احسان وقہرمیں لطف وکرم (باب  دہم)

احسان وقہرمیں لطف وکرم کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 93 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی مدد اس کا فضل و کرم ، اور لطف و احسان ہے اور وہ طاعت کرنے والوں پر ہروقت اور ہر آن جاری رہتی ہے۔ خواہ وہ ظاہر میں ان کو عطا فرمائے ، یا محروم کرے ۔ اور خواہ ان کو بسط کی حالت میں رکھے، یا قبض کی حالت میں۔ اور یہ اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی سمجھ رکھتا ہے، ظاہر ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا:
93) مَتَى أَعْطَاكَ أَشْهَدَكَ بِرَّهُ ، وَمَتَى مَنَعَكَ أَشْهَدَكَ قَهْرَهُ ، فَهُوَ فِى كُلِّ ذَلِكَ مُتَعَرِّفٌ إِلَيْكَ ، وَمُقْبِلٌ بِوُجُودِ لُطْفِهِ عَلَيْكَ.
جب اللہ تعالیٰ تم کو عطا کرتا ہے تو تم کو اپنے احسان کا مشاہدہ کراتا ہے اور جب تم کو محروم کرتا ہے تو تمہیں اپنے قہر کا مشاہدہ کراتا ہے۔ پس وہ ان دونوں حالتوں میں تمہیں اپنا تعارف کراتا ہے اور اپنے لطف و کرم کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں لطیف اور رحیم ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر حال میں بندوں کے لئے لطف کرنے والا ، اور اپنی مخلوق پر رحم کرنے والا ہے۔
برابر ہے کہ ان کو عطا فرمائے ، یا ان کو محروم کر دے اور برابر ہے کہ ان کو بسط کی حالت میں رکھے، یا قبض کی حالت میں ۔ پس اگر ان کو عطا کرتا ہے یا بسط کی حالت میں رکھتا ہے تو ان کو اپنی مہربانی اور احسان کا مشاہدہ کراتا ہے۔ تو وہ لوگ یہ معرفت حاصل کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان کرنے والا ، اور اپنی مخلوق پر لطف کرنے والا ، رحیم وکریم بخشش کرنے والا ، بھلائی کرنے والا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ اور ان کا شوق اور اشتیاق اس کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور ان کی شکر گزاری میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کی نعمت میں بھی زیادتی ہوتی ہے اور پھر اس سلسلہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات وانعامات ہوتے ہیں جس سے زیادہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اگر ان کومحروم یا قبض کی حالت میں کرتا ہے تو ان کو اپنے قہر اور بڑائی کا مشاہدہ کراتا ہے تو وہ جان لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قہار، کبیر، عظیم جلیل ہے۔ تو وہ اس کے غلبے سے ڈر جاتے ہیں اور اس کے خوف سے پگھل جاتے ہیں۔ اور اس کے قہر کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ تو ان کی بندگی ہمیشہ رہتی ہے۔ اور ان کے گناہ کم ہوتے ہیں۔ اور ان کی برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ اور ان کی خطائیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ پس وہ قیامت کے دن ہلکے پھلکے ، پاک وصاف، خوش و خرم ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر دو خوف ، اور دو امن جمع نہیں کرتا تو جس شخص کو وہ اس دنیا میں خوف دیتا ہے اس کو قیامت کے دن امن عطا کرے گا۔ اور جس کو اس دنیا میں امن عطا کرتا ہے تو وہ دھوکے میں پڑ جاتا ہے۔ اس کو قیامت کے دن خوف میں مبتلا کر دیگا۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
پس اے بندے! تم اپنے رب کو منع اور عطا میں اتہام نہ لگا۔ کیونکہ جب وہ تم کو عطا کرتا ہے۔ تو تم کو اپنے احسان اور رحم و کرم کا مشاہدہ کراتا ہے۔ تو تم اس کے ذریعے سے پہچان لیتے ہو کہ وہ روف اور رحیم و کریم ہے۔ کہ تم اس کی کشش اور کرم سے متعلق ہو جاتے ہو۔ نہ کہ اس کے غیر کے ساتھ۔ تو تم طمع کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہو۔ اور غم اور پریشانی تم سے دور ہو جاتی ہے۔اور تم بھی رحم و کرم ، اور احسان کی صفت سے موصوف ہو جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے خلق سے آراستہ ہو جائے ۔
حدیث شریف میں ہے: تَخَلَّفُوا بِاخْلَاقِ الرَّحْمَنِ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے آراستہ ہو جاؤ۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے: كَانَ خُلْقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ رسول اللہ ﷺ کاخلق قرآن ہے
اور قرآن میں اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں۔ تو گویا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ فرمایا: حضرت رسول کریم ﷺ کے اخلاق ، اللہ تعالیٰ کے اخلاق ہیں۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احترام، اور ربوبیت کی ادب کا لحاظ کیا ۔
اور جب تم کو محروم کرتا ہے یا قبض کی حالت میں کرتا ہے تو تم کو اپنے قہر اور کبریائی کا مشاہدہ کراتا ہے۔ تو تم پہچانتے ہو۔ کہ وہ قہار و جبار ہے۔ تو تمہارا خوف بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تمہاری حیاء اورہیبت زیادہ ہوتی ہے۔ پس لامحالہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعظیم و تکریم کرتا ہے ۔ اور تمہاری حفاظت کرتا ہے اور وہ تم سے اسی طرح شرم کرتا ہے جس طرح تم اس سے شرم کرتے ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اسی منزل میں اتارتا ہے۔ جس منزل میں اس نے اللہ تعالیٰ کو اپنے نزدیک رکھا ہے اور بندہ اپنے رب کی طاعت ، اس کی معرفت اور خوف کے مطابق کرتا ہے۔
پس اللہ سبحانہ تعالیٰ ان سب عطا و منع ، اور قبض وبسط میں تمہیں اپنا تعارف کراتا ہے، یعنی تم سے اس بات کا طالب ہے کہ تم اس کی صفات اور اسماء کے ذریعہ اس کی معرفت حاصل کرو۔ اور اسمائے باری تعالیٰ میں سے ہر اسم اپنے مفہوم اور منشاء کے ظاہر ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کا اسم پاک کریم عطا اور احسان کا تقاضا کرتا ہے۔ اور وہ اس کی مخلوق میں ظاہر ہے اور اس کا اسم پاک مانع منع کے ظاہر ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ تو یہ اس کے بندوں میں ظاہر ہے اور اس کا اسم پاک مستقیم ایسے لوگوں میں ظاہر ہونے کا تقاضا کرتا ہے جن کا منہ اس نے اپنی مخالفت کی طرف پھیرا۔ اور اس کا اسم پاک قہار ایسے لوگوں میں ظاہر ہونے کا تقاضا کرتا ہے جن پر وہ قہر و غضب منع کی صورت میں، یا کسی دوسری صورت میں، جس طرح وہ چاہے کرتا ہے اور اس کا قہر اس کے بندوں میں موت کی شکل میں بھی ظاہر ہوا تو یہ اس کے اسم پاک قہار کے تقاضوں سے ہے اور اسی طرح ہر اسم پاک مخلوق میں اپنے ظہور کا تقاضا کرتا ہے اور کل اسمائے حسنی باری تعالیٰ کا ظہور بنی آدم ( آدمیوں ) ہی میں مشیت الہٰی ہے۔ تو جب عطا اور منع کی حالت میں تم نے اس حقیقت کا یقین کر لیا تو تمہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف ، اور احسان کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہے۔ کیونکہ وہ ہرشے میں تمہیں اپنا تعارف کراتا ہے۔ اور ہر صورت میں تمہارے اوپر توجہ کر رہا ہے۔ تو تم بھی ہر حال میں اس کی معرفت طلب کرو۔ اور جلال و جمال میں اپنے اوپر اس کا احسان پہچانو ۔ اور پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ اور اپنی روح ، اور جسم کے ساتھ اس کے قہر کے سامنے سر تسلیم خم کر دو تو تم اس کےحقیقی بندے ہو جاؤ گے اور وہ تمہارا حقیقی اور سچا رب ہوگا ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اس حکمت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دارو مدار صرف روحانی قوت پر ہے جو جلال اور جمال میں پہچاننے والی قوت ہے نہ کہ قوت بشری پر ۔ اس لئے کہ قوت بشری سے محروم کرنے ہی میں بندے کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ وباللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں