کا مولا ہو گیا ہوں ۔
تَرَكْتُ لِلنَّاسِ دُنْيَاهُمْ وَ دِينَهُمْ شُغْلاً بِذِكْرِكَ يَا دِيْنِيْ وَدُنْيَائِي
اے میرے دین اور دنیا میں تیرے ذکر میں مشغول ہو کر لوگوں کے دین اور دنیا کو ان کے لئے چھوڑ دیا ہے ۔
پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول مجھ کو اپنی تدبیر کے ساتھ بے نیاز کر دئے یعنی اپنی تدبیر کے شہود کے ساتھ ، اور اس کی تدبیر کا شہود اس کی معرفت کے بعد ہی ہوتا ہے۔ نیز مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ سے بے قراری اور محتاجی کے مرکزوں پر قائم ہونے کی طلب کی ہے۔ اور بے قراری و محتاجی کا مرکز : ظاہر میں ہمیشہ عبودیت کے مقام میں سختی سے قائم ہوتا ہے۔
اس لئے کہ عارف کی بے قراری بھی زائل نہیں ہوتی ہے۔ اور اپنے باطن میں غیر اللہ کے ساتھ اس کو قرار نہیں ہوتا ہے۔ اور شے کا مرکز : اس کے قائم ہونے کی جگہ، جس میں وہ ٹھہرتی ہے۔ اور یہ لفظ یہاں عبودیت کے ثابت ہونے کے لئے استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ عبودیت کے مرتبے کو پہچانے ۔ اور اس کے طریقوں اور حدوں سے تجاوز نہ کرے۔ لہذا جو شخص تدبیر اور اختیار کی ظلمت سے رہائی پا گیا اور بے قراری محتاجی کے مرکزوں پر مضبوطی سے قائم ہو گیا وہ اپنے نفس کی ذلت سے نجات پا گیا۔ اور اپنے اندازہ اورعقلمندی کے شرک سے پاک ہو گیا۔