اہل جذب و سلوک میں فرق (پچیسواں باب)

اہل جذب و سلوک میں فرق کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 250 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اہل جذب اور اہل سلوک ، اور اہل نزول اور اہل عروج ، ( یعنی مجذوب اورسالک) کی کیفیت بیان فرمائی:۔
فَأَهْلُ الجَذْبِ يَكْشِفُ لهمْ عَنْ كَمَالِ ذَاتِهِ ، ثُمَّ يَرُدُّهُمْ إِلى شُهُودِ صِفَاتِهِ ، ثُمَّ يَرُدُّهُمْ إِلى التَّعَلُّقِ بِأَسمَائِهِ ، ثُمَّ يَرُدُّهُمْ إِلى شُهُودِ آثَارِهِ ، وَالسَّالِكُونَ عَلَى عَكْسِ هَذَا ، فَنِهَايَةُ السَّالِكِينَ بِدَايَةُ المَجْذُوبِينَ لكِنْ لا بِمَعْنَىً وَاحِدٍ ، فَرُبمَّا التَقَيَا في الطَّرِيق ِ، هَذَا في تَرَقِّيهِ وَهَذا في تَدَلِّيهِ .
مجذ وبین کے سامنے اللہ تعالیٰ اپنی ذات اقدس کا کمال ظاہر کرتا ہے۔ پھر ان کو اپنی صفات کے شہود کی طرف لوٹا تا ہے۔ پھر ان کو اپنے اسما ءحسنی کے ساتھ تعلق کی طرف لوٹاتا ہے۔ پھر ان کو اپنے آثار یعنی مخلوقات کے شہود کی طرف لوٹاتا ہے۔ اور سالکین کا حال اس کے برعکس ہے۔ وہ آثار کے شہود سے ترقی کر کے یکے بعد دیگرے ذات اقدس کے کمال کے شہود تک پہنچتے ہیں۔ لہذا سالکین کی انتہاء مجذ وبین کی ابتداء ہے۔ لیکن ایک حقیقت میں نہیں ہوتے ہیں ۔ اور اکثر اوقات دونوں راستے میں ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں ۔ سالکین اپنے عروج میں اور مجذ وبین اپنے نزول میں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کے دو بندے جو خصوصیت کے راز کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اپنی سیر کی حالت کے اعتبار ، ان کی دو قسمیں ہیں:۔
ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کی ابتداء جذب سے ہوتی ہے۔ پھر وہ سلوک کی طرف لوٹتے ہیں۔
دوسری قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو سلوک سے ابتدا کرتے ہیں اور ایک مقام سے دوسرے مقام میں ترقی کرتے ہیں۔ پھر ان کے اوپر جذب طاری ہوتا ہے۔ پھر وہ ہوش میں آتے ہیں۔ لہذا مجذوبین کے سامنے ابتداہی میں بغیر کسی مجاہدے کے ذات اقدس کا شہود ظاہر ہوتا ہے۔
تو وہ ذات اقدس کے نور کے شہود کے نشے میں مست ہو جاتے ہیں۔ لہذاوہ واسطہ اور شرعی احکام کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ نور کے شہود میں مغلوب الحال ہو کر عقل و شعور سے خارج ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ ذات اقدس کے شہود سے صفات عالی کے شہود کی طرف نزول کرتے ہیں۔ تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کو کثیف اور ظاہر حالت میں دیکھتے ہیں۔ اور اثر یعنی مخلوق کے دیکھنے سے وہ گم ہوتے ہیں۔ اور جب وہ صفات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ ان اسماء سے متعلق ہو جاتے ہیں۔ جو صفات کے ساتھ لازم ہیں۔ پھر وہ اس کے آثار یعنی مخلوقات کی طرف نزول کرتے ہیں۔ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے احکام کے ساتھ قائم ہوتے ہیں (یعنی شریعت کے احکام کی پابندی کرتے ہیں) اور سالکین اس کے برعکس ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے وجود سے اس کے اسمائے حسنیٰ کے وجود کی طرف ، اور اس کے اسمائے حسنیٰ کے وجود سے اس کی صفات عالیہ کے وجود کی طرف ، اور اس کی صفات کے وجود سے اس کی ذات اقدس کے وجود کی طرف رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
