جہالت و نادانی(مناجات 08)

یہ آٹھویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

آٹھویں مناجات

 اِلٰهِىْ مَا اَلْطَفُكَ بِي مَعَ عَظِيمٍ جَهْلِي ، وَمَا اَرْحَمُكَ بِي مَعَ قَبِيْحِ فِعْلِیْ
اے میرے اللہ ! میری بڑی جہالت اور نادانی کے باوجود میرے ساتھ تیرا لطف و کرم کتنا زیادہ ہے۔ اور میرے برے فعل کے باوجود میرے ساتھ تیرارحم کتنازیادہ ہے ۔
جب اللہ تعالیٰ تمہارا وکیل اور مددگار ہے اور تمہارے اوپر مہربان ہے تو وہ تمہارے اوپر اس طرح لطف و کرم کرتا ہے کہ تم کو خبر نہیں ہوتی ہے۔
اور لطف ۔ نقصانات کی حالتوں میں خوشیاں ، اور مصیبتوں کی صورتوں میں فوائد حاصل کرنا ہے۔
حاصل یہ ہے:۔ لطف : لطیف طریقے پر بھلائی حاصل کرنا ہے اور اس کو اہل بصیرت کے سوادوسرے لوگ نہیں سمجھتے ہیں ۔
لہذ الطف جمیل :۔ وہ ہے، جس کا باطن نعمت ہوتی ہے۔ اور اس کا ظاہر عذاب ہوتا ہے ۔ اس کا باطن جمال اور اس کا ظاہر جلال ہوتا ہے۔ لہذا عارف باللہ ہر حال میں اپنی ذات کو لطف میں ڈوبا ہوادیکھتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے اس کے لطف کے جدا ہونے کا گمان کرتا ہے۔ تو یہ اس کی نظر اور فکر کا قصور ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے جاہل، لطف کو اسی وقت سمجھتا ہے جب کہ وہ محسوس ظاہر اور کھلا ہوا ہو۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس مناجات میں تواضع اور تنزل کے طریقے پر فرمایا: اے میرے اللہ ! میری بڑی جہالت اور نادانی کے باوجود تیرا لطف و کرم میرے ساتھ کتنا زیادہ ہے؟ اس طرح کہ میں تیرے پوشیدہ لطف سے جہالت کرتا ہوں۔ اور تیرے ظاہری لطف کو طلب کرتا ہوں ۔
عافیت کی عجیب و غریب تشریح
اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری جہالت کے مطابق ہمارے ساتھ معاملہ کرتا ۔ تو اپنا پوشید ہ لطف ہم سے چھین لیتا اور ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دیتا۔ لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ علیم ہے۔ اس لئے اس نے ہمارے ساتھ ہماری جہالت کے مطابق معاملہ نہیں کیا۔ بلکہ اس نے ہماری بڑی جہالت کے باوجود ہمارے او پر اپنا لطف جاری رکھا۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی بڑی جہالت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے لطف کی کثرت پر تعجب کیا۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول ویسا ہی ہے جیسا کہ حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو تو تم اس کو اس حیثیت سے طلب کرو کہ تم جانتے ہو کہ وہ تمہارے لئے عافیت ہے۔
نیز انہوں نے اپنی بیماری کے حال میں فرمایا۔ جب کہ ایک شخص نے ان سے کہا۔ آپ اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کیجئے۔ تو انہوں نے اس سے فرمایا۔ میں جس حال میں ہوں، یہی میرے لئے عافیت ہے۔ اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کی تھی تو ان کی وفات زہر سے ہوئی۔ اور سید نا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کی تو وہ تلوار سے زخمی ہو کر شہید ہوئے اور سید نا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عافیت طلب کی تو وہ ذبح ہو کر شہید ہوئے ۔ اور سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ نے عافیت طلب کی تو وہ قتل ہو کر شہید ہوئے۔ لہذا عافیت اور لطف : رضا و تسلیم ہے۔ اور قضا و قدر کا حکم جاری ہونے کے وقت سکون قلب ہے۔ اور رحمت :۔ لطف و محبت اور قریب کرتا ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے بندے کو اس کے اوپر مخلوق کی ایذا رسانی اور محتا جی ا ور بیماریاں اور ان کے علاوہ وہ چیزیں جو نفس کو تکلیف دیتی ہیں ، مسلط کر کے اپنی طرف قریب کرے۔ اور اپنے اور اس کے درمیان دوری کے فاصلہ کو لپیٹ دے۔ لیکن بندہ اپنی جہالت اور بد افعالی کی وجہ سے ان سے بھاگتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ اس کو ان مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔
بعض اخبار میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندے! جن چیزوں کے ذریعے میں نے تیرے اوپر رحم کیا ہے۔ انہی چیزوں کو دور کر کے میں تیرے اوپر کیسے رحم کروں۔ یا اللہ تعالیٰ نے جیسا فرمایا ہو۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے۔ اے میرے اللہ ! میرے برے فعل کے باوجود میرے اوپر تیرارحم کتنا زیادہ ہے ۔ اور یہ جہالت۔ میرا ان چیزوں سے بھاگنا ہے، جن کے ذریعے تو نے مجھ پررحم فرمایا ہے۔
اور یہ بھی احتمال ہے کہ برے فعل سے گنا ہوں اور نافرمانیوں کو مراد لیا ہو۔ کیونکہ وہ ناراض اور دوری کا سبب ہیں۔ لہذا اگر اللہ تعالیٰ ہمارے برے افعال کے مطابق ہمارے ساتھ معاملہ کرتا۔ تو وہ ہم کواپنے درد ناک عذاب کا مزہ چکھاتا۔ لیکن رحمان و رحیم کی رحمت اس کے درد ناک عذاب پر غالب آگئی۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت موسی علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی۔ اے موسی! آپ گنا ہگاروں سے مہربانی اور نرمی کے ساتھ خطاب کریں۔ اور ان کو میری طرف اچھی بات کے ساتھ بلائیں ۔ اور ان کو قائم رہنے والی نعمت یعنی جنت کی طرف رغبت دلائیں۔ اور ان کے او پر سختی نہ کریں۔ کیونکہ اگر میں ان کو جلد سزا دینا چاہتا تو میں ان کوپلک جھپکانے کی مہلت نہ دیتا۔ اور آپ ان کو یہ بتادیں کہ جو شخص میرے سامنے تو بہ کرے گا میں اس کی توبہ قبول کروں گا۔ اور جو شخص سستی کرے گا میں اس کو مہلت دوں گا ۔ اور جو شخص میری نافرمانی کرے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔ اے موسی! کون ہے، جس نے صدق دل سے میرا ارادہ کیا ہو، لیکن میں نے اس کو نا کام کردیا ہو۔ یا اس نے میری طرف پناہ لی ہو لیکن میں نے اس کو چھوڑ دیا ہو یا اس نے مجھ سے مانگا ہو۔ لیکن میں نے اس کو محروم کر دیا ہو۔ یا اس نے میری طرف رجوع کیا ہو، لیکن میں نے اس کو بھگا دیا ہو، یا اس نے میرے سامنے تو بہ کی ہو، لیکن میں نے اس کی توبہ نہ قبول کی ہو ۔ یا اس نے میرے سامنے عاجزی کی ہو لیکن میں نے اس پر رحم نہ کیا ہو؟ جب اللہ تعالیٰ نےیہ آ یہ کریمہ نازل فرمائی وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ جو مصیبت تم لوگوں کو پہنچتی ہے۔ وہ تمہارے ہی برے اعمال کے صلہ میں پہنچتی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہاری بہت سی بداعمالیوں کو معاف فرمادیتا ہے ۔
سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے: اس آیہ کریمہ کے نازل ہونے پر حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
يَا عَلِيٌّ مَنْ أَخَذَهُ اللَّهُ بِذَنْبِهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ اَكْرَمُ مِنْ أَنْ یُعَذِّبَهُ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ عَفَا عَنْهُ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ أَعَزُّ مِنْ أَنْ یُعَاقِبَهُ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَهُ فِي الدُّنْيَا فَهُوَأَجَلٌ مِنْ أَنْ يَفْضَحُهُ فِي الْآخِرَةِ
اے علی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کے سبب دنیا میں پکڑ لیا تو وہ اس کے لئے اس سے زیادہ کریم ہے ، کہ وہ اس کو اس گناہ پر آخرت میں عذاب دے ۔ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں معاف کر دیا۔ تو وہ اس سے اعلیٰ ہے، کہ وہ اس کو آخرت میں سزادے۔ اور جس شخص کی دنیا میں پردہ پوشی فرمائی ۔ تو وہ اس سے بلند ہے، کہ وہ اس کو آخرت میں رسوا کرے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے: یہ قول میرے نزدیک دنیاد ما فیہا سے افضل ہے۔ ایک عارف کے اشعار ہیں :
سُبْحَانَ مَنْ أَبْدَعَ الْأَشْيَاءَ وَقَدَّرَهَا وَمَنْ يَجُودُعَلَى الْعَاصِي وَيَسْتُرُهُ
وہ اللہ تعالیٰ پاک ہے، جس نے اشیاء کو پیدا فرمایا۔ اور ان کے لئے اندازہ ( تقدیر ) مقرر کیا۔ اور جو گناہگار پربخشش کرتا ، اور اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے ۔
يُخْفِي الْقَبِيحَ وَ يُبْدِي كُلَّ صَالِحَةٍ وَيَغْمُرُ الْعَبْدَ إِحْسَانًا وَيَشْكُرُهُ
وہ برائی کو چھپاتا ہے۔ اور ہر بھلائی کو ظاہر کرتا ہے اور بندے کو احسان میں ڈھانپ لیتا ہے۔ اور اس کے شکر کو قبول فرماتا ہے ۔
اور چونکہ لطف درستی کا تقاضا کرتا ہے اور رحمت قریب کرنا چاہتی ہے لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ سے بندے کے زیادہ دور ہونے کے باوجود، بندے سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہونے پر تعجب کیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں