یہ بیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
بیسویں مناجات
اِلٰهِى أَمَرْتَ بِالرُّجُوعِ إِلَى الْآثَارِ فَارْجِعْنِي إِلَيْهَا بِكِسْوَةِ الْأَنْوَارِ وَهِدَايَةٍ الْاِسْتِبْصَارٍ، حَتَّى ارْجِعْ إِلَيْكَ مِنْهَا، كَمَا دَخَلْتُ عَلَيْكَ مِنْهَا مَصُوْنَ السِّرِّ عَنِ النَّظْرِ اِلَیْھَا مَرْفُوعَ الْهِمَّةِ عَنِ الْإِعْتِمَادِ عَلَيْهَا، أَنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے میرے اللہ ! تو نے مجھ کو آثار ( مخلوقات ) کی طرف واپس ہونے کا حکم دیا ہے۔ لہذا تو مجھ کو ان کی طرف انوار کے لباس ، اور بصیرت کی ہدایت کے ساتھ واپس کر ۔ تا کہ میں ان سے تیری طرف رجوع کروں ۔ جیسا کہ میں پہلے ان سے جدا ہو کر اس حال میں تیری بارگاہ قدس میں داخل ہوا۔ کہ میرا سر مخلوقات کی طرف نظر کرنے سے محفوظ ، اور میری ہمت ان کے اوپر اعتماد کرنے بلند تھی۔ بے شک تو ہی ہرشے پر قادر ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: مخلوقات کی طرف لوٹنا: بارگاہ قدس سے حقوق کے آسمان اور فوائد کی زمین کی نزول ہے۔ اور بارگاہ قدس:۔ ماسوی اللہ سے بالکل غائب ہو کر وحدت کے سمندر میں ڈوب جانا ہے
پس وہ حقوق کے آسمان کی طرف ربوبیت کے ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے ، اور عبودیت کےحقو ق کے ساتھ قائم رہتے ہوئے نزول کرتے ہیں۔ اور فوائد کی زمین کی طرف حکمت کے ادب کا خیال رکھتے ہوئے ، اور عبودیت کے وظائف کو ظاہر کرتے ہوئے نزول کرتے ہیں۔ اور حقوق کے آسمان کی طرف نزول کی مثال وہ بدنی یا مالی عبادتیں ہیں۔ جن کو بندہ اپنے اوپر کرتا ہے۔ خواہ وہ مقررہ وقت کی پابندی کے ساتھ ہوں ، یا وقت کی پابندی سے آزاد ہوں ۔ اورفوائد کی زمین کی طرف نزول کی مثال کھانا اور پینا اور لباس اور نکاح وغیرہ ضروری حاجتیں ہیں۔جن کی بشریت محتاج ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ ربوبیت کا راز عبودیت کے راز سے علیحدہ رہے۔ یا عبودیت کی محتاجی کے ساتھ ربوبیت کی بے نیاز ی ظاہر ہو ۔
پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے یہ طلب کی ہے۔ کہ اس کے بعد کہ وہ حقوق وفوائد یعنی مخلوقات سے اپنی ہمت اٹھا کر کوچ کر گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو پھر مخلوقات کی طرف شہود کے انوار کا لباس پہنا کر واپس کرے۔ تاکہ مخلوق کی طرف ان کی واپسی اس حال میں ہو کہ وہ اپنے فائدے اور اپنی خواہش سے غائب رہ کر صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں۔ حالانکہ وہ مخلوقات سے کوچ کرنے سے پہلے ان سے فوائد حاصل کرتے ہوئے اپنے نفس کے ساتھ انہیں سے تعلق رکھتے تھے ۔ لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا تو وہ اپنے نفس سے غائب ہو گئے لہذا جب پھر وہ اپنی بشریت کے وظائف کی طرف واپس ہوں۔ تو وہ اس کی طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس حال میں واپس ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے ماسوی کی طرف توجہ سے ہٹا کرشہود کے انوار کا لباس پہنا دے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ طلب کی ہے، کہ مخلوق کی طرف ان کی واپسی اس ہال میں ہو کہ وہ بصیرت کی ہدایت کا لباس پہنے ہوں ۔ اور بصیرت کی ہدایت ان اشیاء میں معرفت ثابت ہوئی ہے جن سے وہ تعلق رکھتا ہے۔ خواہ وہ عبادات ہوں یا عادات ، اس طریقہ پر کہ ان کو ان میں نہ طبیعت چرا سکے نہ حس، بلکہ وہ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہتے ہوئے داخل ہوں ۔ اور اسی طرح ان سے نکلیں۔
اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے: تا کہ میں ان سے تیری طرف رجوع کروں۔ یہاں تک کہ یہ اشیاء ایسی ہو جائیں کہ وہ مجھ کو اس وقت تیری طرف لوٹا دیں جب میں ان میں تیری معرفت حاصل کروں۔ اور ان میں تیری عظمت اور تیرے جبروت کے نور کا مشاہدہ کروں ۔ کیونکہ کل وجود تیرے جبروت کے سمندر ہی سے مدد حاصل کرتے ہیں ۔ لہذا عارف ہرشے سے پیتا ہے۔ اور ہرشے سے غذا حاصل کرتا ہے۔ اور ہرشے سے اپنا حصہ لیتا ہے۔ اور اس کے نور سے کچھ کم نہیں ہوتا ہے۔ لہذا حاصل یہ ہوا انوار کا لباس: عبادتوں اور عادتوں میں اس کا داخل ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ نہیں ہے۔
اور بصیرت کی ہدایت:۔ ان مخلوقات میں جن کی طرف اس نے نزول کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی ہے۔
اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول جیسا کہ میں ان کے پاس سے تیری بارگا و قدس میں داخل ہوا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ پہلے مخلوقات کے ساتھ تھے ۔ اور وہ ان کو خالق کے شہود سے روکتی تھیں ۔ پھر جب انہوں نے ان میں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ۔ تو وہ ان سے علیحدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس میں داخل ہو گئے ۔
اور یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
الْخَلْقُ نَوَّارٌ وَآنَا رَعَيْتُ فِيهِمْ هُمُ الْحُجُبُ الْأَكْبَرُ وَالْمَدْخَلُ فِيهِمْ
مخلوق قابل نفرت ہے۔ حالانکہ میں نے انہیں میں زندگی گزاری ہے۔ وہ بڑے حجابات ہیں۔ حالانکہ انہیں میں رہنے کی جگہ ہے ۔
اور جب بندہ اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اور ان میں قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے انوار کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کا سراشیاء کی طرف نظر کرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اس بناء پر کہ وہ مخلوق ہیں۔ اور اس کی ہمت ان کے اوپر اعتماد کرنے سے اٹھ جاتی ہے۔ خواہ وہ عبادات ہوں یا اسباب یا عادات۔ کیونکہ عارف بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سواکسی شے کامحتاج نہیں ہوتا ہے۔ اور اپنے مولائے حقیقی کے سوا کسی شے پر اعتماد نہیں کرتا ہے۔ پس بے شک وہ غنی (بے نیاز ) اور حمید(صاحب حمد ) سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اور ہرشے پر قادر ہے۔ پھر جب بندہ مخلوقات کی طرف واپس ہوتا ہے۔ تو یہ ضروری ہے کہ اس کے ظاہر پر عاجزی اور محتاجی کا اثر ، عبودیت کے وظائف کے ساتھ ثابت ہونے اور ربوبیت کے آداب کے ساتھ قائم ہونے کی وجہ سے ظاہر ہو۔