اللہ کی کامل نعمتیں (چوبیسواں باب)

اللہ کی کامل نعمتیں کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 225 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے روزی کے معاملے کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
225) مِنْ تمَامِ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ أَنْ يَرْزُقَكَ مَا يَكْفِيكَ وَيَمْنَعَكَ مَا يُطْغِيكَ.
اللہ تعالیٰ کی کامل نعمتوں میں سے یہ ہے کہ وہ تم کو اس قدر روزی عطا فرمائے ، جو تمہارے لئے کافی ہو۔ اور اس قدر سے تم کو روک دے، جو تم کو سرکش اور گمراہ کر دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں اپنے بندے پرااللہ تعالیٰ کی کامل نعمت یہ ہےکہ وہ اس کی ہمت کو اپنی طرف متوجہ کر دے۔ اور اپنے غیر کے ساتھ ہر قسم کے تعلق سے اس کے قلب کو پاک کر دے۔ اور اس کو اتنی روزی دے جو اس کے لئے کافی ہو۔ اور اس کے غیر کے ساتھ تعلق سے اس کو بے نیاز کر دے۔ اور یہی غنا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے نیاز ہونا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے نیاز ہونے اور اس کے ماسوی سے غائب ہونے سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ اور ہر اس شے سے اس کو محروم اور بے نیاز کر دے جو اس کو اپنے میں مشغول کر کے اس کو اس کے رب سے غافل کر دیتی اور سرکش و گمراہ بنادیتی ہے۔
تو جب اللہ تعالیٰ اتنا کھانا اور کپڑا اور مکان ، جو تمہاری بشریت کے قائم رہنے کے لئےاور اتنا علم اور عمل اور ذوق اور معرفت ، جو تمہاری روحانیت کے قائم رہنے کے لئے کافی ہو تم کو عطا فرمادے اور جو اشیاء تم کو سرکش اور گمراہ کرتی اور تم کو اپنے میں مشغول کر کے ، اپنے رب کے ساتھ تمہارے حضور سے تم کو غافل کرتی ہیں۔ ان سے تم کو محروم کر دے۔ تو یقینی طور پر اس نے اپنی نعمت تمہارے اوپرمکمل کر دی۔ لہذا تم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، جو اس نے تم کو عطا فرمائی ہے اور ان اشیاء کے معاملے میں جو تمہارے لئے دشوار کر دی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو۔ اور ان اشیاء کو اپنے سے جدا کر دو، جو تمہارے قلب کو اپنے میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ترجمہ: بیشک اللہ تعالی مومنوں کی طرف سے مدافعت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّ الله مَعَ الَّذِينَ اتَّقُوا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ
بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس سے ڈرتے ہیں اور جو احسان والے ہیں ۔
اور حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے اس فقر اور غنا ( محتاجی اور دولت ) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے۔ جو اپنے میں مشغول کر کے غافل کر دیتی اور اللہ تعالیٰ کو بھلا دیتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کو بھلا دینے والے فقر اور گمراہ کر دینے والی دولت سے پنا ہ مانگا کرتے تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے:۔
اللهُمَّ اجْعَلُ رِزْق آلِ مُحَمَّدٍ قَوْتاً اے میرے اللہ تو آل محمد کی روزی بقدرضرورت عطا فر ما ۔
اور نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:۔ خَيْرُ الذِكرِ الْخَفِى أى فِي الْقَلْبِ وَهُوَ الْفِكْرَةُ وَ خَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي
بہترین ذکر ، ذکر خفی ہے۔ جو قلب میں ہوتا ہے اور وہ فکر ہے اور بہترین روزی وہ ہے جو ضرورت کے لئے کافی ہو۔
نیز حضرت رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے ۔
مَا طَلَعَتْ شَمُسٌ إِلَّا وَ بِجَنَا حَيْهَا مَلَكَانِ يُسْمِعَانِ الْخَلَائِقَ غَيْرَ الثقَلینِ – أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمُوا إِلَى رَبِّكُمْ ، مَا قَلَّ وَ كَفَى خَيْرٌ مِّمَّا كَبُرَ وَ الْهِي
جب آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ تو اس کے دونوں طرف دوفرشتے جن اور انسان کے سوا تمام مخلوقات کو یہ پیغام سناتے ہیں :۔ اے لوگو! تم سب اپنے رب کی طرف آؤ۔ جو چیز کم ہے۔ لیکن ضر ورت کے لئے کافی ہے۔ وہ اس سے بہتر ہے، جو زیادہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے غافل کردے۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔ ليس الغنى بكثرَةِ الْعَرْضِ إِنَّمَا الْغِنَى عَلَى النَّفْسِ دولتمندی اور بے نیازی ، مال اور سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ بے نیازی در حقیقت نفس کا بے نیاز ہونا ہے ۔ اور اسی مفہوم میں ایک عارف کا یہ شعر ہے
غنَى النَّفْسِ مَا يَكْفِيكَ عنْ سَد ِّخَلَّةٍ فَإِنْ زِدْتَ شَيْئا عَادَ ذَاكَ الْغَنى فقرًا
نفس کا غناوہ ہے، جو تمہاری ضرورتوں کے لئے کافی ہو۔ اور غیر کی محتاجی سے تم کو بے نیاز کرے لہذا اگر تم کچھ زیادہ چاہوگے تووہ غنا فقر ہو جائے گا۔
حضرت عبدالواحد بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ میں نے سنا ایلہ کے ویرانے میں ایک پاگل لونڈی رہتی ہے۔ جو حکمت کی باتیں کرتی ہے۔ میں اس کو تلاش کرنے لگا۔ آخر میری اس سے ملاقات ہوئی۔ اس کا سرمنڈا ہوا تھا۔ اور وہ ایک اون کا جبہ پہنے ہوئی تھی۔ جب اس نے مجھے کو دیکھا تو کہا: اے عبدالواحد ! تمہارا آنا مبارک ہو۔ مجھ کو اس بات سے تعجب ہوا کہ اس نے مجھ کو کیسے پہچان لیا۔ جبکہ اس نے اس سے پہلے مجھ کوکبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اس کو جواب دیا : اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک کرے۔ پھر اس نے کہا ۔ آپ کیوں آئے ہیں؟ میں نے کہا ۔ آپ مجھ کو کچھ نصیحت فرمائیے۔ اس نے کہا ۔ ایسے واعظ پر تعجب ہے، جس کو نصیحت کی جائے ۔ اے عبدالواحد  تم یہ جان لو، بندہ جب کفایت میں ہوتا ہے یعنی اس کی ضرورت کے مطابق اس کومل جاتا ہے اور پھر بھی وہ دنیا کی کسی شے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ زہد کی لذت اس سے چھین لیتا ہے۔ اور وہ اس کے لئے حیران و پریشان ہوتا ہے۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا کوئی حصہ ہوتا ہے تو وہ اس کو اس کے سر میں بطور وحی کے دے دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرماتا ہے ۔ اے میرے بندے میں نے چاہا تھا کہ میں اپنے فرشتوں کے نزدیک تیرے مرتبے کو بلند کروں ۔اور تم کو اپنے اولیا کے لئے رہنما اور اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے مرشد بناؤں۔ لیکن تم دنیا کے مال اور سامان کی طرف مائل ہو گئے۔ اور مجھ کو چھوڑ دیا۔ لہذا میں نے انسیت کے بعد وحشت اور عزت کے بعد ذلت اور دولتمندی و بے نیازی کے بعد محتاجی کا تم کو مالک بنا دیا۔ اب تم اس حالت کی طرف لوٹ جاؤ۔ جس حالت پر پہلے تھے۔ تم اپنے نفس کی اسی حالت کی طرف لوٹ جاؤ جس کو تم پہچانتے ہو۔ پھر وہ لونڈی مجھ کو چھوڑ کر چلی گئی اور اس سے مزید بات کرنے کی حسرت میرے دل میں باقی رہ گئی۔
بعض آسمانی کتابوں میں ہے :۔ سب سے آسان معاملہ جو میں اہل دنیا کے ساتھ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب وہ دنیا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ، میں اپنی مناجات کی لذت اس سے چھین لیتا ہوں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ کفایت ( ضرورت کے موافق ملنا ) نعمت ہے۔ اور ضرورت ہے زیادہ ملنا و بال ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔ کیونکہ نفس فطری ( پیدائشی طور) پر عطا اور بخشش سے محبت کرتا ہے۔ اور محروم کرنے کو نا پسند کرتا ہے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے، تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جب اس سے چھین لیتا ہے۔ تو وہ رنج و غم کرتا ہے۔ لہذا جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی خوشی ہمیشہ قائم رہے، اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کوئی ایسی شے نہ لے، جس کے کھو جانے سے اس کو غم ہو ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں