طمع ذلت کی شاخ کے عنوان سے باب ہفتم میں حکمت نمبر60 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
باب ہفتم
قلب کی ذلت، بلندی ہمت حسن آداب خدمت کے بیان میں ضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
60) ما بَسَقَتْ أَغْصانُ ذُلٍّ إلّا عَلى بَذْرِ طَمَعٍ.
ذلت کی شاخیں لمبی نہیں ہوتی ہیں مگر حرص کے بیج سے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جو کچھ مخلوق کے ہاتھوں میں ہے، اس کے ساتھ قلب کے تعلق ہونے ، اور غیر اللہ کی طرف توجہ ہونے کو حرص کہتے ہیں۔ اور یہی ذلت کے درخت کی جڑ ہے۔ یعنی ذلت کے درخت کی شاخیں صرف حرص کے ذریعہ لمبی ہوتی ہیں ۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی نے فرمایا ہے :۔ اللہ کی قسم! میں نے حقوق سے ہمت بلند کرنے (اٹھا لینے ) ہی میں عزت دیکھی ہے۔ اور در حقیقت حرص ہی ذلت کی جڑ ہے۔ کیونکہ حریص نے اللہ غالب و برتر کو ترک کر کے ذلیل بندے کے ساتھ تعلق قائم کیا۔ تو وہ بھی اس کی طرح ذلیل ہو گیا۔ اورسخی اللہ تعالیٰ کو ترک کر کے محتاج بندے سے تعلق پیدا کیا۔ تو وہ بھی اسی کی طرح محتاج ہو گیا۔ اللہ غنی وکریم کی طرف اپنی ہمت کے بلند کرنے کو ترک کیا۔ اور حقیر و کمینہ مخلوق کی طرف اپنی ہمت کو جھکایا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی ہمت کے مطابق ہی روزی دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اس کے ماسوا سے آزاد بندہ ہوتے ہوئے مخلوق کا اور اپنے نفس اور اس کی خواہشات کا بندہ ہو گیا۔ کیونکہ جب تم نے کسی شے کی محبت ، اور اس میں حرص کی تو تم اس کے بندے ہو گئے۔ اور جب تم نے کسی شے سے اپنے کو نا امید کر لیا۔ اور اپنی ہمت کو اس سے اٹھا لیا ۔ تو تم اس سے آزاد ہو گئے ۔ اور اسی کے متعلق ایک شاعر نے اشعار کہا ہے:۔
اَبَتِ الْمَطَامِعُ أَنْ تَهَشَّمَنِي إِنِّي لِمِعْوَلِهَا صَفًّا صَلْدُ
طمع کے مقامات نے مجھ کو مجبور اور عاجز کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ میں ان کے بسولے (اوزار)کے لئے بے گھاس کا چٹیل میدان ہوں ۔
الْعَبْدُ حُرِّ ما عصى طمعاً وَالْحُرُّ مَهمَا طَاعَہٗ عَبْدٌ
جب طمع کی نافرمانی کی تو غلام آزاد ہو گیا ۔ اور جب طمع کی فرماں برداری کی تو آزاد غلام ہو گیا۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے:۔ اے بندے تم ابرا ہیمی ہو جاؤ ۔ اور تمہارے باپ حضرت ابراہیم نے فرمایا: لَا أُحِبُّ الْأَفِلِينَ میں ڈوبنے یعنی فنا ہونے والوں کی محبت نہیں کرتا ہوں۔ اور کل ماسوی اللہ فانی ہے۔ خواہ موجودہ حال میں ہو، یا امکانی مستقبل میں ہو۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:۔ (مِلَّةَ آبِیكُمْ إِبْرَاهِيمَ) اس نے تمہارے باپ ابراہیم کے دین کو پسند کیا ۔ پس مومن پر ملت ابراہیمی کی پیروی کرنی واجب ہے۔ اور مخلوق سے ہمت کو اٹھا لینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے۔ کیونکہ جس روز ان کومنجنیق میں رکھ کر آگ میں پھینکا گیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کے سامنے آئے اور فرمایا: کیا آپ کی کوئی حاجت ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ۔ اگر آپ اپنے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ سے میری کوئی حاجت نہیں ہے۔ اور اگر آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ہاں ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا :۔ تو اللہ تعالیٰ سے مانگئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا۔ میرے مانگنے سے ، اس کو میرے حال کا علم ہونا ہی میرے لئے کافی ہے۔
پس غور کرو۔ حضرت ابراہیم نے اپنی ہمت مخلوق سے کس طرح اٹھائی۔ اور بادشاہ حقیقی کی طرف اس کو متوجہ کیا۔ کہ نہ جبرائیل سے فریاد کی ۔ نہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کو جبرائیل سے اور اپنے سوال سے زیادہ اپنے قریب دیکھا۔ تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو نمرود اور اس کے عذاب سے محفوظ رکھا۔ اور اپنی بخشش اور فضل سے ان پر انعام کیا۔ اور اپنے سامنے ہو نے کی وجہ سے ان کو غالب کیا ۔پس اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی کل چیزوں سے دشمنی اور نفرت کرنی ، اور محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمت پھیرنی حضرت ابرا ہیم کی ملت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق فانهُ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ بے تک اللہ رب العالمین کے سواوہ سب میرے دشمن ہیں۔
اور غنا کے متعلق اگر تم معلوم کرنا چاہتے ہوتو وہ ما سوئی سے نا امید ہو جانے میں ہے۔ حضرت شیخ ابو الحسن نے فرمایا ہے:۔ میں اپنے نفس کے لئے اپنے فائدے سے نا امید ہو چکا ہوں ۔ تو دوسرے کے فائدے سے اس کے نفس کے لئے میں کیوں نا امید نہ ہوں گا۔ اور اگر اپنے غیر کے لئے میں نے امید کیا تو اپنے لئے کیوں نہ امید کروں گا ۔ اور یہی وہ کیمیا اور اکسیر ہے کہ جس کو حاصل ہو گیا۔ اس کو ایسی غنا حاصل ہوئی جسمیں فنا نہیں ہے اور ایسی عزت حاصل ہوئی جسکے ساتھ ذلت نہیں ہے اور ایسا خرچ کرنا حاصل ہوا جس کا ختم ہو نا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ اللہ کے متعلق سمجھ رکھنے والوں کا کیمیا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے:۔ ایک آدمی نے میرے ساتھ صحبت اختیار کی ۔ اور وہ میرے لئے بار گراں تھا۔ لیکن میں اس سے خندہ پیشانی سے پیش آیا۔ تو وہ خوش ہوا۔ میں نے اس سے دریافت کیا: اے صاحبزادے تمہاری کیا حاجت ہے۔ اور تم نے کیوں میری صحبت اختیار کی ہے؟ اس نے کہا: میرے بزرگ ! مجھ کو لوگوں نے بتایا ہے کہ آپ کیمیا جانتے ہیں ۔ تو میں اس کے سیکھنے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں نے اس سے کہا تم نے صحیح کہا۔ اور جن لوگوں نے تم کو خبر دیا۔ انہوں نے بھی سچ کہا۔ لیکن تمہارے متعلق میرا خیال یہ ہے کہ تم اس کو قبول نہ کرو گے ۔ اس نے کہا میں ضرور قبول کروں گا۔ تو میں نے کہا : میں نے مخلوق کی طرف دیکھا۔ تو ان کو دو قسم پرپایا ۔دشمن اور دوست پھر میں نے دشمنوں کی طرف دیکھا تو مجھے معلوم ہوا۔ ان کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا کا نٹا مجھے چبھا ئیں جس کے چبھانے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا ہے۔ تو میں نے ان کی طرف سے اپنی نگاہ پھیر لی۔ پھر میں نے دوستوں سے تعلق قائم کیا۔ تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھ کو کسی ایسی چیز کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں جس کے فائدہ پہنچانے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے نہیں کیا ہے۔ تو میں اپنے اپنی امیدان سے منقطع کر لی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کیا ۔ تو مجھ سے کہا گیا: ۔ تم اس امر کی حقیقت تک نہیں پہنچو گے۔ جب تک جیسے تم نے ہمارے غیر سے امید کو منقطع کیا ہے۔ ہم سے بھی اپنی یہ امید منقطع نہ کر لو ۔ کہ ہم نے تمہارے لئے ازل میں جو کچھ مقدر کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہم تم کو کچھ دیں گے۔ پھر دوبارہ جب کیمیا کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا: مخلوق کو اپنے قلب سے نکال دو۔ اور اپنے رب سے اپنی یہ امید منقطع کر لو کہ وہ تم کو تمہارے مقدر کے علاوہ بھی کچھ دے گا۔ بندے کے علم کی زیادتی یا ہمیشہ اس کا ورد میں مشغول ہونا، اس کی سمجھ کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا غنا، اور اپنے قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ، اور طمع کی غلامی سے اس کا پر ہیز کرنا۔اور ورع کے زیور سے اس کا آراستہ ہونا ، اس کے نور اور سمجھ کی دلیل ہے۔ اور انہی سے اعمال بہتر ، اور احوال پاکیزہ ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَنهم أَحْسَنُ عَمَلاً ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اس کے لئے زینت بنائی ہے تا کہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرتا ہے ۔
پس حسن اعمال:۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھ ہونا ہے اورسمجھ وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنا، اس کو کافی سمجھنا، اس پر بھروسہ کرنا اسی کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرنا، اور ہمیشہ اس کے سامنے ہونا۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھ رکھنے کا نتیجہ ہے۔ اور اپنے نفس میں ورع کے وجود کو تم اس سے زیادہ تلاش کرو جتنا تم اس کے ماسوا کو تلاش کرتے ہو ۔ اور مخلوق میں طمع کرنے سے تم پاک ہو جاؤ۔ کیونکہ ان میں طمع کرنے والا ، اگر سات سمندروں کے پانی سے بھی پاک ہونا چاہے تو وہ اس کو پاک نہیں کر سکتے۔ لیکن صرف ان سے نا امید ہونا ، اور ان سے ہمت اٹھا لینا اس کو پاک کر دے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے اور ایک جامع مسجد میں داخل ہوئے ۔ وہاں قصہ بیان کرنے والوں کو قصہ بیان کرتے ہوئے پایا تو انہوں نے سب کو وہاں سے ہٹا دیا۔ پھر انہوں نے حضرت حسن بصری کو دیکھا تو فرمایا۔ اے نوجوان ! میں تم سے ایک بات دریافت کروں گا ۔ اگر تم نے اس کا صحیح جواب دے دیا تو تمہیں رہنے دوں گا ۔ ورنہ تم کو بھی تمہارے ساتھیوں کی طرح باہر کر دوں گا ۔ اور انہوں نے حضرت حسن کے چہرے پر تقویٰ اور ہدایت کی علامت دیکھ لی تھی ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا ۔ آپ جو چاہیں دریافت فرمائیں۔ حضرت علی نے دریافت فرمایا ؟ دین کی بنیاد کیا ہے؟ حضرت حسن نے جواب دیاور ع۔ پھر دریافت فرمایا ؟ دین کا فساد کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جمع ۔ حضرت علی نے فرمایا۔ تم بیٹھو تمہارے جیسے لوگ آدمیوں کو خطاب کر سکتے ہیں۔
میں نے اپنے شیخ حضرت ابو العباس مرسی کو کہتے ہوئے سنا:۔ میں اپنے ابتدائی حال میں اسکندریہ میں مقیم تھا۔ میں اپنے پہچاننے والوں میں سے ایک شخص کے پاس آیا اور اس سے میں نےاپنی ضرورت کی ایک چیز آدھے درہم میں خریدی۔ پھر میں نے اپنے دل میں سوچا۔ کہ شاید وہ مجھ سے قیمت نہ لے۔ تو ہاتف غیب نے مجھ کو آواز دی۔ دین میں سلامتی مخلوق میں طمع چھوڑ دینے سے ہوتی ہے۔
نیز میں نے ان کو کہتے سنا: حریص کبھی آسودہ نہیں ہوتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ طمع کے کل حروف ط م ، ع خالی یعنی بغیر نقطہ کے ہیں۔
پس اے مرید ! تم مخلوق سے اپنی ہمت کے اٹھانے کو اپنے اوپر لازم کرو۔ اور روزی کے معاملہ میں ان کے سامنے ذلیل نہ ہو ۔ کیونکہ روزی کی قسمت تمہارے وجود سے پہلے مقدر ہو چکی ہے اور تمہارے ظاہر ہونے سے پہلے وہ ثابت ہو چکی ہے۔ اور بعض مشائخ نے جو فرمایا ہے۔ اس کو غور سے سنو : ۔ تمہارے دونوں جبڑوں کے لئے جو کچھ چبانا مقدر کر دیا گیا ہے۔ اس کا چبانا ان کے لئے ضروری ہے تو تم اس کو عزت کے ساتھ کھاؤ۔ ذلت کے ساتھ نہ کھاؤ۔ حضرت ابوالحسن وراق نے فرمایا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو دنیا کی کسی چیز کی محبت سے وابستہ کیا ۔ تو اس نے اس کو شمع کی تلوار سے قتل کر دیا۔ اور جس نے کسی شے میں طمع کیا۔ وہ اس کے لئے ذلیل ہوا۔ اور اس کی ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔ حضرت ابو بکر وراق نے فرمایا ہے: اگرطمع سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے؟ تو وہ کہے گی:۔ مقدر میں شک کرنا ۔ پھر اگر پو چھا جائے ۔ تیری کمائی کیا ہے؟ تو وہ کہے گی: ذلت حاصل کرنا ۔ پھر اگر پوچھا جائے کہ تیرا انجام کیا ہے ؟ تو کہے گی محرومی و نا کامی اور اس حقیقت کے بارے میں ایک عارف کے اشعار ہیں :
اضْرَعُ إِلَى اللَّهِ لَا تَضْرَعُ إِلَى النَّاسِ وَاقْنَعُ بِعِزٍ فَإِنَّ الْعِزَّ فِي الْیَاسِ
اللہ کے سامنے عاجزی کرو ۔ آدمیوں کے سامنے عاجزی نہ کرو۔ عزت کے ساتھ قناعت کرو۔ اور عزت نا امیدی میں ہے ۔
وَاسْتَغْنِ عَنْ كُلَّ ذِي قُرْبٍ وَّ ذِى رَحِمٍ إِنَّ الْغَنِيَّ مَنِ اسْتَغْنَى عَنِ النَّاسِ
کل عزیز واقارب سے بے نیاز ہو جاؤ ۔ بے شک غنی وہ ہے جو آدمیوں سے بے نیاز ہو جائے ۔