عارفین کی صحبت کا نور کے عنوان سے چودھویں باب میں حکمت نمبر 136 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے عارفین کی صحبت کا فائدہ بیان فرمایا۔ اور وہ یقین کا حاصل ہونا ہے۔
چنانچہ فرمایا :-
136) لَوْ أَشْرَقَ لَكَ نُورُ اليَقِينِ لَرَأْيْتَ الآخِرَةَ أَقْرَبَ إِلَيْكَ مِنْ أَنْ تَرْحَلَ إِلَيْهَا وَلَرَأَيْتَ مَحَاسِنَ الدُّنْيَا وقَدْ ظَهَرَتْ كِسْفَةُ الفَنَاءِ عَلَيْهَا.
اگر تمہارے اندر یقین کا نور روشن ہو جائے۔ تو تم آخرت کو اُس کی طرف سفر کر کے پہنچنے سے ، اپنے زیادہ قریب پاؤ گے۔ اور تم دنیا کی خوبیوں کو اس طرح دیکھو گے۔ کہ ان کے اوپر فنا کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:- یقین – ایسا علم ہے جس میں وہم کی مزاحمت ، اور شک کی آمیزش نہ ہو اور اُس کے ساتھ کوئی گھبراہٹ اور بیقراری نہ ہو۔ یقین کا لفظ یقن النماء سے بنایا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں۔ پانی رُکا ہوا ہے۔ اُس میں کچھ حرکت نہیں ہے۔ یقین کے ساتھ علم کی مشابہت اُس وقت کی جاتی ہے جب اُس کے ساتھ اطمینان ہوتا ہے۔ اور قلب کے اندر اس کے بارے میں کوئی تردد ، اور حرکت باقی نہیں رہتی ہے۔ اور اُس کے نور کا روشن ہونا:- اعضائے جسم پر اُس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ اور اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ اُس کے اندر دنیا سے نفرت ، اور آخرت سے رغبت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کے جمال کے بارگاہ میں پہنچنے کا شوق اور اُس کے جلال کے غلبے کے سامنے خاموشی سے جھک جانا ، اور اُس کی مرضی کی طلب میں دوڑنا اور اُس کی محبت حاصل ہونے کی جگہ کی طرف سبقت کرنا اور اُس کے ذکر سے زبان کو تر رکھنا اور اُس کی عظمت کی فکر میں قلب کو مشغول رکھنا، اور اس کے قرب کی بارگاہ میں داخل ہونے کے لئے روح کا سرگرداں ہونا، اور اُسکی محبت کے شراب سے اُس کا مست ہونا ، اور اس کے قرب کے شہود میں اُس کا غرق ہونا ، یہ حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہی حالات قلب میں یقین کے نور کے روشن ہونے کی علامت ہیں۔ اور یہ بھی اُس کی علامت ہے۔ کہ آجل(دیر میں ہونے والی)عاجل – جلد ہونے والی ) اور دور، نزدیک اور غیب ،شہادت بن جائے۔ إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَاتٍ وَمَا أَنتُمْ بِمُعْجِزِين) در حقیقت جو کچھ تم لوگوں سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ وہ ضرور آئے گا۔ اور تم لوگ عاجز نہ کر سکو گے۔ اور اسی حقیقت کے بارے میں ہمارےمندرجہ ذیل اشعار میں :۔
فَلا تَرْضَى بِغَيْرِ اللَّهِ حُبًّا وَكُنْ اَبَدًا بِعِشْقٍ وَاشْتِيَاقِ
پس تم غیر اللہ سے محبت کرنے کے لئے راضی نہ ہوا۔ اور ہمیشہ عشق اور اشتیاق میں مشغول رہو۔
ترَى الْأَمْرَ الْمُغَيَّبَ ذَاعِيَانِ وتحظى بِالْوِصَالِ وَ بِالتَّلاقِ
تم چھپے ہوئےغیبی امور کو آنکھوں سے دیکھو گے ۔ اور وصال اور ملاقات کا لطف حاصل کرو گے ۔
اور ان دو اشعار کے ساتھ میں نے ایک شاعر کے دو اشعار شامل کئے تھے۔ جو درج ذیل ہیں:۔
فَلا دَهَشَ وَحَام الحَيَّ حَى وَلَا عَطَشَ وَسَاقِي الْقَوْمِ بَاقِ
تو کچھ خوف اور پریشانی نہیں ہے۔ جبکہ زندہ کا مددگار زندہ ہے اور کچھ پیاس نہیں ہے۔ جبکہ قوم کا ساقی باقی ہے۔
فما الدُّنْيَا بِبَاقِيَةٍ لَحَى وَمَا حَيٌّ عَلَى الدُّنْيَا بِبَاقِ
پس دنیا کسی زندہ کے لئے باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اور نہ کوئی زندہ دنیا میں باقی رہنے والا ہے۔ تو اگر یقین کا نور تمہارے قلب میں روشن ہوجائے تو تم آ نے والی آخرت کو اپنے سامنے حاضر دیکھو گے۔ اور اُس کی طرف سفر کر کے پہنچنے سے زیادہ اپنے قریب پاؤ گے۔ کیونکہ وہ تمہاری طرف سفر کرنے والی ، اور تم کو پانے والی ہے۔ اور تم دنیا کی وہمی ، اور فانی خوبیوں کو ایسا دیکھو گے ۔ کہ اُس کے اوپر فنا کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ یعنی اُس کے وجود کا نور ، اُس کی فنا کی ظلمت ظاہر ہونے سے پوشیدہ ہو گیا ہے۔ پھر تم دیکھو گے۔ کہ جو ظا ہر تھا، وہ باطن ہو گیا ہے۔ اور جو باطن تھا ، وہ ظاہر ہو گیا۔ اور جو کثیف تھا ، وہ لطیف ہو گیا ہے اور جو لطیف تھا ، وہ کثیف ہو گیا ہے۔ اور جو غیب تھا شہادت ہو گیا ہے۔ اور جو شہادت تھا، وہ غیب ہو گیا ہے اور یہ مخلوق سے صرف اُن کے ایمان کی کمزوری اور اُن کے یقین کے نور کی کمی کی وجہ سے دور ہے ۔ اگر اُن کے قلوب میں یقین کا نور روشن ہو جائے۔ تو وہ دنیا کی خوبیوں کو پوشیدہ ، اور اُس کے عیوب کو ظاہر دیکھیں گے۔ جیسا کہ اُس کو حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے اُس وقت دیکھا۔ جس وقت انہوں نے اپنے ایمان کی حقیقت بیان کی۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذِ اسْتَقْبَلَهُ شَابٌّ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثَةُ، فَقَالَ أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ تَعَالَى حَقًّا قَالَ: انْظُرْ إِلَى مَا تَقُولُ فَإِنَّ لِكُلَّ قَوْلٍ حَقِيقَةً ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا، فَأَسْهَرْتُ لِيَلِي، وَأَظْمَأْتُ نَهَارِي، فَكَأَنِّي بِعَرْشِ رَبِّي بَارِزًا، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِيهَا، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ يَتَعَارُونَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْصَرْتَ فَالْزَمْ ، وَفِي رِوَايَةٍ: أَصَبْتَ فَالْزَمْ، عَبْدٌ نَوَّرَ اللَّهُ تَعَالَى الْإِيمَانَ فِي قَلْبِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ تَعَالَى لِي بِالشَّهَادَةِ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنُودِيَ يَوْمًا فِي الْخَيْلِ: يَا خَيْلَ اللَّهِ ارْكَبِي، فَكَانَ أَوَّلَ فَارِسٍ رَكِبَ، وَأَوَّلَ فَارِسٍ اسْتُشْهِدَ، فَبَلَغَ أُمَّهُ، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: أَخْبِرْنِي عَنِ ابْنِي، فَإِنْ يَكُ فِي الْجَنَّةِ فَلَنْ أَبْكِيَ، وَلَنْ أَجْزَعَ ، وَإِنْ يَكُنْ غَيْرُ ذَلِكَ بَكَيْتُ مَا عِشْتُ فِي الدُّنْيَا قَالَ: أُمَّ حَارِثَةَ، إِنَّهَا لَيْسَتْ بِجَنَّةٍ، وَلَكِنَّهَا جَنَّةٌ فِي جِنَانٍ، وَالْحَارِثَةُ فِي الْفِرْدَوْسِ الْأَعْلَى ، فَرَجَعَتْ، وَهِيَ تَضْحَكُ، وَتَقُولُ: بَخٍ بَخٍ لَكَ يَا حَارِثَةُ
اس درمیان میں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ چل رہے تھے ۔ کہ انصار میں سے ایک نو جوان آپ کے سامنے آئے۔ تو حضرت نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : اے حارثہ تم نے کس حال میں صبح کی؟ حضرت حارثہ نے جواب دیا :- میں نے اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان رکھتے ہوئے صبح کی ۔ پھر حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جو کچھ کہہ رہے ہو ۔ اس پر غور کرو۔ کیونکہ ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ تو تم یہ بتاؤ کہ تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟
تو حضرت حارثہ نے جواب دیا: یارسول اللہ ! میرا نفس دنیا سے رک گیا ہے۔ یعنی منہ پھیر لیا۔ اور بھاگ گیا ہے۔ تو میں رات کو جاگتا ہوں۔ اور ون میں پیاسا (روزہ) رہتا ہوں ۔ تو گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کے سامنے موجود ہوں۔ اور گویا کہ میں اہل جنت کو جنت میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دوزخ میں شور و فریاد کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ تو حضرت رسول اللہ ﷺ نے اُن سے فرمایا :- تم نے حقیقت کو دیکھ لیا ہے۔ تو اب اس حالت پر مضبوطی سے قائم رہو۔ تم ایک ایسے بندے ہو۔ جس کے قلب میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو روشن فرمادیا ہے۔ حضرت حارثہ نے کہا :- یا رسول اللہ ! آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے شہادت پانے کی دعا فرمائیے ۔ پس حضرت رسول اللہ نے اُن کے لئے دعا فرمائی تو وہ جنگ بدر کے دن شہید ہو گئے۔ پھر ان کی والدہ حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور دریافت کیا: یا رسول اللہ ! آپ کو میرےبیٹےحارثہ کا مرتبہ معلوم ہے۔ پس اگر وہ جنت میں ہے۔ تو میں صبر کروں۔ اور اگر وہ جنت میں نہیں ہے تو بتائیے ، میں اُس کے لئے کیا کروں ۔ حضرت نے فرمایا : کیا تم بے اولاد ہو گئی ہو۔ یا کیاتمہارا بیٹا گم ہو گیا ہے؟ ایک جنت کی کیا حقیقت ہے؟ اس کے لئے بہت کی جنتیں ہیں۔ بیشک تمہارا بیٹا فردوس اعلی میں پہنچ گیا ہے۔ تو وہ ہنستی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی واپس ہوئیں۔ شاباش ، شاباش ، اے حارثہ اور جیسا کہ اس حقیقت کو حضرت معاذ بن جبل نے دیکھا۔ جب وہ روتے ہوئے حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آنحضرت نے اُن سے دریافت فرمایا :- كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا مُعَاذُ فَقَالَ: أَصْبَحْتُ بِاللَّهِ مُؤْمِنًا حَقًّا، قَالَ: إِنَّ لِكُلِّ قَوْلٍ مِصْدَاقًا، وَلِكُلِّ حَقٍّ حَقِيقَةً، فَمَا مِصْدَاقُ مَا تَقُولُ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا أَصْبَحْتُ صَبَاحًا قَطُّ إِلَّا ظَنَنْتُ أَنِّي لَا أُمْسِي، وَمَا أَمْسَيْتُ مَسَاءً قَطُّ إِلَّا ظَنَنْتُ أَنِّي لَا أُصْبِحُ، وَلَا خَطوْتُ خُطْوَةً إِلَّا ظَنَنْتُ أَنِّي لَا أُتْبِعُهَا أُخْرَى، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى كُلِّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٍ، كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا، مَعَهَا نَبِيُّهَا وَأَوْثَانُهَا الَّتِي كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عُقُوبَةِ أَهْلِ النَّارِ، وَثَوَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: «عَرَفْتَ فَالْزَمْ»
اے معاذ ! تم نے کس حال میں صبح کی؟ حضرت معاذ نے جواب دیا :- میں نے ایمان کی حالت میں صبح کی ۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ہر بات کے لئے ایک مصداق ، سچائی کو پرکھنے کی کسوٹی) اور ہر حق کے لئے ایک حقیقت ہے۔ لہذا جو تم کہہ رہے ہو ۔ اس کی سچائی کا مصداق کیا ہے؟ تو حضرت معاذ نے جواب دیا : یا رسول اللہ ! کسی دن بھی جب میں صبح کرتا ہوں۔ تو میں یہ گمان کرتا ہوں۔ کہ میں شام تک زندہ نہ رہوں گا ۔ اور جب میں شام کرتا ہوں ۔ تو میں یہ گمان کرتا ہوں۔ کہ میں صبح تک زندہ نہ رہوں گا۔ اور جب چلنے کیلئے ایک قدم اٹھاتا ہوں، تو میں خیال کرتا ہوں۔ کہ اس کے بعد دوسرا قدم نہ اٹھا سکوں گا۔ اور گویا کہ میں ہر امت کو دیکھ رہا ہوں۔ کہ وہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہر امت اپنے اعمالنا مے کی طرف بلائی جارہی ہے۔ اس حال میں کہ اُس کے ساتھ ، اُس کے نبی علیہ السلام ہیں۔ اور وہ بت ہیں۔ جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرنے لگی تھی۔ اور گویا کہ میں اہل دوزخ کے عذاب ، اور اہل جنت کے ثواب کو دیکھ رہا ہوں۔ تو حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا :- تم نے حقیقت کو پالیا ہے۔ تو اب اس پر ثابت قدمی سے قائم رہو۔
یہ دونوں حضرات انصاری تھے ۔ جن کے قلوب میں یقین کا نور روشن ہوا تھا۔ اور اس کےذریعے اللہ تعالیٰ نے اُن کے سینوں کو کھول دیا تھا۔ تو انہوں نے جو واقعہ دیر میں ہونے والا ہے، اُس کو فورا دیکھ لیا۔ اور جو حال آئیندہ پیش آنے والا ہے۔ اُس کو سامنے موجود دیکھا۔
اور حدیث شریف میں حضرت رسول اللہ ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔ حضرت نےارشاد فرمایا۔
إِنَّ النُّورَ إِذَا دَخَلَ الصَّدْرَ انْفَسَحَ ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لِذَلِكَ مِنْ عَلَامَةٍ تُعْرَفُ بِهِ قَالَ: نَعَمْ، التَّجَافِي عَنْ دَارِ الْغُرُورِ، وَالْإِنَابَةُ إِلَى دَار ِالْخُلُودِ، وَالِاسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِهِ أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامِ
بیشک یقین کا نور جب قلب میں داخل ہوتا ہے ۔ تو اُس کا سینہ کھل جاتا ، اور کشادہ ہو جاتا ہے۔۔
دریافت کیا کیا گیا: یا رسول اللہ ! کیا اس کی کوئی ایسی نشانی ہے۔ جس سے یہ حالت پہچانی جائے؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، دھوکا کے گھر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا، اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے گھر آخرت کی طرف مائل ہونا، اور موت کے لئے اُس کے آنے سے پہلے تیار رہنا ہے۔ یا جیسا حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :-
حضرت احمد بن عاصم انطا کی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:۔ یقین۔ ایک ایسا نور ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے قلب میں روشن کرتا ہے۔ یہانتک کہ وہ اس کے ذریعے اپنی آخرت کے معاملات کو مشاہدہ کرتا ہے۔ اور اُس نور کے ذریعے کل حجابات ، جو اس کے ، اور آخرت کے درمیان میں چاک ہو جاتے ہیں۔ یہانتک کہ وہ آخرت کو سامنے دیکھنے والے کی طرح دیکھتا ہے
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی