یہ انیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
انیسویں مناجات
اِلٰهِىْ عَمِيَتُ عَيْنٌ لَا تَرَاكَ عَلَيْهَا رَقِيْباً، وَ خَسِرَتْ صَفْقَةٌ عَبْدٍ لَّمْ تَجْعَلْ مِنْ حُبِّؔکَ نَصِیْبًا
اسے میرے اللہ ! وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھ کو اپنا نگران و محافظ نہیں دیکھتی ہے ۔ اور اس بندے کا معاملہ نقصان میں ہے جس کے لئے تو نے اپنی محبت میں سے حصہ نہیں مقرر کیا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ظاہر ہے کہ یہ اس بات کی خبر دیتی ہے کہ وہ ہر آنکھ جواللہ تعالیٰ کے مراقبے سے خالی ہے، وہ اندھی ہے۔ اور ہر وہ معاملہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے خالی ہے ، وہ نقصان میں ہے۔ اور اندھا پن اس کے حق میں باطنی ہے۔ پس گویا کہ وہ اس حیثیت سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا مراقبہ نہیں کیا اور اس سے شرم نہیں کیا، اندھی ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً بے شک اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر نگران ومحافظ ہے۔
اوردوسری جگہ فرمایا ہے:۔ وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوداً اور تم کسی حال میں ہوتے ہو ۔ یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو۔ یا کوئی عمل کرتے ہو۔ تو ہم تمہارے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔
لہذا جس نے ایسا اعتقاد نہیں رکھا، وہ کافر ہے۔ اور جس نے ایسا اعتقاد رکھا لیکن اللہ تعالیٰ سے شرم نہیں کیا ، وہ جاہل اور بصیرت کا اندھا ہے۔ بزرگوں نے بیان فرمایا ہے: حیا کا اکثر حصہ آنکھ سے تعلق رکھتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اندھا کم حیادار ہوتا ہے۔ لہذا یہ عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کا مراقبہ نہیں کیا۔ اور اس سے شرم نہیں کیا۔ وہ آنکھ نہیں ہے بلکہ وہ اندھا پن ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے، کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے آنکھ سے بصیرت کی آنکھ مراد لی ہو۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے: جب تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرو تو ایسی جگہ کرو جہاں وہ تم کو نہ دیکھے۔ لہذا جس شخص نے نافرمانیاں کرنے میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے سے شرم نہیں کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے تو بے شک اس کی بصیرت کی آنکھ اندھی ہوگئی۔ ایک عارف سے دریافت کیا گیا: بندہ اپنی آنکھ کی حفاظت کے لئے کس شے سے مدد طلب کرے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اپنی آنکھ کی حفاظت کے لئے اپنے اس علم سے مددطلب کرے کہ اللہ تعالیٰ کا دیکھنا اس کی آنکھ سے آگے بڑھی ہوئی ہے
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم ﷺ سے روایت فرمائی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ أَفْضَلُ إِيمَانِ الْمَرْءِ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ
آدمی کا افضل ترین ایمان یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہو۔
صفقہ : ان سب اشیاء کو کہتے ہیں جن کو خریدا جاتا ہے۔ یعنی خریداری کا معاملہ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس لفظ کے ساتھ بندے کے حصے اور اس کی ازلی قسمت سے کنا یہ کیا ہے۔ لہذا وہ شخص جس کا حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی اور دوری ہو ۔ تو اس کا معاملہ نقصان میں ہے۔ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی عافیت چاہتے ہیں ۔ بعض سادات رو ر ہے تھے۔ ان سے دریافت کیا گیا: آپ کا رونا کس وجہ سے ہے؟
انہوں نے جواب دیا: میرا رونا میری نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ کیونکہ یہ میرے نفس کی صفت ہے۔ بلکہ میرا رونا اس وجہ سے ہے کہ ازل میں جو حصے تقسیم کئے گئے ، اور جو فوائد جاری کئے گئے ، ان میں سے میرے حصے میں دوری آئی۔ بعض آسمانی کتابوں میں جو بعض انبیاء علیہم السلام پر نازل کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اے میرے بندے ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں لہذا
میرا جوحق تیرے اوپر ہے۔ اس حق کے واسطے تو مجھ سے محبت کرنے والا ہو جا۔
تو اپنے بندے سے اللہ تعالیٰ کی محبت :۔ بندے کو قریب کرنا ، اور اس کو اپنی بارگاہ کے لئے منتخب کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بندے کی محبت : ۔ اس کے حکم کی تعمیل ، اور اس کی منع سے پر ہیز کے ساتھ اس کی اطاعت، اور اس کے غلبے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے۔ اور یہ محبت کی ابتداء ہے۔ اوریہ کیسی ہے۔ اور محبت کی انتہا – حجاب دور ہونا ، اور دروازہ کھلنا، اور احباب کے ساتھ داخل ہونا ہے۔ اور یہ وہی ہے ۔ اور یہ کسی محبت کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف حضرت رابعہ عدویہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ان اشعار میں اشارہ فرمایا ہے:
اُحِبُّكَ حُبَينِ حُبُّ الْهَوَى وَحُبًا لأنَّكَ أَهْلٌ لِذَاكَ
میں تجھ سے دو قسم کی محبت کرتی ہوں۔ ایک محبت خواہش یعنی مائل ہونے کی محبت ہے ۔ اور دوسری محبت اس لئے کہ تو محبت کے لائق ہے ۔
فَأَمَّا الَّذِي هُوَ حُبُّ الْهَوَى فَشُغْلِى بِذِكْرِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ
پس وہ محبت جو خواہش اور مائل ہونے کی محبت ہے ، وہ تیرے ماسوا کو چھوڑ کر تیرے ذکر میں میرا مشغول ہوتا ہے ۔
وَأَمَّا الَّذِي أَنتَ أَهْلٌ لَهُ فَكَشْفُكَ لیِ ْالْحُجْبَ حَتَّى أَرَاكَ
لیکن وہ محبت جس کا تو اہل ہے۔ تو وہ تیرا حجابات کا اٹھا دینا ہے۔ تا کہ میں تجھ کو دیکھوں۔
فَلَا الْحَمْدُ فِي ذَا وَلَا ذَاكَ لِي وَلٰكِنْ لَكَ الْحَمْدُ فِي ذَا وَذَاكَ
پس دونوں محبتوں میں میرے لئے کوئی تعریف نہیں ہے۔ بلکہ دونوں میں تیرے ہی لئے سب تعریفیں ہیں ۔
حضرت رابعہ عددیہ رضی اللہ عنہا نے ان اشعار میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بندے کی محبت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم احسان کے شہود سے پیدا ہوتی ہے دوسری قسم : جمال کے شہود سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلی قسم کی محبت، جو احسان کے شہود سے پیدا ہوتی ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بندہ جب اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے ظاہری اور باطنی احسانات و انعامات کی طرف نظر کرتا ہے ۔ تو وہ اس سے لامحالہ محبت کرتا ہے۔ اس لئے کہ قلوب فطری (پیدائشی طور پر اس سے محبت کرتے ہیں جو ان کے اوپر احسان کرتا ہے۔ اور اسی محبت کا نام خواہش اور میلان کی محبت ہے ۔ اور یہ ہی ہے۔ کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کے احسانات سے ڈھانپا ہوا ہے۔ اور وہ ان میں غور و فکر سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔ اور چونکہ وہ ہمیشہ ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت اور ایک احسان کے بعد دوسرا احسان دیکھتا رہتا ہے۔ اور ہر نعمت اپنے سے پہلے کی نعمت سے زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ لہذا اپنے مولائے حقیقی سے اس کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ اور اس سے وہ اپنے ارادہ اور تمنا تک پہنچ جاتا ہے۔
اور محبت کی دوسری قسم، جو جمال کے شہود سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب بندے کے قلب سے حجاب اٹھ جاتا ہے اور اس سے مانعات اور قاطعات دور ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے جمال اور اس کے کمال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور بارگاہ قدس کے انوار اس کے قلب پر روشن ہوتے ہیں۔ اور چونکہ جمال فطری طور پر محبوب ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے درمیان اور اس کے مولائے حقیقی کے درمیان محبت منعقد ہو جاتی ہے۔ اور حضرت رابعہ نے دوسری محبت کو جو جمال کے شہود سے پیدا ہوتی ہے، اہلیت کے ساتھ
مخصوص کیا ہے۔ پہلی محبت کو نہیں کیا ہے۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی محبت کا اہل ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ دوسری قسم کی محبت اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ بندے کے کسب کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اور پہلی قسم کی محبت اس کے لئے سبب ہے اور بندے کا عمل معلول ہے۔
اور حضرت رابعہ کا یہ قول :- تیرے ماسوی کو چھوڑ کر تیرے ذکر میں میرا مشغول ہونا ہے ۔ سبب سے مسبب کی تعبیر ہے۔ یعنی اس محبت کا نتیجہ ۔ تیرے ماسوا کو چھوڑ کر میرا تیرے ذکر میں مشغول ہونا ہے۔
اور حضرت رابعہ کا یہ قول تیرا حجابات کو اٹھا دینا ہے۔ تا کہ میں تجھ کو دیکھو ں
مسبب سے سبب کی تعبیر ہے۔ اور یہ پہلی محبت کے برعکس ہے۔ اور اس محبت کا سبب اور اس کے پیدا ہونے کی وجہ حجاب کا اٹھنا ہے تاکہ میں تجھ کو اپنے قلب کی آنکھ سے دیکھوں ۔ اور حضرت رابعہ کا یہ قول: دونوں محبتوں میں میرے لئے کوئی تعریف نہیں ہے۔ بلکہ دونوں میں سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ دونوں قسم کی محبتیں در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہیں ۔ ان میں بندے کے کسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور احسان کے شہود سے پیدا ہونے والی محبت کی تاثیر ، اور جمال کے شہود سے پیدا ہونے والی محبت کی تاثیر کے درمیان فرق محسوس کرنا، نیز یہ معلوم کرنا کہ دوسری محبت کا اثر پہلی محبت سے زیادہ قوی ہے۔ بلکہ دونوں کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہے۔ ان دونوں محبتوں کا ذائقہ چکھنے والے کے لئے لازمی وضروری ہے۔ یہ حضرت فاس رحمتہ اللہ علیہ نے شرح رائیہ میں بیان فرمایا ہے۔
لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کا یہ قول تو نے اپنی محبت سے اس کے لئے حصہ نہیں عطا کیا۔
اس میں یہ احتمال ہے کہ مصدر کی اضافت فاعل اور مفعول کی طرف ہو ۔ اور فاعل کی طرف اضافت زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت زیادہ بڑی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بندے کی محبت کی اصل یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتےہیں ۔ لہذا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مذکورہ محبت سے حصہ عطا فر مایا۔ اس نے دنیا و آخرت کےفوائد حاصل کر لئے ۔ اور وہ آنکھ کی ٹھنڈک حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس محبت سے محروم کر دیا۔ اس کا معاملہ خسارے میں پڑ گیا۔ اور اس کا نقصان اور اس کی ناکامی ظاہر ہو گئی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے احسان اور رحمت کی التجا کرتے ہیں۔
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی محبت کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ بندے سے فرماتا ہے تو جو چاہے کر۔ میں نے تجھ کو بخش دیا۔ اور چونکہ محبت کی انتہا محبوب میں فنا ہو جانا ہے۔ اور فنا کی انتہا، بقا ہے۔
اور بقاء مخلوق کی طرف واپس ہوتا ہے۔