سائرین اور واصلین کے اعمال کے عنوان سے باب ششم میں حکمت نمبر59 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ طاعت سے خوش ہونے سے یہ و ہم پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ طاعت کی طرف دیکھنے کی شاخ ہے۔ اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا:۔
59) قَطَعَ السَّائِرِينَ لَهُ وَالْوَاصِلِينَ إِلَيْهِ عَنْ رُؤْيَةِ أَعْمَالِهِمْ وَشُهُودِ أَحْوَالِهِمْ ، أَمَّا السَّائِرُونَ فَلأَِنَّهُمْ لَمْ يَتَحَقَّقُوا الصِّدْقَ مَعَ اللهِ فِيهَا ، وَأَمَّا الْوَاصِلُونَ فَلأَِنَّهُ غَيَّبَهُمْ بِشُهُودِهِ عَنْهَا.
اللہ تعالیٰ نے سائرین للہ اورو اصلین الی اللہ کو اپنے اعمال کے دیکھنے سے ، اور احوال کےمشاہدہ کرنے سے منقطع (غائب) کر دیا ہے۔ لیکن سائرین ۔ تو اس وجہ سے کہ انہوں نے عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق کو نہیں پایا۔ اور واصلین : تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے مشاہدہ میں اس سے غائب کر دیا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ قطع کے معنی ہیں، غیب ، اگر اس کے ساتھ تعبیر کیا جائے تو زیادہ آسان اور واضح ہوگا۔ کیونکہ قطع کے ساتھ تعبیر کرنے میں معنی میں خرابی اور عبارت میں نقص ہے۔ تو اگر اس طرح کہا جائے تو بہتر ہے:۔
ّغَیَبَ السَّائِرِينَ لَهُ عَنْ رُؤْيَتِ أَعْمَالِهِمْ وَأَخَوَالِهِمْ، وَالْوَاصِلِينَ إِلَيْهِ عَنْ رُؤْيَتِ وجُودِهِمْ، أَمَّا السَّائِرُونَ فَلَاتَهُمْ لَم يَتَخَلَفُوا فِيهَا الصِّدْقِ مَعَ اللهِ، وَأَمَّا الْوَاصِلُونَ فَلَانَّهُمْ لَمْ يَشْهَدُوا مَعَ اللَّهِ سِوَاهُ
اللہ تعالیٰ نے سائرین للہ (اپنے لئے سیر کرنے والوں ) کو ، اپنے ظاہری اعمال کے دیکھنے ، اور باطنی احوال کے مشاہدہ سے غائب کر دیا ہے ۔ اور واصلین الی اللہ (اپنی طرف پہنچنے والوں ) کو ان کے وجود کے دیکھنے سے غائب کر دیا ہے۔ لیکن سائرین، تو اس لئے کہ انہوں نے اپنے اعمال و احوال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق کو نہیں پایا۔ اور واصلین ، تو اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ماسوا کا مشاہد ہ نہیں کیا۔
یعنی سائرین اور واصلین کو، اللہ تعالیٰ نے اپنے ظاہری اعمال کے دیکھنے اور باطنی احوال کے مشاہدہ کرنے سے غائب کر دیا ہے۔ لیکن سائرین : ۔ تو اس وجہ سے کہ وہ ہمیشہ اپنے نفسوں کو تہمت لگاتے رہتے ہیں۔ تو جب ان سے کوئی احسان صادر ہوتا ہے۔ یا ان کے لئے کوئی آگاہی یا وجدان ظاہر ہوتا ہے۔ تو وہ اس کو انتہائی خرابی اور نقصان میں دیکھتے ہیں ۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے شرم کرتے ہیں کہ ان اعمال یا احوال پر وہ بھروسہ کریں۔ یا ان کی طرف متوجہ ہوں۔ تو وہ اپنے اعمال اور احوال سے غائب ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ پس صدق جوا خلاص کا مغز اور سر ہے اس میں نہیں پاتے ہیں۔ تو نہ ان کو دیکھتے ہیں، نہ ان کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
ایک عارف سے دریافت کیا گیا: عمل کے قبول ہونے کی علامت کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا۔ تمہارا عمل کو بھول جانا اور اس کی طرف سے اپنی نظر کو بالکل منقطع کر لینا ۔اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلیل ہے:۔
إِلَيۡهِ يَصۡعَدُ ٱلۡكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلۡعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرۡفَعُهُۥ
پاکیزہ کھلے اور عمل صالح اس کی طرف چڑھتے ہیں اور وہ ان کو اٹھالیتا ہے
حضرت امام زین العابدین نے فرمایا ہے: تمہارے اعمال کے ساتھ تمہاری رویت کا شامل ہونا ، اس کے مقبول نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ مقبول عمل تم سے اٹھا لیا جاتا۔ اور غائب کر لیا جاتا ہے اور تمہاری رویت کا اس سے منقطع ہونا ، اس کے منقطع ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن واصلین:۔ تو اس لئے کہ وہ اپنے نفسوں سے خالی اور اپنے معبود کے مشاہدہ میں غائب ہیں۔ تو ان کے حرکات و سکنات سب کے سب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہیں۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرو۔ اور اس کے ساتھ اس کے سوا کا بھی مشاہدہ کرو۔ پس اگر ان پر کوئی طاعت ظاہر ہوتی ہے یا ان سے کوئی احسان صادر ہوتا ہے تو وہ اس میں اللہ واحد منان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
(حکایت)
حضرت واسطی رحمتہ اللہ علیہ جب نیشا پور گئے۔ تو انہوں نے ابو عثمان کےمریدین سے پوچھا۔ آپ لوگوں کے شیخ آپ لوگوں کو کیا حکم دیتے تھے؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہمارے شیخ اپنے اوپر طاعت کو لازم رکھنے اور اس کے دیکھنے میں کمی کرنے کا حکم دیتے تھے۔ حضرت واسطی نے فرمایا:۔ انہوں نے تمہیں خالص مجوسیت کا حکم دیا۔ انہوں نے تم کو طاعت سے اس کے جاری کرنے اور پیدا کرنے والے کے مشاہدہ میں غائب ہونے کا حکم کیوں نہیں دیا۔
حضرت قشیری نے فرمایا ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مریدین کو خود بینیوں سے بچانا اور آداب پر رہنمائی کرنا چاہا ہے۔ تم کو جاننا چاہے شیخ کے کلام میں سائرین، دوسری قسم کے لوگ ہیں۔ جن کی خوشی طاعت کے ساتھ اس لئے ہے کہ وہ مقبولیت کا عنوان ہے۔ اور اس کے ساتھ خوشی سے اس کی رویت لازم نہیں ہوتی ہے۔ کیو نکہ وہ اس سے اس لئے خوش ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور
طاعت سے اس کی روایت الہٰی اہتمام کی وجہ سے منقطع ہو جاتی ہے۔ اور واصلین ۔ تیسری قسم کے لوگ ہیں جن کی خوشی اللہ کے ساتھ ہے۔ اس کے سوا کسی شے کے ساتھ نہیں ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔ یہاں چھٹا باب ختم ہوا۔
اس باب کا حاصل یہ ہے:۔ قلوب کا علاج ، اس کی صحت ، اور مرض ، اور موت کی علامت ۔ اور اس کا انوار کی مدد حاصل کرنا ۔ اور اس کا واردات سے ملنا۔ یہاں تک کہ اپنے اعمال واحوال کے مشاہدہ سے غائب ہو جائے ۔ اور اپنے شہود کی فضاء میں اپنے ظاہر سے گم ہو جائے ۔ اس میں اس کی عزت اور شرف ہے۔ اور اس کی ضد یعنی مخلوق کی رویت میں اس کی ذلت ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے چھٹےباب کی ابتداء میں اس کا بیان کیا ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی