ابتداء وانتہاء روشن (باب دوم)

ابتداء وانتہاء روشن حکمت نمبر28

باطنی امانتیں کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر28 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس مسلے کو ایک قاعدہ کلیہ سے مکمل کیا ہے۔ جو پہلے گزرے ہوئے بیانات اور اس کے ماسوا کی تصدیق کرتا ہے۔ وہ قاعدہ کلیہ یہ ہے۔
27) مَنْ أَشْرَقَتْ بِدايَتُهُ أَشْرَقَتْ نِهايَتُهُ.

مجاہدہ کے موافق ہی مشاہدہ ہوگا

جس شخص کی ابتدا روشن ہے اس کی انتہا بھی روشن ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ابتداء کا روشن ہونا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ داخل ہونا، اور اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرنا، اور اس میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے۔ حکمت کے حق کے ساتھ قائم ہوتے ہوئے ، اور قدرت کے ساتھ ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے ذرائع میں کوشش کرنے ، اور اس کی طلب میں اہتمام کرنے کے ساتھ ، اور مقصد کی بڑائی اور اہمیت کے موافق اس کے ذرائع میں کوشش بھی زیادہ اور اہم ہوتی ہے۔ کیونکہ مجاہدہ کے موافق ہی مشاہدہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ جن لوگوں نے ہمارے راستے میں کوشش کی۔ ہم ان کو اپنے راستوں کی ہدایت ضرور کریں گے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ احسان والوں کے ساتھ ہے،
اور دوسری جگہ فرمایا: ان رحمت اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان والوں کے قریب ہے ۔ ہمارےشیخ الشیوخ سیدی عبدالرحمن مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ تم اسے سستا نہ سمجھو۔ معشوق کو دیکھنا، اورہضم کرنا بہت مہنگا ہے۔ گرمی کی مصیبت راتوں کی سردی ہی سے ختم ہوتی ہے۔ لہذا ہم جس شخص کو اس کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی طلب میں کوشش کرتے ہوئے مخلوق کی محبت سے منہ پھیرے ہوئے ، اپنے مولائے حقیقی کی خدمت میں مستغرق، اپنے نفس کے حصوں اور خواہشوں کو فراموش کئے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تو ہم یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کی انتہا یقینا روشن ہوگی ۔ اور اس کی عاقبت قابل تعریف ہوگی۔ اور ہم جس شخص کو اپنے مولائے حقیقی کی طلب سے غافل اور اپنے نفس اور اسکی خواہشات میں مشغول دیکھتے ہیں تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اپنی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ اور اس کی انتہا محرومی ، اور اس کی عاقبت رسوائی ہوگی۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کے سایہ میں پناہ دے۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے۔
لیکن دنیا کی ضروریات، یا مقامات، یا مراتب، یا خصوصیات کی طلب میں ابتداء کا روشن ہونا ) تو وہ ان میں زہد اختیار کرنے ، اور ان سے منہ پھیر لینے، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ مراتب و درجات :۔ ان میں زہد اختیار کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ میں اور میرا ایک ساتھی ہم دونوں ایک غار میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے ۔ اور ہم کہتے تھے ، کہ اس مہینے میں اور اس جمعے کو اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر اپنی معرفت کا دروازہ کھولے گا۔ تو ہم نے غار کے دروازے پر ایک شخص کو کھڑا ہوا دیکھا۔ اس کے چہرے پر نیکی کے آثار تھے۔ اس نے السلام علیکم کہا ہم نے اس کو جواب میں وعلیکم السلام کہا:۔ اور دریافت کیا:۔ آپ کا کیا حال ہے؟ وہ شخص قریب آکر ہمارے سامنے کھڑا ہوا۔ اور فرمایا:۔ اس شخص کا کیا حال ہوگا ۔ جو کہتا ہے:۔ اس مہینے میں اور اس جمعے کواللہ تعالیٰ ہمارے اوپر اپنی معرفت کا دروازہ کھولے گا؟ لیکن نہ دروازہ کھلنا ہے ۔ نہ کامیابی ہونی ہے ۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کیوں نہ کی جس طرح ہم کو حکم دیا گیا ہے؟ پھر وہ شخص ہماری نظروں سے غائب ہو گیا۔ تب ہماری سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہم نے عبادت کا یہ طریقہ کہاں سے اختیار کیا۔ پس ہم نے اپنے نفس کو ملامت کی تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اپنی معرفت کا دروازہ کھول دیا۔ یہ واقعہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں بیان فرمایا ہے۔ لہذا جو شخص خصوصیت طلب وہ خصوصیت کا بندہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا حصہ اس سے فوت ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ تو بہ کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت سے اپنا حصہ پاتا ہے۔ اور خصوصیت بھی بغیر تو جہ اور طلب کے اس کو حاصل ہوتی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں