ازلی حکم کی بلندی (اٹھارھواں باب)

ازلی حکم کی بلندی کے عنوان سے اٹھارھویں باب میں  حکمت نمبر 167اور 168 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول کی وجہ بیان کی۔ کہ دعا صرف اظہار عبودیت کے لئے ہونی چاہیئے  ۔ نہ اس لئے وہ بخشش ( کچھ ملنے ) کا سبب ہے۔

چنانچہ فرمایا :-

167) كَيْفَ يَكُونُ طَلَبُكَ اللاَّحِقُ سَبَبًا فِى عَطَائِهِ السَّابِقِ

؟  168) جَلَّ حُكْمُ الأَزَلِ أَنْ يَنْضَافَ إِلَى الْعِلَلِ .

یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہاری اس وقت ہونے والی دعا اللہ تعالی  کے از لی عطا کا سبب ہے۔ اللہ تعالی  کا ازلی حکم اس سے بلند و بالا تر ہے ۔ کہ اس کی نسبت اسباب کے ساتھ کی جائے ۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : – عطاء سابق، از لی حکم :- وہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی  کا قدیم علم ، کائنات کی تجلیوں کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی وابستہ ہو چکا ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ازل ہی میں، جو کچھ ہوا اور جو کچھ ابد لآباد تک ہونے والا ہے اس کو مقدر فرما دیا ہے۔ لہذا اللہ تعالی  نے ظاہری اور باطنی روزیوں کو تقسیم فرمادیا ہے۔ اور وقتوں کو مقدر کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔

إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ بیشک ہم نے ہرشے کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا۔

اور اللہ تعالی  نے فرمایا:

وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرشے ایک اندازے کے ساتھ ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا جب ان کا مقرر وقت آ جاتا ہے۔ تو وہ ایک گھنٹہ بھی نہ آگے کر سکتی ہیں ، نہ پیچھے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-

وَمَا يُعَمَّرُ مِن ‌مُّعَمَّرٖ وَلَا يُنقَصُ مِنۡ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِي كِتَٰبٍکسی زندہ شخص کی عمر دراز نہیں کی جاتی ہے اور یہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے۔ مگر وہ کتاب میں درج ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّوَجَّلاً اور کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مر جائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک وقت مقرر ہے ۔

لہذا اے انسان ! جب تم کو یہ معلوم ہو گیا۔ کہ قضا و قدر نے تمہاری روزی ، اور موت کو پہلے ہی مقدر کر دیا ہے۔ اور یہ کہ تمہاری قسمت ( حصہ ) اور بخشش پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے تو اب تم کیا  مانگتے ہو؟اور اگر تم دعا کرتے ہو تو تمہاری اس وقت پیچھے ہونے والی دعا ۔ اللہ تعالی  کی سابق (پہلے ہی سے مقرر کی ہوئی )  عطا کا سبب کیسے بن سکتی ہے۔ اس لئے کہ تمہاری طرف سے دعا صادر ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالی  کی طرف سے عطا مقرر ہو چکی ہے۔ اللہ تعالی  کا از لی قدیم حکم اس سے بلند و بالاتر ہے کہ حادث اسباب کے ساتھ اس کو منسوب کیا جائے۔اس لئے وجود اور حکم دونوں  حیثیت سے قدیم پر حادث کا مقدم ہونا محال ہے۔۔

حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-

تو حید اس علم کو کہتے ہیں۔ کہ اللہ تعالی  کی قدرت اشیاء کے اندر بغیر کسی تدبیر کے جاری ہے۔ اور اس کی صنعت بغیر آمیزش کے ہے۔ اور ہرشے کے وجود کا سبب اس کی صنعت (تخلیق ) ہے۔اور اس کی صنعت کے لئے کوئی سبب نہیں ہے۔ اور بلند آسمانوں اور پست زمینوں میں اللہ تعالی  کے سوا کوئی تدبیر کرنے والا نہیں ہے۔ اور ہر وہ شےجو تمہارے عقل و ذہن کے دائرے میں آ جائے ، اللہ تعالی  اس کے برعکس ہے۔

اور بعض عارفین نے فرمایا ۔ جو کچھ وجود میں آیا۔ اس سے بہتر ہو نا ممکن نہیں ہے۔ یعنی علم اور مشیت کے اعتبار سے نہ کہ قدرت کے اعتبار ہے۔

اور جو کچھ وجود میں آیا اس سے مراد سابق قضا و قدر ہے۔ لہذا قدرت نے جس چیز کو پیدا اور ظاہر کیا۔ اس سے بہتر ہونا ، قدیم علم کے تعلق کی حیثیت سے ممکن نہیں ہے۔ لہذا اس کے خلاف ہو نا ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ عقل کے نزدیک یہ جائز ہے کہ اللہ تعالی  اس سے بہتر بھی پیدا کر دے اور قدرت الہی کامل واکمل ہے۔ لیکن چونکہ جو کچھ ہوا یہ اللہ تعالی  کے علم میں پہلے آچکا ہے اور قضائے الہی اس پر جاری ہو چکی ہے۔ اس لئے اس سے  بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- عالم امکان میں جو کچھ ہوا اس سے بہتر نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ عالم امکان یعنی عالم شہادت میں وہی ظاہر ہوا ہے۔ جو قدیم معانی ( حقیقتیں ) عالم غیب میں تھیں ۔ لہذا اس سے بہتر نہ ہوا۔ اور نہ ہرگز کبھی ہوگا۔ پس تم اس کو سمجھو۔ یہ کلام درست ہے۔ واللہ تعالی اعلم


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں