واصل باللہ معرفت باللہ کے عنوان سےتیئسویں باب میں حکمت نمبر 213 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تیئسواں باب
قرب و وصال اور اس سے پیدا ہونے والے نزول کے مقامات اور احوال کے نتائج اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے نیازی کے بیان میں
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
213) وُصُولُكَ إِلَيْهِ وُصُولُكَ إِلَى العِلْمِ بِهِ ، وَإِلا فَجَلَّ رَبُّنَا أَنْ يَتَّصِلَ هُوَ بِشَيْءٍ .
اللہ تعالیٰ تک تمہارا پہنچنا ۔ اس کے ساتھ علم یعنی اس کی معرفت تک تمہارا پہنچنا ہے۔ ور نہ ہمارا رب تعالیٰ اس سے بلند و پاک ہے کہ وہ کسی شے سے متصل ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اہل فن یعنی صوفیائے کرام نے اس مقام میں کچھ اصطلاحات والفاظ مقرر کئے ہیں۔ جن کو تم لوگ آپس میں معانی سمجھنے کے لئے استعمال کرتے ہو۔
ان اصطلاحات میں سے سیر اور رحیل اور منازل اور مناہل اور مقامات کے ذکر ہیں ۔ اور انہیں اصطلاحات میں سے رجوع اور وقوف ہیں۔ اور یہ سب الفاظ نفس کے ساتھ مجاہدہ اور اس کے ساتھ جنگ کرنے اور نفس کے تعلقات اور عادات کے ختم کرنے یا ان میں سے کسی شے کے ساتھ ٹھہر نے سے کنا یہ ہیں۔ اور عنقریب اس سلسلے میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ بیان آئے گا ۔ اگر نفوس کے میدان نہ ہوتے توسائرین کی سیر ثابت نہ ہوتی ۔ اور انہی اصطلاحات میں و صول اورتمکین اور سکون اور اطمینان ہیں ۔ اور انہی میں سے :۔ مشاہدہ اور مکالمہ اور مجالسہ اور مساورہ (سرگوشی)ہیں ۔
اور یہ سب اس سے کنایہ ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال میں سے ان کی ارواح کی تشریح نے حاصل کیا اور جن کا مزہ ان کے اسرار نے چکھا ہے۔ اور ان میں سے کچھ اصطلاحات انشاء اللہ اپنے مقام میں آئے گی ۔ اور وصول کے معنی :- صوفیائے کرام کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے واحد وجود کے علم کا ثابت اور قائم ہو جانا ہے ۔
لہذا تمہارا اللہ تعالیٰ تک پہنچنا ۔ یہ ہے کہ تم کو اپنے عدم ( نہ ہونے ) کا شعور اس حد تک ہو جائے کہ تمہارے نزدیک تمہارا عدم ضروری ہو جائے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق تمہارا علم ہو۔ اور فی الحقیقت یہ امر تم کو حاصل ہے۔ لیکن تم کو اس کا شعور نہیں ہے۔ اور بعض صوفیائے کرام نے اس حقیقت کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔ ان میں سے بعض شعر حضرت ششتری رضی اللہ عنہ کا ہے۔
بَيْنَ طُلُوعٍ وَ نُزُولٍ تخَبَلَتِ الْغُزُولُ
طلوع اور نزول کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ۔
اَفْنِ مَنْ لَّمْ يَكُن يَبْقَ مِّنْ لَّا يَزُولُ
حقیقت میں جس کا وجود نہیں ہے ، اس کو فنا کر دو۔ تا کہ صرف وہ ذات باقی رہ جائے ، جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔
جُولُ كَي تَزُولُ او امش نزع الفحول
فکر کو دوڑاؤ تا کہ تم فنا ہو جاؤ۔ یا مردوں سے مقابلہ کے لئے چلو ۔
لہذاز وال یعنی فنا ہی معرفت ہے ۔ اور یہی وصول کے معنی ہیں۔ اور اس کا سبب فکر کو کام میں لاتا ہے۔ اس لئے فکر کرنے کا حکم بندے کو دیا گیا ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ مشاہد ہ سب لوگ کرتے ہیں۔ مگر ان کو معرفت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور میں نے اپنے شیخ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ۔
انسان سب کے سب وحدت کے سمندر میں ہیں ۔ لیکن وہ سمجھتے نہیں ہیں ۔ لہذا اللہ تعالیٰ تک بندے کا پہنچنا، یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے علم میں ثابت اور قائم ہو جائے۔ اور اپنے نفس اور کل ماسوی سے گم ہو جائے ۔ ورنہ محسوس ظاہری طریقے پر پہنچنے کا اعتقاد رکھنا باطل ہے۔ اور ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہمارا رب تعالیٰ اس سے بلند اور اعلیٰ ہے کہ کوئی شے اس سے قریب ہو ۔ کیونکہ ہرشے کے لئے ایک مکان میں محد ود ہونا لازم ہے ۔ یا وہ کسی شے سے قریب ہو۔ کیونکہ ہرشے کے لئے محتاج اور محدود ہونا لازم ہے۔ اور اللہ اس سے بلند اور پاک ہے ۔ کیونکہ وہ غیر محدود اور بے نیازہے۔
اور تم یہ معلوم کرو ۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ علم کسبی ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے نفس اور حس سےگم رہتا ہے۔ سکر کے بعد سکر اور حیرت کے بعد حیرت ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بعد میں ہوشیار ہوتا ہے۔ اورحس کا پردہ اور جہالت کا بادل اورنفس کی ظلمت ، اس سے دور ہو جاتی ہے۔ پھر ون کا سورج اس کے اوپر روشن ہوتا ہے۔ اور اغیار کی ظلمت اس سے دور ہو جاتی ہے۔
اس حقیقت کے بارے میں یہ اشعار کہے گئے ہیں:۔
لَيْلِىْ بِوَجْهِكَ مُشرِق وَظَلَامُهُ فِي النَّاسِ سَارِ
میری رات تمہارے چہرے کے سبب روشن ہے۔ حالانکہ دوسرے لوگوں پر اس کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔
النَّاسُ فِي سَدَفِ الظَّلَامِ وَنَحْنُ فِي ضَوْءِ النَّهَارِ
لوگ تاریکی کے پردے میں ہیں۔ اور ہم دن کی روشنی میں ہیں۔
یعنی میرے وجود کی رات تمہاری ذات کے مشاہدے کے سبب روشن ہے۔ اور دوسرے لوگوں پر جدائی کی رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ مخلوق کی ظلمت کے پردے میں میں اور ہم عرفان کے سورج کی روشنی میں ہیں۔
پھر وہ ہمیشہ شیخ کی تربیت میں ، اس کے زیرسایہ رہ کر اس کی مدد حاصل کر کے اپنے صدق و اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ظلمتوں میں ڈوبا ہوا دشمن یعنی نفس اس کا فرماں بردار ہو جاتا ہے۔ اور خالص نورانی رہ جاتا ہے۔ اور وہ اس کو بذات خود بھی محسوس کرتا ہے۔ اس وقت وہ زبان حال سے کہتا ہے ۔ مقابلہ کرنے والے دشمن نفس نے شکست کا اقرار کر لیا ہے۔ اور جنگ ختم ہوگئی۔
پھر جب نفس خالص نورانی ہو جاتا ہے۔ تو وہ ہرشے سے مدد حاصل کرتا ہے ۔ ہرشے سے پیتا ہے۔ اور ہرشے سے حصہ لیتا ہے۔ پھر اس کے بعد واسطہ تک اس کا پہنچنا، شکر و احسان کے طور پر باقی رہتا ہے۔
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ تم میرا اور اپنے والدین کا شکر بجالاؤ۔
اور اس وقت وہ اپنی زبان حال و قال سے یہ اشعار پڑھتا ہے :-
الْحَمْدُ لِلَّهِ لَا تَفْنَى مَحَامِدہ ُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ فِي الْأَصَالِ وَالْبُكْرِ
سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں ، جس کی خوبیاں فنانہیں ہوں گی ۔ اور سب تعریفیں صبح وشام اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔
منْ يَهْدِهِ اللَّهُ أَضْحَى عَالِمًا فَطِنًا بِاللَّهِ فِي كُلِّ مَا يَبُدُو مِنَ الصُّوَرِ
جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام صورتوں میں بخوبی پہچا نتا ہے ، جوظاہر ہیں۔
يَا طَالِبَ الْوَصْلِ جُدبِالنَّفْسِ مُلْتَفِتَا عَنْهَا إِلَى مَنْزِلِ الْأَشْيَاءِ بِالْقَدْرِ
اے وصل کے طالب نفس سے منہ پھیر کر قضا و قدر سے موافقت کر کے اشیاء کے منزل کی طرف متوجہ ہو کر نفس کو خرچ کرو ۔
فَإِنْ ظَفَرْتَ فَأَنْتَ الْفَرْدُ وَالْعَلَمُ الْ مَنْعُوتُ بِالْحُسْنِ وَالحُسْنَى لِذِى نَظرِ
لہذا اگر تم اس طرح نفس کے خرچ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ تو تم وہ فرد اور نشان ہو۔ جس کی تعریف خوبی کے ساتھ کی گئی ہے اور اہل نظر کے سامنے تم بھلائی ہو۔