اسرارعنایت کے مشتاق (اٹھارھواں باب)

اسرارعنایت کے مشتاق کے عنوان سے اٹھارھویں باب میں  حکمت نمبر 170 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ سابق قضا و قدر پر بھروسہ کرنے کا تقاضا عمل کا ترک کرنا ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کا راز اپنے اس قول سے بیان فرمایا ہے:۔
170) عَلِمَ أَنَّ الْعِبَادَ يَتَشَوَّفُونَ إِلَى ظُهُورِ سِرِّ الْعِنَايَةِ فَقَالَ {يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ} وَعَلِمَ أَنَّهُ لَوْ خَلاَّهُمْ وَذَلِكَ لَتَرَكُوا الْعَمَلَ اعْتِمَادًا عَلَى الأَزَلِ فَقَالَ {إِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ}
اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ بندے اس کی عنایت کے راز کے ظاہر ہونے کے مشتاق ہیں ۔ اس لئے فرمایا :-
يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وہ جس کو چاہتا ہے ۔ اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالی کو معلوم ہے۔ کہ اگر بندوں کو سابق ازلی مشیت کیساتھ چھوڑ دیا جائے ، تو ازل کے فیصلے پر ( قضا و قدر ) اعتماد کر کے عمل کو ترک کردیں گے ۔ اس لئے فرمایا:-
إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان والوں کے قریب ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ چونکہ اللہ تعالی نے اپنی کتابوں میں اپنے رسولوں علیہم الصلوۃ والسلام کی زبانی یہ خبر دے دی ہے کہ عنایت ، سابق ازل (قضا و قدر ) پر منحصر ہے۔ لہذا جس کے لئے عنایت مقدر ہو چکی ہے۔ اس کو گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔ اور کل مخلوق اس عنایت کے راز کے ظاہر ہونے کی مشتاق ہے۔ اس وجہ سے ہر شخص یہ گمان کرتا ہے۔ کہ وہ اس ازلی عنایت کا اہل ہے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے ان کو یہ خبر دی :۔ یہ عنایت کا راز کچھ لوگوں کے لئے ہے اور کچھ لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:-
يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءَ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عنایت کے راز کو اپنی مشیت کے ساتھ منسوب کیا۔ نہ کہ لوگوں کی مشیت کے ساتھ ۔ لہذا لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ ازلی عنایت بعض لوگوں کے لئے ہے سب لوگوں کی مشیت( خواہش ) کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ ہر شخص چاہتا ہے، کہ وہ ان بعض لوگوں میں سے ہو۔ لیکن اکثر اوقات لوگ سابق ازل ( مقدر ) پر بھروسہ کر کے عمل کو ترک کر دیتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالی نے ان کو یہ خبر دی ۔ اس عنایت کے راز کی کچھ علامتیں ہیں۔ جو اس شخص کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ۔ جو اس کا اہل ہے اور اس کے ساتھ مخصوص ہے (یعنی ان علامات سے اس شخص کی پہچان ہوتی ہے۔ جواز لی عنایت کااہل ہے۔ اور اس کے ساتھ مخصوص ہے ) کون عنایت از لی کا مستحق ہے
لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان والوں کے قریب ہے۔
اس آیہ کریمہ میں رحمت سے مراد :- از لی عنایت ہے۔ اور وہ ان احسان والوں سے قریب ہے جنھوں نے اپنے رب کی بہتر طریقے پر عبادت کی اور اپنے رب کے بندوں کے ساتھ احسان کیا۔ تو حاصل یہ ہوا ۔ عنایت کا راز صرف ان احسان والوں کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔ جو اپنے اعمال پر مضبوطی سے قائم اور اپنے رب کی عبودیت ( بندگی ) میں مخلص ہیں۔ لہذا جولوگ از لی حکم ( مقدر ) پر بھروسہ کر کے عمل کو ترک کر دیتے ہیں وہ حکمت کو باطل کرنے کی وجہ سے دھو کے میں مبتلا اور مردود ہیں۔ اور جو لوگ قدرت اور ازلی مشیت کو نظر انداز کر کے عمل پر بھروسہ کرتے ہیں وہ جاہل ، بارگاہ الہی سے دور، غافل ہیں ۔ اور جو شخص دونوں حالتوں کا جامع ہے۔ وہ محقق کامل ہے۔ اور انشاء اللہ تعالی ازلی عنایت الہی کا راز اس پر ظاہر ہوگا۔
حضرت ابو عثمان مغربی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ عارفین کے قلوب ، نا گہانی مقدر کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے : ایسا نہیں ہے ۔ کہ جو شخص طلب کرے، وہ پالے ۔ اور جو شخص پا جائے ، وہ پہنچ جائے اور نہ ایسا ہے کہ جو شخص پہنچ جائے ، وہ ادراک کرے اور جو ادراک کرے ، وہ پا جائے ۔ اور جو پا جائے ، وہ سعادت مند ہو جائے ۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنی تمناؤں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور بہت ایسے ہیں جو قربتوں کے بالا خانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس شخص کو توفیق کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ وہ ایک پل میں مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
جیسا کہ کسی صالح کی حکایت ہے۔ انہوں ابلیس لعین کو خواب میں دیکھا۔کہ وہ چیختا، روتا فریاد کرتا ہے۔ اس کی فوج اس کے پاس جمع ہوگئی ۔ اور انہوں نے پوچھا ۔ تم کو کیا ہو گیا ہے؟ ابلیس نے کہا – میں کئی سال سے فلاں شخص کو بہکانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن اب میں نے یہ دیکھا کہ اس کا ظاہر اور باطن اور پوشیدہ و علانیہ یکساں مضبوط اور درست ہو گیا اور ایسا اچانک ہوا۔ لہذا میں اس کے بہکانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ وہ صدق سے آراستہ ہو کر سچائی کے مقام پر بادشاہ مقتدر اللہ تعالی کے پاس پہنچ گیا۔ اور میرے مکر سے محفوظ ہو گیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں