تعریف اور برائی مرید کے آداب (پندرھواں باب)

تعریف اور برائی مرید کے آداب کے عنوان سے پندرھویں باب میں  حکمت نمبر 142 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پندرھواں باب

تعریف اور برائی میں مرید کے آداب کے بیان میں لوگوں کی مدح و ستائش سے دھو کہ نہ کھاؤ
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-
142) النّاسُ يَمْدَحونَكَ لِما يَظُنُّونَهُ فيكَ، فَكُنْ أنْتَ ذاماً لنَفسِكَ لِما تَعْلَمُهُ مِنها.
لوگ تمہارے اندر حسن ظن رکھنے کی وجہ سے تمہاری تعریف کریں تو تم اپنے نفس کی مذمت کرو۔ کیونکہ تم اس کی برائی کو جانتے ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جب لوگ تمہاری تعریف کسی ایسی صفت کے ساتھ کریں ، جو تمہارے اندر موجود نہیں ہے۔ تو تم یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی آواز دینے والے فرشتے تمہیں آواز دیتے ہیں۔ اور عمل کی زیادتی کے لئے تم کو مائل اور آمادہ کرتے ہیں ۔ اور وہ تم سے کہتے ہیں :۔ نیکی تمہارے اس مقام سے آگے ہے۔ لہذا تم اس پر قناعت نہ کرو۔ اور کچھ اس مقام پر ہے ، اسی پر مائل نہ رہو۔ بلکہ اپنے نفس کی ملامت اور مذمت کرو ۔ اور لوگوں کی تعریف سے دھوکا نہ کھاؤ۔ کیونکہ وہ لوگ تمہاری ظاہری پاکدامنی اور برائی سے پر ہیز کرنے کے سوا کچھ نہیں جانتے ہیں ۔ اور تم اپنے نفس کے باطنی مغز یعنی پوشیدہ برائی کو جانتے ہو۔ ایک عارف نے فرمایا ہے :۔ جو شخص لوگوں کی تعریف سے خوش ہوا۔ تو بلاشبہ اس نے شیطان کو اپنے پیٹ میں داخل ہونے کا اختیار دے دیا۔
بعض عارفین یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي خَيْرًا مِّمَّا يَظُنُّونَ وَلَا تُوَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ ، وَاغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ)
اے میرے اللہ لوگ میرے بارے میں جو حسن ظن رکھتے ہیں۔ تو مجھے اس سے بہتر بنا دے اور میرے متعلق لوگ جو کچھ کہتے ہیں تو اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کر ۔ اور میرے جن گنا ہوں کو لوگ نہیں جانتے ہیں ۔ تو اُن کو بخش دے۔
اور ہم نے لوگوں کی تعریفوں کو، اللہ تعالیٰ کے ہواتف ( غیبی آواز دینے والے ) اس لئے کہا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا وجود میں کوئی نہیں ہے۔ ( یعنی اس کے سوا کسی کا وجود نہیں ہے )
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ اے ہمارے رب تو نے اس کا ئنات کو بے فائد ہ نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھ رکھنے والے اس آواز کی طرف کان لگاتے ہیں ۔ یعنی توجہ کے ساتھ سنتے ہیں) تو جب وہ اس سے کسی شے کے ساتھ اپنی تعریف سنتے ہیں۔ تو غور و فکر کرتے ہیں۔ اگر وہ شے ان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے لئے شکر کے مقام پر قائم ہونے کے لئے تنبیہ ہے۔
اور اگر وہ اس شے کو اپنے اندر نہیں پاتے ہیں۔ تو سمجھتے ہیں ۔ کہ یہ اُن کے لئے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے تنبیہ ہے۔ اس لئے جب حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ لوگوں سے اس طرح اپنی تعریف کرتے ہوئے سنا۔ کہ وہ تمام رات قیام کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ صرف آدھی رات قیام کرتے تھے ۔ تو وہ تمام رات قیام کرنے لگے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔ جنھوں نے یہ پسند کیا۔ کہ ان کی تعریف ایسے عمل کے ساتھ کی جائے ، جسے انہوں نے نہیں کیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَّيُحِبُّونَ أَن يُحۡمَدُواْ بِمَا لَمۡ يَفۡعَلُواْ فَلَا تَحۡسَبَنَّهُم ‌بِمَفَازَةٍمِّنَ ٱلۡعَذَابِ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيْمٌاور وہ لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان تعریف ایسے اعمال کے ساتھ کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا تو تم ان لوگوں کو ہرگز عذاب سے نجات پانے کے مقام پر نہ سمجھو۔
حضرت محاسبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو شخص غلط تعریف سے خوش ہوتا ہے اس کی مثال :- اس شخص کی طرح ہے جس سے یہ کہا جائے:۔ تمہارے پیٹ سے جو پاخانہ نکلتا ہے اس میں مشک کی خوشبو ہوتی ہے اور وہ یہ سن کر خوش ہو ۔ اور اپنے ساتھ اس مسخرہ پن کو پسندکرے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں