پیدائش اور متصل امداد کے عنوان سے باب دہم میں حکمت نمبر 98 اور 99 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے خاص طور پر اس کو خطاب کیا ہے۔ جیسا کہ اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا:
98) أَنْعَمَ عَلَيْكَ أوَّلاً بِالإيجَادِ ، وَثَانِيَا بِتَوَالِي الْإِمْدَادِ .
للہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر پہلے تم کو پیدا کر کے ، اور دوبارہ تم کو متواتر و متصل امداد پہنچا کر انعام کیا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: توالی امداد تواتر اور متصل امداد ہے۔ خواہ وہ محسوس ظاہری ہو، خواہ باطنی۔ پس تم ہر گھڑی اور ہر لمحہ اپنے قلب اور جسم کے لئے اللہ تعالیٰ کی امداد کے محتاج ہو ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا:۔
99) فَاقَتُك لَكَ ذَاتِيَّةٌ ، وَوُرُودُ الأَسْبَابِ مُذَكِّرَةٌ لَكَ بِمَا خَفِيَ عَلَيكَ مِنْهَا والفَاقَةُ الذَّاتِيَّةُ لا تَرْفعُهَا العَوَارِضُ.
تمہاری محتاجی تمہارے لئے ذاتی حقیقی ہے ۔ اور اسباب کا وارد ہونا تمہیں اس چیز کو یاد دلانے والا ہے جو اس میں سے تمہارے اوپر پوشیدہ ہے۔ اور ذاتی محتاجی کو عوارض (اسباب) دورنہیں کر سکتے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ذاتی محتاجی اصلی حقیقی محتاجی ہے۔ اور جو اسباب اس کو حرکت دینے والےہیں۔ وہ جلالی واردات ہے۔ اور ہر وہ شے جو نفس پر غالب آ جاتی ہے۔ اور اس کو اس کے فوائد اور ان تصرفات سے جن کا وہ عادی ہے ، روک دیتی ہے۔ اور حقیقت ہماری محتاجی ذاتی ہے۔ وہ ہم سے ایک گھڑی کے لئے جدا نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہماری خلقت ظاہر اور باطن سے مرکب ہے۔ اور باطن کے بغیر ظاہر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور باطن : وہ ربوبیت کے اسرار ہیں۔ جو اشیاء کے ساتھ قائم ہیں۔ پس ہمارے اجسام ایجاد کی نعمت کے بعد امداد کی نعمت کے ہر لمحہ محتاج ہیں اور حکمت ، قدرت کے ساتھ ۔ اور بشریت، روحانیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور روح:۔ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
قُلِ ٱلرُّوحُ مِنۡ أَمۡرِ رَبِّي آپ فرمادیجئے ! روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔
پس بدن روح کے ساتھ قائم ہے اور روح اللہ تعالیٰ کے حکم میں سے ایک حکم ہے۔ اور ہرشے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہے۔ پس بشریت، ہمیشہ روحانیت کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایجاد کی نعمت کے بارے میں فرمایا ہے:
يا أَيُّهَا النَّاسُ انتُمُ الْفُقَرَاء إلى الله، والله هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اے انسانوں! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہی بے نیاز اور تعریف کےلائق ہے۔ پس یہ ایجاد کی نعمت کی محتاجی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے امداد کی نعمت کے بارے میں فرمایا: انْ يَّشَايُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ اگر اللہ تعالیٰ چاہے، تو تم لوگوں کو لے جائے یعنی فنا کر دے۔ اور ایک نئی مخلوق لے آئے یعنی پیدا کر دئے ۔
اور یہ امداد کی نعمت کے لئے ہماری محتاجی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بقیہ عالم کی محتاجی کے بارے میں فرمایا ہے: (إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ أَنْ تَزُولاً) بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ سے ملنے اور گرنے سے روکے ہوئے ہے ۔
پس کل مخلوق ربوبیت کے حکم سے قائم ، اور اس کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ اور ربوبیت کے بغیر کوئی مخلوق قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ حضرت شیخ ابو مدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے قائم اور فاعل ہے۔ اور مخلوق امداد کی محتاج اور طالب ہے ۔ اور مادہ:۔ عین جود سے ہے۔ تو جب باطن کا مادہ منقطع ہو جاتا ہے۔ وجود منہدم یعنی فنا ہو جاتا ہے۔ اور وجود، سے مراد محسوس کا ظاہر ہونا ہے۔ اور عین حقیقت لطیفہ قدیمہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے قائم ہے۔ اور اس کی تجلیات کا ظہور، اس کی صفات کے باطن سے امداد طلب کرتا ہے۔ اور اشیاء کا مادہ ، عین جود سے ہے۔ اور وہ ایجاد اور امداد کی نعمت ہے۔ پس جب باطن کا مادہ محسوس سے منقطع ہو جاتا ہے تو محسوس یعنی مخلوق کمزور اور فنا ہو جاتی ہے۔ تو اگر اس کی صفات ظاہر ہو جائیں تو کل مخلوقات کمزور اور فنا ہو جائیں ۔
پس اے انسان! تیری محتاجی ذاتی: یعنی اصلی حقیقی ہے۔ لیکن وہ پوشیدہ ہے۔ اور اس پوشیدہ محتاجی کے ظہور کے لئے حرکت دینے والے اسباب کا وارد ہونا تم کو تمہاری محتاجی کی یاد دلانے والا ہے۔ جو تم سے پوشیدہ ہے۔ اور حرکت دینے والے اسباب سختیاں ہیں۔ اور ہر وہ چیز ہے، جو تم کو تمہارے مولائے حقیقی کی حفاظت اور پناہ میں لے جائے۔
یعنی یہ کہ تیری محتاجی تجھ سے جدا نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ ہر لمحہ تو اس ذات سبحانہ کا محتاج ہے۔ جو وجود ( ظہور ) کے ساتھ ہی تیری مدد کرتا ہے۔ مگر وہ پوشیدہ ہے۔ اس لئے تو اسے یاد نہیں رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ظاہر ہونے کے اسباب مثلا فتنے اور امراض وغیرہ تیرے اوپر لاحق ہو جائیں۔ اور اصلی ذاتی محتاجی کو عوارض دور نہیں کر سکتے ہیں۔ اور عوارض : ۔ تندرستی ، اور آرام ہیں۔ پس جب تک بندہ آرام میں ہے۔ اس کی محتاجی پوشیدہ ہے۔ عارفین کے سوا دوسرے لوگ اس کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ عارفین کی مجبوری اور محتاجی زائل نہیں ہوتی ہے۔ پس جب بندے پر جلال ، یا حرکت دینے والا کوئی سبب واقع ہوتا ہے۔ تو اس کی محتاجی ظاہر، اور اس کی مجبوری ثابت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اس کا ظاہر اور باطن ہمیشہ محتاجی میں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
پھر یہ کہ کسی شے کا اپنی اصل کی طرف لوٹنا پسندیدہ ہے۔ اور اپنی اصل سے دور ہونے میں کچھ بھلائی نہیں ہے۔ اور اے انسان! تیری اصل: محتاجی ، اور مجبوری اور ذلت ، اور عاجزی ہے ۔