ازلی رحمت(مناجات 28)

یہ اٹھائیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اٹھائیسویں مناجات
إِلٰهِي أُطْلُبُنِي بِرَحْمَتِكَ حَتَّى أَصِلَ إِلَيْكَ

اے اللہ! تو مجھ کو اپنی رحمت سے طلب کر ۔ یہاں تک کہ میں تیرے پاس پہنچوں  ۔

یعنی تو مجھ کو اپنی ازلی رحمت سے طلب کر ۔ تا کہ میں تیری طلب کروں اور تیرے پاس پہنچوں ۔ کیونکہ وصول سے پہلے طلب یعنی چاہنا ہے۔ اور یہی سلوک کا طریقہ ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جذب وعنایت کے طریقے کی طرف اشارہ فرمایا:

وَاجْذُّبْنِي بِمِنَّتِكَ حَتَّى اُقْبِلَ عَلَيْكَ اور اپنے احسان سے مجھ کو جذب کر ۔ تا کہ میں تیری طرف بڑھوں  ۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: اگر اس کے بر عکس ہوتا تو بہتر ہوتا۔

پس مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) اس طرح فرماتے تو مجھ کو اپنی رحمت سے طلب کر ۔ تا کہ میں تیری طرف بڑھوں ۔ اور تو مجھ کو اپنے احسان سے جذب کرتا کہ میں تیرے پاس پہنچوں۔ اس لئے کہ جذب: حقوق کے شہود سے خالق کے شہود کی طرف اچانک کھینچ لینا ہے۔ اور یہ

اکثر توجہ اور طلب اور مجاہدہ اور محنت کے بعد ہوتا ہے۔ اور ایسا کبھی اتفاقیہ ہوتا ہے کہ پہلے جذب کر لیا جائے پھر سلوک کی طرف واپس کیا جائے اور پہلا طریقہ زیادہ کامل ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی طلب بندے کو حاصل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے خوف و رجاء بندے سے منقطع نہیں ہوتی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں