واجبات کی زنجیروں سے کھینچنا کے عنوان سےاکیسویں باب میں حکمت نمبر 195 اور196 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے عبادت کے لئے وقت مقرر کرنے کی حکمت بیان کی۔ لہذا عبادت کے واجب کرنے کی حکمت بھی بیان کی۔ چنانچہ فرمایا:-
195) عَلِمَ قِلَّةَ نُهُوضِ العِبَادِ إِلَى مُعَامَلَتِهِ ، فَأَوْجَبَ عَلَيْهِمْ وُجُودَ طَاعَتِهِ ، فَسَاقَهُمْ إِلَيْهِ بِسَلاَسِلِ الإِيجَابِ (عَجِبَ رَبُّكَ مِنْ قَوْمٍ يُسَاقُونَ إِلَى الجَنَّةِ بِالسَّلاسِلِ).
196) أَوْجَبَ عَلَيْكَ وُجُودَ طَاعَتِهِ ، وَمَا أَوْجَبَ عَلَيْكَ إِلاَّ دُخُولَ جَنَّتِهِ .
اللہ تعالیٰ نے معلوم کیا کہ بندے اس کے معاملہ (عبادت) کی طرف بہت ہی کم سبقت کریں گے ۔ لہذا اس نے اپنی عبادت ان کے اوپر واجب کر دی۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی طرف واجبات کی زنجیروں کے ذریعے کھینچا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے راضی ہوا ، جو جنت کی طرف زنجیروں سے باندھ کر لے جائے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر اپنی طاعت کو واجب کیا تو حقیقت یہ ہے کہ اس نے تمہارے اوپر جنت میں داخل ہونے کو واجب کیا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یہ تشریع کی حکمت ہے۔ لیکن مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے صرف اہل ظاہر کی حکمت کو بیان فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے:۔ جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت سے یہ معلوم کیا کہ اس کے بندے اس کی عبادت کی طرف بہت ہی کم سبقت کرینگے ۔
جیسا کہ اس نے فرمایا ۔
وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْراور میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہیں ۔
اور دوسری جگہ فرمایا :- وَقَلِيلٌ مَّا هُمُ اور شکر گزار بندے کم ہیں ۔
لہذا جب اللہ تعالیٰ نے یہ معلوم کیا تو اس نے ان کے اوپر اپنی عبادت کو واجب کر دیا اور عبادت کے ترک کرنے پر ان کی سزا کی وعید سنائی۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی طرف واجبات کی زنجیروں میں باندھ کر چلایا۔
پھر حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حدیث شریف کو جو قیدیوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ بیان کر کے یہ اشارہ فرمایا ہے :۔ بندے کو کچھ اختیار نہیں ہے۔ اور وہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ کے قبضے میں گرفتار ہے۔ اور یہ مشہور حدیث ہے :۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ہے:۔
عَجِبَ رَبُّكَ مِنْ قَوْمٍ يَسَاقُونَ إِلَى الْجَنَّةِ بِالسَّلَاسِلِ ایسے لوگوں سے تمہارا رب راضی ہوا ، جو زنجیروں کے ذریعے جنت کی طرف چلائے جاتے ہیں۔
چونکہ حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام، اللہ تعالیٰ اور اس کی بارگاہ کی طرف چلنے کی دعوت دیتے تھے۔ لہذا جس نے آپ ﷺ کی موافقت کی وہ نجات پا گیا۔ اور جس نے آپ کی مخالفت کی۔ اس کے گردن میں زنجیر باندھ کر اس کے رب کی بارگاہ کی طرف لے گئے ۔ اور اس حدیث شریف:- عَجِبَ رَبُّكَ مِنْ قَوْمٍ يَسَاقُونَ إِلَى الْجَنَّةِ بِالسَّلَاسِلِ کی تشریح میں بعض علمائے کرام نے فرمایا: ۔ یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب تعجب کا مفہوم :۔ اپنے بندوں کے لئے رضامندی کا اظہار ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عجیب شان کا مالک ہے۔ لیکن اظہار تعجب کی تشریح یہ ہے ۔ جنت جس میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتوں کے موجود ہونے اور اہل جنت کے دائمی عیش وعشرت میں رہنے کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور لازم یہ تھا کہ اہل عقل میں سے جو لوگ اس خبر کو سنتے ۔ ان لوگوں کو ایسا ہونا چاہیئے تھا کہ فوراً اس کی طرف بڑھتے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے پوری طرح جدو جہد کرتے اور اس کے پالینے کے لئے ہر قسم کی مصیبتیں اور تکلیفیں خوشی اور رضا مندی سے برداشت کرتے مگر اس کے برعکس ان لوگوں کا یہ حال ہے ۔ کہ اسی جنت سے یہ لوگ بھاگتے اور منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ لوگ جنت کی طرف زنجیروں کے ذریعے کھینچ کر لے جائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ انسان ان بڑی مصیبتوں کے طرف کھینچ کر لے جایا جاتا ہے۔ جن سے طبیعتیں نفرت کرتی اور بھاگتی ہیں۔ لہذا اظہار تعجب مخلوق کے اعتبار سے ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار ہے ۔ اور بلاشبہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر قسم کے منفعتوں (فائدہ پہنچانے والی چیزوں ) سے فائدہ
اٹھانے سے بے نیاز ہے۔ اور اس نے تم کو عبادت کرنے کا حکم اس لئے دیا اور گنا ہوں سے اس لئےمنع کیا ہے۔ کہ عبادت کرنے میں تم کو فوائد حاصل ہوں گے۔ اور گناہوں سے پر ہیز کرنے میں تم نقصانات سے بچو گے گویا اس نے اپنی عبادت کو تمہارے اوپر واجب نہیں کیا ہے، بلکہ تمہاری جنت میں داخل ہونے کو تمہارے اوپر واجب کیا ہے۔ ایک حکیم یعنی عارف نے فرمایا ہے ۔ تم کو معلوم ہونا چاہیےکہ اطاعت میں مختلف مرتبے اوردرجے ہیں اور مخالفت میں مختلف کبیرہ گناہ اور دوزخ کے نیچے کے درجے ہیں ۔
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:-
إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا تَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ مِنَ الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ لَا يَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ. قَالَ: بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ رِجَالٌ آمَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ
اہل جنت اپنے اوپر کی طرف بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے۔ جس طرح زمین والے آسمان کے کناروں پر روشن ستارے کو دیکھتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تم نے دریافت کیا :- یا رسول اللہ ! کیا وہ بالا خانے انبیا علیھم السلام کے مقامات ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ۔ اس ذات اقدس کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ وہ بالا خانے ان لوگوں کے لئے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے اس کے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔
اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے ۔ آدمی تین قسم کے ہیں۔ ایک قسم :- ایسے لوگ ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ، عبودیت اور شکر اور تعمیل حکم اور خدمت کے حقوق کے ساتھ قائم ہونے کے لئے کرتے ہیں۔ لہذا واجب ۔ ان کے مرتبہ اور درجہ کوزیادہ کر دیتا ہے۔ اور دوسری قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ، واجب کی تعظیم کے لئے کرتے ہیں۔ لہذاوا جب ان کے حق میں نہیں اور حکمت کا ظاہر کرتی ہے ۔
اور تیسری قسم : ۔ وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ، اس کے عذاب کے خوف اور اس کے ثواب کی امید سے کرتے ہیں۔ لیکن اگر عذاب کا خوف اور ثواب کی امید نہ ہوتی تو وہ اس کی عبادت نہ کرتے ۔ لہذا وا جب ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے اورتینوں میں بھلائی ہے۔
اگر چہ تینوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ تحقیق یہ ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں :- ایک قسم وہ لوگ ہیں جو تکلیف کی بناپر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور وہ کثافت وحجاب والےہیں۔
دوسری قسم : وہ لوگ ہیں۔ جو تعظیم کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور وہ علم اورمعرفت والے ہیں۔ اہل حجاب ۔ خوف اور طمع سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور اہل عیان :- محبت اور شکر ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ انبیاء علیہم السلام اور خواص اولیائے کرام رضی اللہ عنہم کا مقام ہے۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:-
أَفَلَا اكُونُ عَبْدًا شَكُوراً کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں
لہذا اہل باطن کے نزدیک خدمت کے واجب ہونے میں صرف یہی حکمت ہے کہ ربوبیت کے اس سر کی پوشیدگی کو ظاہر کیا جائے جو عبودیت کے مظاہر میں ہے ۔ کیونکہ عبودیت کے بغیر ربو بیت ایسا نقص ہے کہ اس کے اوپر اپنی حکمت کا باطل کرنالازم آتا ہے ۔ اور ربوبیت کے بغیر عبودیت ایسا محال ہے کہ اس کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ایک عارف کا شعر ہے۔
مَنْ لَا وُجُودَ لِذَاتِهِ فِي ذَاتِهِ فَوُجُودُهُ لَولَاهُ عَيْنُ مَحَالٍ
جس شے کا وجود اپنی ذات سے مستقل نہیں ہے بلکہ وہ اپنےوجود کے لیےدوسری شے کامحتاج ہے۔
لہذا اگر اس کے وجود کی علت نہ ہوتی تو اس شے کا وجود محال ہوتا ۔
یعنی عبودیت اپنے وجود کے لئے ربوبیت کی محتاج ہے۔ لہذا اگر ربوبیت نہ ہوتی تو عبودیت کا وجود نہ ہوتا ۔
اور اسی بنا پر جب عارفین اس راز کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، کہ عبودیت کے لئے بذات خود مستقل وجود نہیں ہے۔ بلکہ اس کے وجود کی حکمت صرف یہ ہے کہ عبودیت کے احکام کے ظاہر کرنے کے ساتھ ، ربوبیت کے راز کی صورت میں متعلق ہیں۔ اور عارفین اس کو حال اور ذوق سے پہچانتے ہیں تو ان کی عبادت شکر ہو جاتی ہے اور وہ عبودیت میں محمول ( اٹھائے گئے ) ہیں ، نہ کہ حامل (اٹھانے والے )۔ ان کا عمل اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کی عبادت حقیقت میں بہت زیادہ ہے۔ اگر چہ محسوس ظاہر میں کم ہو۔ اور ان کی عبادت کبھی کم ہوتی بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کے کل تصرفات عبادت ہیں ۔ ان کا سونا اور ان کا کھانا پینا اور ان کاچلنا سب عبادت ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی شان میں یہ حدیث شریف وارد ہوئی ہے۔
نَوْمُ الْعَالِمِ عِبَادَةٌ عالم کا سونا عبادت ہے۔
نیز حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
لَيَذْكُرَنَّ الله عز وجل قَوْمٌ فِي الدُّنْيَا عَلَى الْفُرُشِ المُمَهَّدَةِ يُدْخِلُهُمُ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى کچھ لوگ ایسے ہیں جو فرش بچھے ہوئے راستے پر چل کر جنت میں داخل ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا : یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا ۔ وہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے لوگ ہیں۔ یا حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہو۔ اس حدیث شریف کو منذری نے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوسلیمان نے فرمایا ہے ۔ کبھی عارف اپنے بستر پر وہ مقام پالیتا ہے، جو ہ و نماز میں نہیں پاتا ہے۔ اور بندہ اپنے لئے اس مقام پر پہنچنے کو تعجب خیر نہ سمجھے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کسی سبب سے نہیں، بلکہ بغیر کسی سبب کے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر مطلب کو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