لہذا سالکین کی انتہا یعنی ذات اقدس کے نور کا شہود: مجذو بین کی ابتداء ہے۔ اور مجذو بین کی انتہاء یعنی مخلوق کا شہود: سالکین کی ابتدا ہے۔ لیکن دونوں کی حقیقت ایک نہیں ہے۔ بلکہ ایک یعنی مجذ و بین: نزول کی حالت میں اشیاء کواللہ تعالیٰ کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور دوسرا یعنی سالکین: عروج کی حالت میں اشیاء کو اپنے نفس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور اکثر اوقات دونوں یعنی مجذ و بین اور سالکین راستے میں مل جاتے ہیں ۔ مثلا صفات کے شہود ، اور اسماء حسنی کے ساتھ تعلق کے مقام میں، سالکین اپنے عروج کی حالت میں، اور مجذو بین اپنے نزول کی حالت میں، جب دونوں ایک ساتھ پہنچتے ہیں۔ تو ایک مقام میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ عروج کرنے والے سالکین اس اثر کی طرف رجوع کرتے ہیں جس کی انتہا تک ذات کے شہود کے بعد مجذو بین پہنچتے ہیں۔ اور ان کا رجوع اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔
لہذا سالک اور مجذوب دونوں بقا کے مقام میں ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔ اور مریدین کی تربیت کے معاملے میں اہل عروج سالکین ، اہل نزول مجذ و بین سے زیادہ کامل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ راستے کی سختیوں اور خطروں سے گزر کر بخوبی آگاہ اور مضبوط اور تجربہ کار ہو چکے ہیں ۔ بخلاف مجذوبین کے ، کہ وہ اچانک اٹھالئے گئے ہیں۔ اور راستے کے نشیب و فراز سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے اس لئے کہ اکثر لوگ پہلے سلوک اختیار کرتے ہیں ۔ پھر بعد میں ان پر جذب طاری ہوتا ہے۔ اور طریقہ شاذلیہ میں پہلے ہی قدم سے اکثر مریدین پر جذب اور سلوک ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ اور جذب کے معنی مخلوق کے شہود سے خالق کے شہود کی طرف روح کو اچانک کھینچ لیاجاتا ہے۔ اور تم یہ معلوم کر لو : اہل خصوصیت کی چار قسمیں ہیں۔
پہلی قسم : صرف سالکین ۔ دوسری قسم : صرف مجذو ہین ۔ تیسری قسم: سالکین مجذو بین۔
چوتھی قسم مجذو بین سالکین ۔ پہلی دونوں قسموں کے لوگ یعنی صرف سالکین، اور صرف مجذ و بین، مریدین کی تربیت اور
ہدایت کی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ صرف سالکین : ۔ اسلئے تربیت کے اہل نہیں ہیں کہ وہ صرف ظاہر والے ہیں ان کے باطن میں کوئی نور نہیں ہے۔ کہ وہ اس کے ذریعے دوسروں کو کھینچیں ۔اور صرف مجذ و بین:۔اس لئے اہل نہیں ہیں کہ ان کے پاس سلوک نہیں ہے۔ جس کے ذریعے وہ مریدین کو سیر کرائیں ۔ اور آخری دونوں قسموں کے لوگ، یعنی سالکین مجذو بین ، اور مجذ و بین سالکین ۔ دوسروں کی تربیت اور ہدایت کے اہل ہیں۔ لیکن سالکین مجذ وبین مجذ وبین سالکین سے افضل ہوتے ہیں ۔ اور تم یہ جان لو : پہلے سلوک کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر مخلوق کا مشہود ہے۔ اورپہلے جذب کی حقیقت:۔ یہ ہے کہ مخلوق کے بغیر اللہ تعالیٰ کا شہود ہو ۔ اور دوسرے سلوک کی حقیقت :۔ یہ ہے کہ مخلوق کا شہود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں