قیمتی جوہر کے عنوان سے پچیسویں باب میں حکمت نمبر 245 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
245) جَعَلَكَ فِي العَالَمِ المُتَوَسِّطِ بَيْنَ مُلْكِهِ وَمَلَكُوتِهِ لِيُعْلِمَكَ جَلاَلَةَ قَدْرِكَ بَيْنَ مَخْلُوقَاتِهِ ، وَأَنَّكَ جَوْهَرَةٌ تَنْطَوِي عَلَيْهَا أَصْدَافَ مُكْوَّنَاتِهِ .
اللہ تعالیٰ نے تم کو عالم ملک اور عالم ملکوت کے درمیان عالم متوسط میں بنایا ہے ۔ تا کہ وہ اپنی مخلوقات کے درمیان تمہارے مرتبے کی بزرگی تمہارے اوپر واضح کرے۔ اور تم کو یہ معلوم کرائے ، کہ تم ایک ایسا جو ہر یعنی موتی ہو جس کو مخلوقات کی سیپیاں ڈھانپے ہوئے رہتی ہیں؟
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی عظمت و بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اور اس کو کائنات کا منتخب خلاصہ بنایا ہے۔ اس میں وہ سب کچھ جمع ہے جو اس کے علاوہ کسی مخلوق میں جمع نہیں ہے۔ اس میں عالم ملک و عالم ملکوت اور نور وظلمت ، اور غیب و شہادت اور عالم علوی و عالم سفلی قدرت و حکمت ، اور ظاہر و باطن سب موجود ہیں ۔
لہذا اے انسان اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے عالم ملک یعنی تمہاری بشریت اور اپنے عالم ملکوت یعنی تمہاری روحانیت کے درمیان عالم متوسط میں پیدا کیا ہے۔ یا تم اس طرح کہو: ۔ اپنے ملک یعنی عالم اجسام ، اور اپنے ملکوت یعنی عالم ارواح کے درمیان پیدا فرمایا ہے ۔ لہذا اے انسان! تم صرف ملک نہیں ہو۔ کہ تم جانوروں اور پتھروں کی طرح ہو جاؤ اور نہ تم صرف ملکوتی ہو۔ کہ فرشتوں کی طرح ہو جاؤ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ملک اور ملکوت سے مرکب بنایا ہے تا کہ مجاہدہ اور مشاہدہ کے ذریعے تمہاری بزرگی اور افضلیت ظاہر ہو۔ اور اسی وجہ سے تم خلافت الہٰیہ کے ساتھ مخصوص کئے گئے ۔ اور امانت ربانی اٹھانے کے لئے آگے بڑھے۔ پھر تم نعیم جنت اور دیدارالہٰی کی بخششوں سے سرفراز کئے جاؤ گے۔ پھر انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔
ایک قسم وہ لوگ ہیں، جن کی بشریت ان کی روحانیت پر ، اور ان کا ملک ان کے ملکوت پر، اور ان کی ظلمت ان کے نور پر غالب ہے۔ لہذا وہ لوگ مخلوق کی ظلمت میں باقی ہیں، اور شہو دو عیاں سے روک دئیے گئے ہیں۔ اور وہ لوگ عام مسلمان ہیں۔
دوسری قسم ۔ دونوں میں جن کی روحانیت ان کی بشریت پر اور ان کا نور ان کی ظلمت پر اور ان کا ملکوت ان کے ملک پر غالب ہے۔ اور وہ خواص عارفین سائرین ہیں۔ جو میدان جنگ میں اپنے نفوس کے ساتھ مجاہدہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرر ہے ہیں ۔ اور ان سائرین میں سے سابقین ( سبقت کرنے والے ) مقربین ہیں۔ اور ان میں سے لاحقین محبین ہیں۔ اور ہر ایک اپنی سچائی کے مطابق اپنے مولائے حقیقی کی محبت میں سرگرم و مشغول ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے، کہ انسان بشریت اور روحانیت سے علیحدہ ایک زائد یعنی جدا گانہ شے ہے۔ کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے تم کو ملک یعنی بشریت اور ملکوت یعنی روحایت کے درمیان عالم متوسط میں بنایا ہے۔ اس کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ دونوں کے درمیان ایک مستقل شے ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے۔ کہ انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ لہذا وہ بذات خود عالم متوسط ہے ۔ یعنی ملک اور ملکوت سے مرکب ہے۔ لہذا اگر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) اس طرح فرماتے :- اللہ تعالیٰ نے تم کو عالم ملک اور عالم ملکوت کے درمیان عالم متوسط بنایا ہے۔ تو مفہوم آسانی سے سمجھ میں آتا۔ یعنی یہ کہ تم نہ صرف ملک ہو ، اور نہ صرف ملکوت ہو۔ بلکہ تم کو دونوں کے درمیان متوسط یعنی دونوں سے مرکب بنایا ہے۔
جیسا کہ حضرت رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے:۔ كُنتُ نبَيًّا وَادَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ میں اس وقت نبی تھا ۔ جبکہ آدم (علیہ السلام ) پانی اور مٹی کے درمیان تھے ۔
یعنی آدم علیہ السلام پانی اور مٹی سے روح کے بغیر مرکب تھے ۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی عبارت اس بارے میں ایک رمز اور باریک اشارہ ہے ۔ اور ہمارا علم تصوف سب کا سب اشارہ ہے۔ اور تم کو ملک اور ملکوت کے درمیان اس لئے بنایا ہے۔ تا کہ تم کو تمہارے مرتبے کی بزرگی ، اور تمہاری حقیقت کی بلندی سے آگاہ فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:-
( وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ) اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
اور دوسری جگہ فرمایا :-
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ) ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔ اور تا کہ تم کو یہ معلوم کرائے کہ تم ایک بہترین جو ہر یعنی قیمتی موتی ہو جو بہترین سیپ کے اندر محفوظ ہے۔ اور وہ سیپ یہ ساری کائنات ہے۔ لہذا اس کی مخلوقات کی سیپیاں عرش سے فرش تک تم کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔ لہذا اے انسان تم سیپ کے اندر یا قوت کی طرح ہو ۔ زمین تم کو اٹھائے ہوئے اور آسمان تمہارے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے ۔ اور اطراف تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔ اور جانور تمہاری خدمت کرتے اور تم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور جمادات تمہارے دشمنوں کو تم سے دور کرتے ہیں ۔ اور تم ان سب کے بیچ میں ہو ۔ آسمان تمہارے گرد چکر لگارہے ہیں ۔ اور سورج اور چاند اس زمین کو روشن کرتے ہیں جس میں تم ہو ۔ لہذا تم سیپ کے قیمتی موتی ، اور مخلوقات کا خلاصہ ہو ۔ اور کل مخلوق کی گردش کا محور تم ہو ۔
حضرت ابوالعباس مرسی نے فرمایا ہے : ۔ کل مخلوق تمہارے فرماں بردار غلام ہیں ۔ اور تم اللہ تعالیٰ کے غلام ہو۔ بعض آسمانی کتابوں میں وارد ہوا ہے – اے آدم کی اولاد میں تمہاری لازمی تدبیر ہوں ۔ لہذا تم اپنی تدبیر مضبوطی سے اختیار کرلو ۔
اور بعض آثار میں اللہ عزوجل سے روایت ہے:۔ اے آدم کی اولاد ! میں نے کل اشیا تمہارے لئے پیدا کی ہے۔ اور تم کو اپنے لئے پیدا کیا ہے۔ لہذا جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو ، تم اس کو چھوڑ کر ان اشیاء میں نہ مشغول ہو جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں۔
صوفیائے کرام نے انسان کے عجائب کے بارے میں بیان فرمایا ہے ۔ کل موجودات انسان کے اندر پوشیدہ ہیں۔ اور وہ عالم اکبر کا ایک نسخہ ہے۔
اسی مفہوم میں یہ اشعار ہیں ۔ جو حضرت ابوالعباس مرسی کی طرف منسوب ہیں ۔
یَاتَائِهًا فِي مَهُمَةٍ عَنْ سَرِّهِ انْظُرُ تَجِدُ فِيْكَ الْوُجُودَ بِاسْرِه
اے اپنے راز کے میدان میں سرگرداں و پریشاں تو غور کر ۔ تو اپنے اندر کل موجودات کو پائےگا۔
انْتَ الْكَمَالُ طَرِيقَةٌ وَ حَقِيقَةٌ يَا جَامِعًا سِرَّ الْإِلَهِ بِأَسْرِ
طریقت اور حقیقت کے اعتبار سے، اے تمام اسرار الہٰی کے جامع تو ہی کمال ہے۔
اور مباحث میں فرمایا ہے: ۔ ۔
يَا سَابِقًا فِي مَوَكَّبِ الْإِبْدَاعِ وَلَاحِقًّا فِي جَيْشِ الْاِخْتِرَاعِ
اے پیدائش کی سواری پر پہلے سوار ہونے والے ، اور ایجاد کے لشکر میں پہلے شامل ہونےوالے
اِعْقِلُ فَأَنتَ نُسْخَةُ الْوُجُودِ لِلَّهِ مَا أَعْلَاكَ مِنْ مَوْجُودٍ
تو اس کو بخوبی سمجھ لے کہ تو اللہ تعالیٰ کے کل وجود کا نسخہ ہے: اس نے تم کو کل موجود سے کتنا اعلے افضل بنایا ہے۔
اليسَ فِيكَ الْعَرْشُ وَالْكُرْسِی وَالْعَالَمُ الْعُلْوِيُّ وَالسُّفْلِيُّ
کیا تیرے اند ر عرش و کرسی ، اور عالم علوی وسفلی نہیں ہے۔
مَا الْكَوْنُ إِلَّا رَجُلٌ كَبِيرٌ وَأَنتَ كَونَ مِثْلُهُ صَغِيرُ
عالم ایک بڑا آدمی ہے۔ اور تو اسی کی طرح ایک چھوٹا عالم ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : – انسان عالم کا ایک نسخہ ہے۔ یا ایک چھوٹا عالم ہے ۔ اس وقت تک ۔ جب تک کہ اس کی روحانیت اس کی بشریت پر ، اور اس کا باطن اس کے ظاہر پر ، اور اس کا نور اس کی ظلمت پر غالب نہیں ہے لیکن جب اس کی روحانیت اس کی بشریت پر اور اس کا باطن اس کے ظاہر پر اور اس کا نور اس کی ظلمت پر غالب ہو جاتا ہے۔ تو اس وقت وہ ملکوتی جبروتی بن جاتا ہے۔ اور کل عالم پر چھا جاتا ہے۔ اور عالم اکبر ہو جاتا ہے۔ اور کل عالم اس کا نسخہ بن جاتا ہے۔ اسی حقیقت کے بارے میں حضرت ابن فارض نے فرمایا ہے:۔
وَانِي وَإِن كُنتُ ابْنَ ادَمَ صُورَةٌ فَلِي فِيْهِ مَعْنِّى شَاهِدٌ بِابُوَّتِی
اور میں اگر چہ شکل وصورت کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہوں۔ لیکن میری حقیقت میرے باپ ہونے کی گواہ ہے۔
اس لئے کہ روح کو نہ زمین اپنے اند ر سما سکتی ہے نہ آسمان ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی