اللہ تعالی پوشیدہ کیوں ہے؟ (سترھواں باب)

اللہ تعالی پوشیدہ کیوں ہے؟ کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 164اور165 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

چونکہ معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  کا ہرشے میں ظاہر ہونا اس طرح ہو کہ تم اس کو ہرشے میں ظاہر دیکھو۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کے پوشیدہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:-

164) إِنَّمَا حَجَبَ الْحَقَّ عَنْكَ شِدَّةُ قُرْبِهِ مِنْكَ.

تم سے اللہ تعالیٰ  کی انتہائی قربت نے تم سے اللہ تعالیٰ  کو پوشیدہ کر دیا ہے۔

165) إِنَّمَا احْتَجَبَ لِشِدَّةِ ظُهُورِهِ ، وَخَفِىَ عَنِ الأَبْصَارِ لِعِظَمِ نُورِهِ.

اور اللہ تعالیٰ اپنے ظہور کی زیادتی کی وجہ سے تم سے پوشیدہ ہے۔ اور اپنے نور کی عظمت اور بڑائی کے سبب آنکھوں سے چھپا ہوا ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ کے شدت سے ظاہر ہونے کے باوجود اس کے پوشیدہ ہونے میں تین حکمتیں بیان فرمائی ہیں :- پہلی حکمت :- بہت زیادہ قریب ہونا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ بہت زیادہ قریب ہونا پوشیدہ ہونے کا لازمی سبب ہوتا ہے۔ جیسے کہ انسان کے آنکھ کی سیاہی ۔ کیونکہ انسان اپنی آنکھ کی سیاہی کو صرف اس وجہ سے نہیں دیکھتا ہے۔ کہ وہ اس سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ  تو ہرشے سے زیادہ تم سے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:-

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ اور البتہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم انسان کے ، اس کی گردن کی رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

لہذا اللہ تعالیٰ  کا تم سے بہت زیادہ قریب ہونا تمہاری انتہائی کمزوری کا سبب ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں فرمایا ۔

اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ قربت ہی نے قربت کے مشاہدہ کو تم سے غائب کر دیا ہے۔

حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-

قربت کی حقیقت یہ ہے۔ کہ تم بہت زیادہ قربت کی وجہ سے ، قربت سے قربت میں غائب ہو جاؤ۔ اس شخص کی طرح جو مشک کی خوشبو کو سونگھتا ہے۔ پھر وہ برابر اس کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ اور جتنا اسکے قریب ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ پھر جب وہ اس گھر میں پہنچ جاتا ہے۔ جس میں مشک بھرا ہوا ہے۔ تو مشک کی خوشبو کا احساس اس سے ختم ہو جاتا ہے۔

بعض عارفین کا کلام ہے:۔

كَمْ ذَا تُمَوَّهُ بِالشَّعْبَينِ وَ الْعَلَمِ                    وَالْآمُرُ أَوْضَحُ مِنْ نَّارٍ عَلَى عَلَمٍ

تم غاروں اور پہاڑ میں کتنا پانی بھرو گے (کتنی محنت کرو گے ) حالانکہ یہ معاملہ پہاڑ کی آگ سے زیادہ واضح ہے۔

ارَاكَ تَسْأَلُ عَنْ نَجْدٍ وَانتَ بِهَا            وَعَنْ تِهَامَةَ هَذَا فِعْلُ مُتَهَم

میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم نجد اور تہامہ کے متعلق پوچھتے ہو ۔ حالانکہ تم اس میں موجود ہو ۔ یہ شک اور و ہم میں مبتلا شخص کا کام ہے۔

دوسری حکمت :- اللہ تعالیٰ  کے پوشیدہ ہونے میں دوسری حکمت اس کا بہت زیادہ ظاہر ہونا ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے۔ کہ بہت زیادہ ظاہر ہونا پوشیدہ ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ ھمزیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔

و مِنْ شِدَّةِ الظُّهُورِ الْحَفَاءُ ظہور کی شدت کی وجہ سے ہی پوشیدگی ہے۔

اور صوفیائے کرام نے اس کی مثال :-سورج کے گولے سے دی ہے۔ جب اس کی شعاع تیز ہو جاتی ہے۔ اور وہ پوری طرح روشن ہو جاتا ہے۔ تو اس کے زیادہ ظاہر ہونے کی وجہ سے کمزور آنکھیں اس کے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں لہذا بہت زیادہ ظاہر ہونا ہی پوشیدہ ہونے کا سبب ہے۔ جیسا کہ ایک عارف شاعر نے فرمایا ہے:۔

وَمَا احْتَجَبَتْ إِلَّا بِرَفْعِ حِجَابِهَا               وَمِنْ عَجَبٍ أَنَّ الظُهُوْرَ تَسَتَّرُ

وہ پردہ اٹھانے کے سبب پوشیدہ ہوا۔ اور تعجب یہ ہے کہ ظاہر ہونا ہی پوشیدہ ہونا ہے   لہذا اللہ تعالی کمزور آنکھوں سے بغیر کسی حجاب کے پوشیدہ ہے۔

تیسری حکمت : – نور کی شدت ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ نور کی شدت ( تیزی ) دکھائی نہ دینے کا سبب ہے۔ کیونکہ آنکھ بہت تیز روشنی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔

مسلم شریف کی حدیث میں معراج کے قصہ میں ہے :-

قُلْنَايَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ ؟ قَالَ نُورٌ أَنَّى آرَاهُ ؟ استفہام کے لفظ کے ساتھ : ہم لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے فرمایا وہ نور ہے اس کو کیونکر دیکھ سکتا ہوں ۔

حضرت نبی کر یم ﷺ نے استفہام کے لفظ کے ساتھ فرمایا:۔ یعنی مجھ پر اللہ تعالیٰ  کا نورغالب ہو گیا۔ تو میں اس کو کس طرح دیکھتا۔ اور دوسری روایت میں ہے:۔

رايتُ نُورًا میں نے نور دیکھا۔

لہذا احتمال یہ ہے:۔ حضرت نبی کر یم ﷺ نے پہلی مرتبہ نور دیکھا۔ پھر بصیرت سے اس  کا مشاہدہ ثابت رہنے کے باوجود، آنکھ سے اس کے مشاہدہ کی طاقت نہیں رہی۔ نیز آنکھ، چمکنے اور چکا چوند کر دینے والی بجلی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس کے بارے میں عارفین کے حسب ذیل اشعار ہیں:۔

بِالنُّورِ يَظْهَرُ مَا تَرَى مِنْ صُورَةٍ              وَبِهِ وُجُودُ الْكَائِنَاتِ بِلَا امْتِرَا

جو صورت تم دیکھتے ہو، وہ اسی نور سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور بلاشبہ کا ئنات کا وجود اسی سے ہے۔

لكِنَّهُ يَخْفى لِفَرْطِ ظُهُورِهِ                                         حِسًّا وَ يُدْرِكُهُ الْبَصِيرُ مِنَ الْوَرَى

لیکن وہ نور اپنے زیادہ ظاہر ہونے کی وجہ سےحس ( محسوس کرنے والی قوت ) سے پوشیدہ ہے۔اور دیکھنے والا اس کو مخلوق میں دیکھتا ہے۔

فَإِذَا نَظَرَتْ بِعَيْنِ عَقْلِكَ لَمْ تَجِدُ           شَيْئًا سِوَاهُ عَلَى الذَّوَاتِ مُصَوَّرًا

تو جب تم اپنے عقل کی آنکھ سے دیکھتے ہو۔ تو اس کے سوا کسی شے کو مخلوق کی ذاتوں میں ظاہر نہیں پاتے ہو۔

وَإِذَا طَلَبتَ حَقِيقَةٌ مِنْ غَيْرِهِ                          فَبِذَيْلِ جَهْلِكَ لَا تَزَالُ مُعَثَّرًا

اور اگر تم اس کے غیر سے کوئی حقیقت طلب کرتے ہو تو ہمیشہ اپنی جہالت میں بھٹکتے رہو۔ اور یہ نور جس کا ہم بیان کر رہے ہیں، یہ محسوس نور نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ ایسا نور ہے۔

جو صفات اور اسماء کی حقیقتوں سے ظاہر ہوتا ہے اور جہالت کی تاریکی سے نکال کر اللہ تعالیٰ  کے اسماء اور صفات کی معرفت تک پہنچاتا ہے۔ یہ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ یہ وہ اصلی نور ہے، جو جبروت کے سمندر سے جاری ہوتا ہے۔ مگر حکمت اور عزت اور قہریت سے پوشیدہ ہے۔

حضرت ابوالقاسم نصر آبادی سے ان کے اس شعر کا مفہوم دریافت کیا گیا ہے :-

وَيُظْهِرُ فِي الْهَوَى عِزَّ الْمَوَالِي                                       فَيَلْزَمُنِي لَهُ ذُلُّ الْعَبِيدِ

اور وہ محبت میں آقائی اور مولائی کی عزت ظاہر کرتا ہے۔ لہذا اس کے سامنے غلاموں کی ذلت اور عاجزی اختیار کرنی میرے اوپر لازم ہے۔   تو انہوں  نے جواب دیا:۔ آقائی کی عزت حجاب ہے۔ کیونکہ اگر وہ حجاب کو دور کر دے تو عقلیں زائل ہو جا ئیں۔

یہاں سترہواں باب ختم ہوا۔

خلاصہ

اس باب کا حاصل :- تین امور ہیں :- پہلا امر :- یہ ہے :- اولیاء اللہ کی طرف رہنمائی اور اولیاء اللہ کے پاس پہنچنا، اللہ تعالیٰ  کی طرف رہنمائی اور اللہ تعالیٰ  تک پہنچنے کے لئے لازم ہے۔ اس طرح کہ ایک دوسرے سے اکثر جدا نہیں ہوتا ہے۔

دوسرا امر : – ولایت کے اسرار کی تشریح ہے۔ اور وہ ملکوت کے غیب کے اسرار سے آگاہ ہوتا ہے اس شرط کے بغیر، کہ وہ بندوں کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہو (یعنی لوگوں کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ ہونا اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔) کیونکہ بندوں کے رازوں سے آگاہی کبھی اس کے لئے فتنہ اور اس کی سزا کا سبب بن جاتی ہے۔ جبکہ اس کے اندر نفس کے فوائد موجود ہونے کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ثابت اور قائم نہ ہو اس حال میں اکثر وہ اپنی عبادت میں بندوں کے پوشیدہ رازوں سے آگاہی کی نیت کرتا ہے۔ لہذا یہ اس کے حق میں ریاء  ہو جاتا ہے۔ اور ریاء :- ان باطنی امراض میں سے ہے جن کا علاج بہت مشکل ہے۔ جیسے کہ اس کی یہ خواہش کہ لوگ اس کی خصوصیت سے آگاہ ہوں۔ اور اس ریاء  کا علاج :- لوگوں سے دور رہنا اور غیر اللہ کے دیکھنے سے پر ہیز کر کے اللہ تعالیٰ  کے دیکھنے کو کافی سمجھنا ہے۔

تیسرا امر :- عارف کے اندران اسرار کے موجود ہونے کی علامت ہے۔ اور وہ علامت ہرشے میں اللہ تعالیٰ  کا مشاہدہ کرتا اور ہرشے سے اس کا فنا ہونا اور ہرشے پر اللہ تعالیٰ  کی محبت کو ترجیح دینا ( مقدم رکھنا) ہے۔ پس اگر تمہارا اعتراض یہ ہو :- وہ کس طرح اللہ تعالیٰ  کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ حالانکہ وہ غیب (پوشیدہ) ہے؟۔

تو میرا جواب یہ ہے :- بلکہ وہ ہرشے میں ظاہر ہے۔ اور اس کا پوشیدہ ہونا :۔ حقیقتاً اس کے قرب کی زیادتی اور اس کے ظہور کی شدت اور اس کے نور کی عظمت (بڑائی اور تیزی ) کے سبب ہے۔

اور جب تم کو یہ معلوم ہو گیا کہ وہ قریب ہے اور وہ تمہاری روح اور تمہارے قلب سے بھی زیادہ تم سے نزدیک ہے تو تم اس کے دیکھنے کو کافی سمجھو اور اس کے علم کو کافی سمجھ کر ، اس سے دعا کرنے سے بے نیاز ہو جاؤ۔ لیکن اگر دعا کرو۔ اور دعا کرنا۔ شرعا ضروری ہے تو دعا صرف عبودیت(بندگی) مناجات ( سرگوشی ) اور خوشامد اور عاجزی کی نیت سے ہونی چاہیئے  ۔ نہ کہ عطا ( بخشش ) کا سبب ہونے کی نیت سے ۔ اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اٹھارہویں باب کی ابتدا میں دعا کی حقیقت کو واضح فرمایا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں