قلب کی حیات (باب ششم)

قلب کی حیات کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر51 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے قلب کے موت کی علامت بیان کی۔ لہذا ان اعمال کو بھی بیان کیا جو قلب کی زندگی کا سبب ہیں ۔ چنانچہ فرمایا
51) لا عَمَلَ أَرْجى لِلْقُلوبِ مِنْ عَمَلٍ يَغيبُ عَنْكَ شُهودُهُ ويُحْتَقَرُ عِنْدَك وُجودُهُ.
جس عمل کا دیکھنا تم سے غائب ہو ۔ اور تمہاری نگاہ میں وہ حقیر ہو۔ اس سے زیادہ کوئی عمل قلب کی زندگی کے لئے امید افزاء نہیں ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جو عمل، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ، اور اس میں اس کے ماسوا سے غائب ہونے کی حالت ہو۔ اور اس میں اپنے حصوں اور خواہش کا لحاظ نہ ہو۔ اور اپنے اختیا راور قوت سے بری ہو۔ ایسے عمل سے زیادہ کوئی عمل قلب کی زندگی کے لئے مفید اور امید افزا نہیں ہے۔ تو جب قدرت ایسا عمل اس کے اوپر ظاہر کرے۔ تو وہ اس کے دیکھنے سے غائب ہو۔ اور اس کی نگاہ میں وہ حقیر ہو۔ چونکہ اس کے قلب میں اس کے مولا کی عظمت جلوہ گر ہو چکی ہے۔ اس لئے اس کے نزدیک اس کے ماسواکل شے حقیر ہو گئی ہے۔ پس اس قسم کے عمل سے قلوب زندہ ہوتے ہیں ۔ اور علام الغیوب کے مشاہدے سے حصہ حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ یقین کی روح ، اور عارفین کے قلوب کی حیات ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دوست بنانا چاہتے ہے تو اس کوعمل کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اور عمل کو اس کی نگاہ سے حقیر کر دیتا ہے۔ پس وہ ہمیشہ جسمانی اعضاء کے عمل میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو قلوب کے عمل کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ تو جسمانی اعضاء مشقت سے آرام پا جاتے ہیں۔ اور ادب کے ساتھ عظمت کے مشاہدہ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ہے۔
حضرت نہر جوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس کے احوال میں دوست بنالیا ہے۔ اس کی علامات یہ ہیں ۔ وہ اپنے اخلاص میں کمی ، اور اپنے اذکار میں غفلت ،اور اپنے صدق میں کوتاہی، اور اپنے مجاہدہ میں خرابی، اور اپنے فقر میں رعایت کی کمی دیکھتا ہے۔ اس کے کل احوال اس کے نزدیک نا پسندیدہ ہوتے ہیں اور اپنے ارادہ اور سیر میں اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی محتاجی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔ اور جب دل زندہ ہو جاتا ہے تو واردات الہٰیہ کی تجلی کا مقام بن جاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں