بندگی میں سچائی (باب  نہم)

بندگی میں سچائی

بندگی میں سچائی کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر79 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ جو شخص کسی چیز کی امید کرتا ، اور اکثر اس کی خواہش کرتا ہے تو وہ اس کو طلب کرتا ہے۔ لہذا حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بندے کو جو کچھ امید اور طلب کرنی چاہیئے ۔ اس میں افضل اور بہتر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
79مَطْلَبُ العَارِفين مِنَ اللهِ الصِّدْقُُ فِي العُبُوديَّة ، والقِيَامُ بِحُقُوقِ الرُّبُوبَّية.
اللہ تعالیٰ سے عارفین کا مطلوب و مقصود، بندگی میں سچائی اور ربوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم ہونا
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں عارفوں کا مقصود و مطلوب بندگی میں سچائی کا ثابت ہونا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ان میں دنیا اور نفس کا کچھ شائبہ باقی نہ رہے اس لئے کہ مکاتب (تحریر شد و آزاد ) ایسے نام کو کہتے ہیں جس کے ذمہ ایک درم بھی باقی نہ ہو۔ تو جب تک بندہ اپنے کو گھیرنے والی چیزوں (دنیاوی فوائد ) میں گرفتار ہے اور اپنی ذات کے بت خانہ میں گھرا ہوا ہے اس سے فوائد جدا نہیں ہوتے خواہ وہ فوائد دنیاوی ہوں یا اخروی ۔ پس اس وقت تک اس کی بندگی اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کے اندر اپنے فوائد اور خواہشات کی بندگی قائم ہے تو وہ اس کی بندگی میں سچا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے نفس کے فائدے کاغلام ہے۔ تو جب وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں تو اس کے فوائد اور خواہشات اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ پس اس کی بندگی متفق یعنی درست نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ مخلوقات سے آزاد ہو جائے ۔ اور اہل عرفان میں سے آزاد لوگوں کے مقام پر ثابت قدی اور مضبوطی سے جم جائے تو اس وقت وہ مکمل اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اور اس کے ماسوا سے آزاد ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ ضَرَبَ اللهُ مَثَلا رجُلاً فِيهِ شَرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ) اى مُتَخَاصِمُونَ (وَرَجُلًا سَلَماً لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلاً
اللہ تعالیٰ ایک ایسے غلام کی مثال بیان کرتا ہے۔ جس کے مالک ہونے میں کئی مختلف مزاج اشخاص شریک ہیں اور اس غلام کے بارے میں ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ اور ایک ایسے غلام کی مثال بیان کرتا ہے جومکمل صرف ایک شخص کا غلام ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں ۔ یعنی یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے ، اس لئے کہ ایک آقا کا خالص اور مکمل غلام، مشترک غلام سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ، زیادہ عزیز ، اور زیادہ مقرب ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا مسلم اور خالص بندہ اپنے مولائے حقیقی کی محبت سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَعِسَ (ای خاب او خسر)عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ ‌الْخَمِيصَةِ إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ ‌تَعِسَ وَانْتَكَسَ وَإِذَا شِيكَ فَلَا انْتَقَشَ
دینار اور درہم، اور کھانے کپڑے کا بندہ نا کام اور تباہ ہوا۔ جب اس کو عطا کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جب نہیں عطا کیا جاتا ہے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ وہ تباہ ہوا۔ اور اوندھے منہ گرا۔ اور جب اس کو کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ نہیں نکالتا ہے ۔ یعنی جب اس کو کوئی کانٹا چھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو نہ نکالے گا۔ اور یہ اس شخص کے لئے بددعا ہے۔ جو اپنی خواہشات پر اوندھے منہ گر کر فائدہ اٹھاتا ، اور اس سے نہ نکلتا ہو۔
حضرت ابوسلیمان دارانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اس شخص کے درمیان جو حور و قصور چاہتا ہے اور اس شخص کے درمیان جو اللہ تعالیٰ کا حضور ، اور اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان سےحجاب دورکرنا چاہتا ہے، بہت بڑا فرق ہے۔
اس بناء پر عارفین کا مقصود و مطلوب اپنی خواہشات کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے مولائے حقیقی کی بندگی میں ثابت و قائم ہوتا ہے۔ اور ادب و تنظیم کے ساتھ ربوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم ہونا ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ جب تک ربوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم ہونا حاصل نہ ہو۔ بندگی میں سچائی ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ نفس جب اپنے فوائد چھوڑ کر مر جاتا ہے۔ تو روح زندہ ہوتی ہے۔ اور روح جب زندہ ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو پہچانتی ہے۔ اور جب پہچانتی ہے تو یقین کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے جلال کی ہییت کے سامنے جھک جاتی ہے۔ اور یہی ربوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم ہونا ہے۔ اور یہی عارفین کی مراد، اور سائرین کا مقصود ، اور مریدین و طالبین کا نصب العین ہے۔
بعض عارفین سے دریافت کیا گیا: عارف کی مراد کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا جو اس کے معروف یعنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ یعنی عارف اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سوا کوئی ارادہ نہیں کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے سوا کچھ تمنا نہیں کرتا ہے۔
بعض عارفین سے پوچھا گیا: آپ کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے پس اس طریقے سے عارف کے لئے اس کی فنا ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کی فنا ثابت ہونے کے ساتھ اس کی بقاء ثابت ہوتی ہے۔ کسی عارف کا شعر ہے:
لو قِيلَ مَا تَمَنَّى وَالْعَبْدُ يُعطى مناه لقلتُ منْية قلبي في بقاہ
اگر مجھ سے پوچھا جائے تمہاری تمنا کیا ہے۔ اور یہ یقین ہو کہ بندے کی تمناپو ری کی جائے گی تو میں کہوں گا میرے دل کی تمنا اس کا باقی رہنا ہے۔ یعنی اس کا اپنے مولائے حقیقی کے ارادہ کے ساتھ باقی رہتا ہے ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
پس جب بندہ اللہ تعالیٰ سے وہی چیز طلب کرتا ہے۔ جس چیز کا طالب اس سے اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی طاعت کے کمال کی طرف متوجہ ہونے کے ساتھ، اس کے ظاہر کی استقامت اور گزری ہوئی غفلتوں پر افسوس ، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں اس کے باطن کی استقامت اور اس کے مشاہد ہ میں فنا ہونا تو اس کا ظاہر بندگی کے وظیفوں کے ساتھ قائم ، اور اس کا باطن ربوبیت کے حقوق میں ثابت ہو جاتا ہے۔ پھر جب بندہ مطلوب کی قبولیت اور تمنا و مرغوب کے حاصل ہونے کو محسوس کرتا ہے تو اس کا قلب خوش ہوتا ہے۔ اور اس کی روح تازہ ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ اقبال (سامنے ہونے ) کی نسیم (ہلکی و خوشگوار ہوا) اور وصال کی خوشبو کو سونگھتا ہے۔ تو اس کے اوپر مسلط کی حالت طاری ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات بسط اس کو اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ سے روک دیتی ہےتو اللہ تعالیٰ اس کو بسط کی حالت سے نکال کر قبض کی حالت میں کر دیتا ہے۔ پھر اس کو ان دونوں حالتوں (بسط وقبض ) سے نکال کر اپنی طرف کوچ کراتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں