اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا حکمت نمبر19
اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا کے عنوان سے باب دوم میں حکمت نمبر19 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تیسرا ادب: اللہ تعالیٰ نے اس کو جس حال میں قائم کیا ہے اس میں قائم رہنا، اور ہرشے سےمنقطع ہو کر اللہ تعالیٰ میں غائب ہو جانا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ۔
19) لا تَطْلُبْ مِنْهُ أَن يُخْرِجَكَ مِنْ حالةٍ لِيَسْتَعْمِلَكَ فيما سِواها. فَلَوْ أَرادَ لاسْتَعْمَلَكَ مِنْ غَيْرِ إِخْراجٍ.
تو اللہ تعالیٰ سے یہ نہ طلب کر کہ وہ تجھے کسی ایک حالت سے نکالے اور اس کے سوا دوسری حالت میں مشغول کرے۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو بغیر اسی حالت سے نکالے ہوئے تجھ کودوسری حالت میں مشغول کر دے گا۔
حال سے نکالنے کا متولی
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: عارف کے آداب میں سے اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا ، اور اس کے ساتھ اس کے ماسوی سے بے نیاز ہو جانا ہے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ اس کو کسی حال میں قائم کرے۔ تو وہ اس کو حقیر نہ سمجھے۔ اور اس حال سے نکل کر دوسرے حال میں جانے کی خواہش نہ کرے۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو اس حال سے نکال کر دوسرے حال میں پہنچانے کا ارادہ کرے گا تو اس کے اس حال سے نکالنے کا مطالبہ کئے بغیر اس کو دوسرے حال میں پہنچا دے گا ۔ لہذا اس کو اسی حال میں ٹھہرا رہے۔ جس حال میں اس کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اس کے اس حال سے نکالنے کا متولی ہو جائے۔ جیسا کہ وہ اس کے اس حال میں داخل کرنے کا متولی ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے:۔
وَقُل رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ
اور آپ کیلئے اے میرے رب مجھ کو سچائی کے حال میں داخل کر اور مجھ کو سچائی کے حال میں نکال۔
مدخل صدق یہ ہے کہ تو اس مقام میں اللہ تعالیٰ کیسا تھ داخل ہوا اور مخرج صدق یہ ہےکہ تو اس مقام سے اللہ تعالیٰ کیساتھ نکلے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سمجھ اور یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہونے کی علامات میں سے ہیں۔
لہذا عارف باللہ جب مجرد ہوتا ہے تو نکاح کی تمنا نہیں کرتا اور اگر وہ شادی شدہ ہوتا ہے تو جدا ہونے کی تمنا نہیں کرتا ہے۔ اور اگر وہ تندرست ہے تو مرض کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ مریض ہے تو وہ تندرستی کی خواہش نہیں کرتا اور وہ فقیر ہے تو وہ دولت کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ دولت مند ہے تو وہ فقیری کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ عزت والا ہے تو ذلت کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ ذلیل ہے تو عزت کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ قبض کی حالت میں ہے تو و ہ بسط کی خواہش نہیں کرتا ہے اور اگر وہ بسط کی حالت میں ہے تو قبض کی خواہش نہیں کرتا ہے اور وہ طاقتور ہے تو کمزوری کی خواہش نہیں کرتا اور اگروہ کمزور ہے تو طاقت کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ مسافر ہے تو قیام کی خواہش نہیں کرتا اور اگر وہ مقیم ہے تو وہ سفر کی خواہش نہیں کرتا اور اس طرح باقی احوال بھی ہیں اسکی نظر اس پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے اور وہ اپنے نفس کے فنا ہونے کی وجہ سے یہ نہیں سوچتا ہے کہ وہ اپنے نفس کیلئے کیا کرے بلکہ وہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں مردے کی طرح یا انگلیوں کے درمیان قلم کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔
آرَانِي كَالا لَاتِ وَهُوَ مُحَرِّكي أَنَاقَلَمٌ وَالْاِقْتِدَارُ أَصَابِعُ
میں اپنے کو آلات ( پرزوں) کی طرح دیکھتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھ کو حرکت دینے والا ہے۔ میں قلم ہوں۔ اور قلم چلانے والی طاقت انگلیاں یعنی مشیت الہٰی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ اور تمہارا رب جو چاہتا ہےپیدا کرتا ہے۔ اور لوگوں کے لئے جو بہتر ہوتا ہے وہ اختیار کرتا ہے ۔
اور دوسری جگہ فرمایا۔ (وَمَا تَشَاءُ وُنَ إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللَّهُ) اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔
بندے اک تیری خواہش ہے اک میری خواہش ہے
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی نازل کی۔ اور فرمایا: اے داؤد ! تم بھی ارادہ کرتے ہو۔ اور میں بھی ارادہ کرتا ہوں۔ اور ہو گا وہی جو میں ارادہ کرتا ہوں ۔ لہذا اگر تم نے میرا ا رادہ تسلیم کر کے اپنے کو میرے سپرد کر دیا تو میں تمہارا ارادہ پورا کر دوں گا۔ اور اگر تم نے میرا ارادہ نہ تسلیم کیا ۔ اور اپنے ہی ارادے پر قائم رہے تو میں تمہارے ارادہ میں تم کو تھکا دوں گا۔ اور تم کو تکلیف میں مبتلا کر دوں گا۔ اور ہو گا وہی جو میرا ارادہ ہے۔ اور حضرت رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ جو کچھ تیرے سامنے آنے والا ہے وہ لکھ کر قلم خشک ہو گیا۔
اور دوسری حدیث میں ہے:
جَفَّتِ الْأَقْلَامُ، وُطُوِيَتِ الصُّحُفُ
لپیٹ دیئے گئے۔قلم خشک ہو گئے اور صحیفے (نوشتہ تقدیر )
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی احمد یمانی رضی اللہ عنہ نے ، جب ان سے ان کے اصحاب نے ولایت کی حقیقت دریافت کی ، فرمایا:۔ ولایت کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ولی سایہ میں بیٹھا ہو ، تو اس کا نفس دھوپ میں بیٹھنے کی خواہش نہ کرے اور اگر وہ دھوپ میں بیٹھا ہو تو اس کانفس سائےمیں بیٹھنے کی خواہش نہ کرے اور ایسا پورے اختیار کے ساتھ ہو۔ نہ کہ ضروری حکم کے ساتھ ۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے: ولی کامل کی ایک صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جس حال میں قائم کرے، وہ صرف اسی کامحتاج رہے۔ یعنی قدرت کی اصل سے جو کچھ ظاہر ہو، وہی اس کا مقصود ہو ۔ اس کا نفس اس کے سوا دوسرے حال کی خواہش نہ کرے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب عارف کے اندر ان امور میں سے کوئی شے جلوہ گر ہو ۔ یعنی ایک حال سے دوسرے ہال کی طرف منتقل ہونا ، تو اس کو انتظار اور صبر کرنا چاہیئے ۔ تا کہ ظاہری یا باطنی اشارہ یا ظاہری یا باطنی ہاتف غیبی آواز ) کے ذریعے بخوبی یہ سمجھ لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور غیبی آوازوں یا اشاروں کی طرف اس کو خاموشی سے اچھی طرح متوجہ رہنا چاہیئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے وہ الہامی خطاب کے ذریعے اس کو آگاہ کر دیتا ہے۔ اور یہ معاملہ عارفین کے نزدیک تجربہ شدہ صحیح ہے۔ کیونکہ عارفین اللہ ورسول ﷺ کی اجازت کے بغیر کچھ تصر ف نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اہل جمع کے نزدیک فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے زمرے میں شامل فرمائے ۔ آمین۔
اور یہ سب اس وقت ہے جب کہ جس حال میں وہ ہے ، وہ شریعت کے موافق ہو ۔ ورنہ جس طریقے پرممکن ہو، اس سے نکلنے کی طلب کرنی چاہیئے ۔