فضل واحسان اور حجت(مناجات 06)

یہ چھٹی دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

چھٹی مناجات

إِلٰهِيْ إِنْ أَظْهَرْتَ الْمَحَاسِنَ مِنِى فَبِفَضْلِكَ وَلَكَ الْمِنَّۃُ عَلَىَّ، وَإِنْ ظَهَرَتِ الْمَسَاوِى مِنِي فَبِعَدْ لِكَ وَلَكَ الْحُجَّةَ عَلَیَّ
اے میرے اللہ !اگر تو مجھ سے نیکیاں ظاہر فرمائے تو یہ میرے اوپر تیر افضل اور احسان ہےاور اگر مجھ سے برائیاں ظاہر ہوں تو یہ تیرا انصاف اور میرے اوپر تیری حجت ہے ۔
انسان سے اس کے اقوال و افعال و اخلاق میں نیکیوں کا ظاہر ہونا ، یہ اللہ تعالیٰ کے بڑے احسانات اور بھاری ہدیوں میں سے ہے، کیونکہ یہ قبولیت کا پیش خیمہ ہے اور مقصود اور امید کی انتہا ہے۔
اور بندے سے اس کے اقوال و افعال میں برائیوں کا ظاہر ہونا ، یہ اللہ تعالیٰ کا انصاف اور قہرہے اور اس کے اوپر حجت ظاہر کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحَجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْشَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ آپ کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ ہی کیلئے محبت کا ملہ ہے، پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت عطا فرماتا
پس اللہ تعالیٰ پر بندے کا کچھ اختیار نہیں ہے اور نہ اس کو کسی نفع اور نقصان پہنچانے کی قدرت ہے۔ بندہ اگر اس کو اس کا آقائے حقیقی اپنی رضامندی کے کاموں کی طرف پھیر دے تو یہ اس کے اسم پاک کریم کے ظاہر ہونے کی بناپر ہے اور اگر اس کو وہ اپنی ناراضگی کے کاموں میں مصروف کر دے تو یہ اس کے حکیم کے تصرف یا اس کے اسمائے حسنے قہار،یامنتقم یا جبار کے اظہار کے باعث ہے۔ کیونکہ پیشانیاں اس کے ہاتھ میں اور قلوب اس کے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ ابوالحسن پر رحمت نازل فرمائے ، انہوں نے اپنی بعض دعاؤں میں فرمایا ہے :۔ اے میرے اللہ ! میری نیکیاں تیری عطا ( بخشش ) ہیں اور میری برائیاں تیری قضا ہیں لہذا اے میرے اللہ تو اپنی عطا کردہ نیکیوں کے ساتھ اپنی قضا کردہ (مقدر کی ہوئی ) برائیوں پر اس طرح فضل و کرم فرما کہ نیکیوں سے برائیوں کو مٹادے۔ اس شخص کے لئے جس نے تیری اطاعت کی ( اس شے میں جس میں اس نے تیری اطاعت کی) کوئی شکر نہیں ہے۔ اور اس شخص کے لئے جس نے تیری نافرمانی کی، اس شے میں جس میں اس نے تیری نافرمانی کی کوئی عذر نہیں ہے اس لئے کہ تو نے فرمایا ہے۔ اور تیرا فرمان سچا ہے۔ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
اللہ تعالیٰ سے اس کے متعلق جو وہ کرتا ہے سوال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور ان لوگوں سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اے میرے اللہ اگر تیری عطا نہ ہوتی تو میں ہلاک ہونے والوں میں سے ہوتا ۔ اور اگر تیری قضا نہ ہوتی تو میں کامیاب ہونے والوں میں سے ہوتا۔ اے میرے اللہ! تو اس سے اعلیٰ واعظم اور بزرگ و برتر ہے کہ تیری اطاعت ، تیری رضا مندی کے بغیر کی جائے ۔ یا تیری نافرمانی تیری قضا کے بغیر کی جائے۔ اے میرے اللہ ! میں نے تیری اطاعت نہیں کی جب تک تو راضی نہیں ہوا اور میں نے تیری نافرمانی نہیں کی جب تک تو نے فیصلہ نہیں کیا۔ میں نے تیری اطاعت تیرے ارادے سے کی۔ اور یہ میرے اوپر تیرا احسان و کرم ہے۔ اور میں نے تیری نافرمانی تیری قدرت سے کی ۔ اور یہ میرے اوپر تیری حجت ہے۔لہذا تیری حجت کے قائم ہونے ، اور میری حجت کے منقطع ہونے کے طفیل تو میرے اوپر رحم فرما۔ اور تیرے سامنے میری محتاجی ، اور مجھ سے تیری غنا کے وسیلہ سے سوال ہے کہ تو میرے لئے کافی ہو جا۔
اے میرے اللہ! میں نے تیرے سامنے اپنی جرأت اور گستاخی کی وجہ سے ، یا تیرے حق کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے گناہ نہیں کیا بلکہ اس کے لئے تیرا قلم چل چکا ، اور تیرا حکم نافذ ہو چکا ہے اور تیرے سوا کسی کو نہ کچھ اختیار ہے۔ نہ طاقت اور عذر بھی تیرے ہی سامنے ہے۔ کیونکہ تو ارحم الراحمین ہے۔ اے میرے اللہ ! بے شک میرا کان اور میری آنکھ اور میری زبان اور میرا قلب اور میری عقل سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ان میں سے کسی ایک کا مجھ کو کچھ بھی مالک نہیں بنایا ہے۔ لہذا جب تو کسی شے کا فیصلہ فرمائے تو اس میں تو ہی میر اولی اور سر پرست بن جا۔ اور سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی فرما۔ اے سب سے بہتر مسئول کہ جس سے سوال کیا جائے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والے ۔ اے دنیا و آخرت کے رحمان ۔ تو ایسے بندے پر رحم فرما جو نہ دنیا کا مالک ہے نہ آخرت کا۔
حضرت شیخ ابوالحسن پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرمائے ۔ اور طریقہ شاذلیہ کی درستگی میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی یہی شان ہے اللہ تعالیٰ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کو مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔ اور اسی قسم کی مناجات بعض صالحین کرام سے صادر ہوتی ہے۔ روایت ہے:۔ ایک نوجوان عابد نے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہا۔ اے میرے اللہ ! اگرمیں نے تیری اطاعت کی ہے تو تیرے فضل و کرم سے کی ہے۔ اور سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ اور اگر میں نے تیری نافرمانی کی ہے۔ تو اپنی جہالت و نادانی سے کی ہے۔ اور یہ میرے اوپر تیری حجت ہے۔ لہذا تو اپنی حجت ثابت کرنے اور میری حجت منقطع ہونے کے سبب مجھ کو بخش دے۔ تو اس نے ہاتف غیب کو یہ کہتے ہوئے سنا تو دوزخ سے آزاد ہے۔
حضرت ذوالنوان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ میں نے ایک لونڈی کو اس حال میں دیکھا کہ بچے اس کو پتھر سے مار رہے تھے۔ میں نے ان بچوں کو روکا۔ تو اس لونڈی نے میری طرف دیکھا۔ اور کہا( گویا کہ وہ مجھ کوپہچانتی ہے ) اے ذوالنوان! صدق، کی علامت کیا ہے؟ میں نے جواب دیا دن میں روزہ رکھنا، اور رات میں قیام کرنا یعنی نمازیں پڑھنا۔ تو اس لونڈی نے کیا ۔ اس شخص کو نیند کیسے مزے دار معلوم ہو سکتی ہے۔ جس کو یہ معلوم ہے کہ اس کا محبوب نہیں سوتا ؟ پھر اس نے رو کر کہا: اے میرے اللہ ! اگر میں اپنے اوپر تیرے احسانات میں غور وفکر کروں تو میں اپنی فکر سے اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور اگر میں اپنے لئے تیری پردہ پوشی کو یاد کروں تو میں اس پر تیرا شکر نہیں ادا کر سکتی ہوں۔ لہذا تیرے عارفین کے قلوب پر سخت تعجب ہے۔ کہ ان کے قلوب تیرےمرتبے کے جلال اور تیرے وصف کی عظمت سے شق کیوں نہیں ہو جاتے ؟
اے میرے مولا! تو بڑی برکت والا ہے۔ تو نے اس شخص پر کتنا حلم کیا ، جس نے تیری نافرمانی کی۔ اور تو نے اس شخص پر کتنا فضل کیا ، جس کے لئے تو نے اپنے ماسوی کے ساتھ مشغولیت نہیں چھوڑی۔ پھر وہ لونڈی یہ اشعار پڑھنے گی:
يَا حَبِيبَ الْقُلُوبِ أَنتَ الْحَبِيبُ أَنتَ أُنْسِى وَ أَنتَ مِنِّي قَرِيبُ
اے قلوب کے حبیب تو میرا حبیب ہے۔ تو میرا مونس ہے۔ اور تو مجھ سے قریب ہے ۔
يَا طَبِيباً بِذِكْرِكَ يَتَدَاوَى كُلُّ ذِي سَقَمٍ فَنِعْمَ الطَّيْبُ
اے طبیب تیرے ذکر سے ہر مریض علاج حاصل کرتا ہے۔ لہذا تو بہترین طبیب ہے۔
طَلَعَتْ شَمْسُ مَنْ أحِبُّ بِلَيْلٍ وَاسْتَنَارَتْ فَمَا تَلَاهَا غُرُوبُ
میرے محبوب کا سورج رات میں طلوع ہوا اور ایسا روشن ہوا کہ پھر غروب نہیں ہوا
إِنَّ شَمْسَ النَّهَارِ تَغُرُبُ لَيْلاً وَشُمُوسُ الْقُلُوبِ لَيْسَتْ تَغِيبُ
دن کا سورج رات کو غروب ہو جا تا ہے لیکن قلوب کے سورج کبھی غائب نہیں ہوتے۔
فَإِذَا مَا الظَّلَامُ أَسْبَلَ سِتْرًا فَإِلَى رَبِّهَا تَحِنُّ الْقُلُوبُ
لہذا جب تاریکی اپنا پردہ لٹکا دیتی ہے (یعنی چھا جاتی ہے) تو قلوب اپنے رب کے مشتاق ہو جاتے ہیں۔
اور جب قلوب اپنے مولائے حقیقی کے مشتاق ہوتے ہیں۔ اور عشق ومحبت کے ساتھ اس کے ساتھ متعلق ہو جاتے ہیں۔ تو وہ ان کو اپنے غیر کے سپر د کیسے کر سکتا ہے ۔ جب کہ وہ ان کا متولی ہو چکا ہے ؟ اور وہ ان کی مدد کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ اس کے پاس پناہ لے چکے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں