بارگاہ الہٰی کے چھ اسرار(پہلا مراسلہ)

بارگاہ الہٰی کے چھ اسرار کے عنوان سے پہلے مراسلے کا ساتواں حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بارگاہ الہٰی کے اسرار بیان فرمائے اور وہ چھ ہیں ۔ چنانچہ فرمایا۔

فِي مَحَلَّ الْمُفَاتَحَةِ ، وَالْمُوَاجَهَةِ ، وَالمُجَالَسَةِ ، وَالْمُحَادَثَةِ ، وَالْمُشَاهَدَةِ ، وَالْمُطَالَعَةِ

مفاتحہ، اور مواجہہ، اور مجالسہ، اور محادثہ، اور مشاہدہ اور مطالعہ کے مقام میں    میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : مفاتحہ ۔ غیوب کے علوم کا کھلنا ہے۔ پس تم اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کر کے کشادگی چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر سے حجاب دور کر کے تم کو کشادگی عطا فرماتا ہے تم اسی سے زیادتی طلب کر کے کشادگی چاہتے ہو اور وہ تم کو مسلسل فائدہ پہنچا کر کشادگی عطا فرماتا ہے تم اس سے مقامات میں ترقی کی کشادگی چاہتے ہو اور وہ تمہارے سامنے علوم و مکاشفات کے اسرار منکشف فرماتا ہے۔

اور مواجہہ ۔ ملکوت کے انوار ، اور جبروت کے اسرار کا سامنے ہوتا ہے۔ پس تم انوار توجہ کے ساتھ اس کے سامنے ہوتے ہو اور وہ انوار مواجہت کے ساتھ تمہارے سامنے ہوتا ہے اور یہ حجاب کا دور ہونا اور دروازے کا کھلنا ہے ۔ تم عبادت کے ساتھ اس کے سامنے ہوتے ہو اور وہ محبت کے ساتھ تمہارے سامنے ہوتا ہے تم اس کی طرف بڑھنے کے ساتھ اس کے سامنے ہوتے ہو اور وہ  وصال کے ساتھ تمہارے سامنے ہوتا ہے۔ تم ملکوت کے انوار ظاہر ہوئے کی طلب کے ساتھ اس کے سامنے ہوتے ہو اور وہ جبروت کے اسرار ظاہر کرنے کے ساتھ تمہارے سامنے ہوتا ہے۔

اور مجالسہ:- ادب اورہیبت کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ پس تم ادب اور حیاء کے ساتھ اس کے ساتھ بیٹھتے ہو اور وہ قریب کرنے اور منتخب کرنے کے ساتھ تمہارے ساتھ بیٹھتا ہے۔ تم اس کے مراقبہ کے ساتھ اس کے ساتھ بیٹھتے ہو اور وہ اپنی حفاظت اور نگرانی کے ساتھ تمہارے ساتھ بیٹھتا ہے۔ تم اس کے ذکر کے ساتھ اس کے ساتھ بیٹھتے ہو اور وہ اپنے احسان کے ساتھ تمہارے ساتھ بیٹھتا ہے۔

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:۔

أَنَا جَلِيسٌ مَنْ ذَكَرَنِي میں اس شخص کا ہم نشین ہوں، جو میرا ذ کر کرتا ہے

اور محادثہ: وہ قلب کا کلام ہے، اور وہ فکر کرنا، اور جبروت کی عظمت میں چکر لگانا ہے۔ پس تم اپنے سر میں اس کی مناجات اور سوال کے ساتھ اس سے کلام کرتے ہو اور وہ اپنے احسان اور بخشش زیادہ کرنے کے ساتھ تم سے کلام کرتا ہے۔ تم اپنے سر اور روح میں اس کے دائمی حضور کے ساتھ اس سے کلام کرتے ہو اور وہ تمہارے قلب میں علوم و اسرار اور حکمتوں کے القا کے ساتھ تم سے کلام کرتا ہے۔ تم عالم شہادت میں اس سے کلام کرتے ہو اور ہ عالم غیب میں تم سے کلام کرتا ہے۔

اور تحقیق یہ ہے کہ، کہ وہاں عالم غیب ہی ہے جو عالم شہادت میں ظاہر ہوا ہے۔ حضرت جنید نے اس مفہوم میں فرمایا ہے:۔ چالیس سال سے میں اللہ تعالیٰ سے بات کرتاہوں حالانکہ لوگ یہ دیکھتے ہیں ، کہ میں مخلوق سے بات کرتا ہوں اور حضرت رابعہ عدویہ نے فرمایاہے۔

وَلَقَدْ جَعَلْتُكَ فِي الفُوَادِ مُحدِّثِى            وَاَبَحْتُ جِسْمِي مَنْ أَرَادَ جُلُوسِىْ

اور میں نے اپنے قلب میں تجھ کو اپنا ہم کلام بنایا ہے اور میں نے اپنے جسم کو اس شخص کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی ہے جو میرے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے

فَالْجِسْمُ مِنِّی لِلْجَلِيسِ مُوانِسُ     وَحَبِيبُ قَلْبِي فِي الْفُوَادِ اَنِیْسِىْ

لہذا میرا جسم ہم نشین سے مانوس ہے اور میرے قلب کا دوست میرے قلب میں مجھ سے مانوس ہے۔

اور مشاہدہ:۔ نور قدس سے محسوس ظاہر کا حجاب دور ہوتا ہے۔

یا تم اس طرح کہو ۔ مشاہدہ:۔ مخلوق سے حفاظت کی چادر ہٹ جاتی ہے۔ پس تم اس کی ذات اقدس کا مشاہدہ اس کے عالم ملکوت میں کرتے ہو اور وہ تمہارا مشاہد ہ اپنے عالم ملک میں کرتا ہے تم اس کی ربوبیت کا مشاہدہ کرتے ہو اور وہ تمہاری   عبودیت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حاصل یہ ہے – بندے کی طرف سے مشاہدہ – عظمت کے ساتھ حکمت کا مشاہدہ کرنا ہے۔

جیسا کہ ہمارے شیخ نے فرمایا ہے:۔ بندے کیلئے رب کا مشاہدہ:۔اپنے احوال اور اسرار کواللہ تعالیٰ کے علم کے احاطہ کرنے کا مشاہدہ کرنا ہے۔

اور مطالعہ:۔ وہ ملک اور ملکوت اور جبروت کے اسرار اور قدر کے اسرار کا مطالعہ کرتا ہے۔ پس تم توجہ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہو اور وہ اپنی طرف ترقی دینے کے ساتھ تم کو دیکھتا ہے۔ تم اس کی قضا و قدر کے مواقع کو دیکھتے ہو پھر قبولیت اور رضامندی کے ساتھ ان سے ملتے ہو اور وہ تمہارے احوال اور سرائر کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے اوپر سے حجابات کو دور کر دیتا ہے۔ اور تمہارے لیے فضا کو کشادہ کر دیتا ہے۔ تم قریب اور متوجہ ہونے کے ساتھ اس کو دیکھتے ہیں ہو اور وہ محبت اور وصال کے ساتھ تم کو دیکھتا ہے۔ اور پیش قدمی اور وصال کے ساتھ تم سے ملاقات کرتا ہے اور یہ اسرار صرف اہل ذوق ہی لکھتے ہیں۔ لہذا ہر شخص اپنے ذوق اور حال کے مطابق ان کا مزہ چکھتا ہے۔وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ

لہذا اگر روح ان مرتبوں میں قائم ہو جاتی ہے تو بارگاہ الہٰی اس کا ٹھکانا اور پناہ گاہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:

فَصَارَتِ الْحَضَرَةُ مُعَشَّشَ قُلُوبِهِمْ                                               ، إِلَيْهَا يَاوُونَ وَفِيهَا يَسْكُنُونَ

پس بارگاہ الہٰی ان کے قلوب کا آشیانہ ہو جاتا ہے۔ اس کی طرف وہ پناہ لیتے ہیں اور وہ اسی میں آرام کرتے ہیں

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: عش الطير — چڑیوں کا آشیانہ ہے جس میں وہ پناہ لیتی ہیں پس عارفین کی ارواح بارگاہ الہٰی کی چڑیاں ہیں ، جو ملکوت میں اڑتی ہیں، اور جبروت میں چگتی ہیں ، پھر ظاہر میں عبوبیت کے آشیانے میں، اور باطن میں شہود کے آشیانے میں وہ پناہ لیتی ہیں۔ لہذا وہ بارگاہ جو عارفین کے قلوب کا آشیانہ ہے وہی ذات اقدس کی بارگاہ قدس ہے جس میں وہ پناہ لیتے اور آرام کرتے ہیں۔ یعنی ملکوت کی فضا اور جبروت کے اسرار کی طرف اڑنے کے بعد جب وہ لوٹتے ہیں تواس میں آرام کرتے ہیں پھر اس میں سے بھی نہیں نکلتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ اس میں ان کو کوئی مشقت اور تکان نہ پہنچے گی ، اور نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں گے

اور بارگاہ قدس کا مقام : اعلی علین ہے اور وہ عارفین کے قلوب کا عرش ہے

فَإِنْ نَزَلُو إِلَى سَمَاءِ الْحُقوقِ أَوْ أَرْضِ الْحُظُوظ ، فَبَا الْإِذْنِ وَالتَّمْكِينِ ، وَالرُّسُوخِ فِي  الْیَقِیْنِ پھر اگر وہ بارگاہ قدس سے حقوق کے آسمان یا فوائد کی زمین کی طرف نزول کرتے (اتر تے ) ہیں، تو اللہ تعالیٰ کی اجازت اور تمکین ، اور یقین میں مضبوطی کے ساتھ نزول کرتے ہیں

حضرت شیخ زروق   نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی توحید ، عرش ہے اور شریعت مطہرہ اس عرش کی کرسی ہے اور اس میں فضیلت والے حقوق اس کے آسمان ہیں اور نفسانی فوائد اس کی زمین ہے۔ لہذا جس حقیقت کے ساتھ شریعت نہ ہو اس حقیقت والے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جس شریعت کی مدد حقیقت نہ کر لے اس شریعت والے کیلئے کوئی کمال نہیں ہے۔ میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : نزول:۔ یہاں مجاز ہے ، گویا کہ آزادی ، عرش ہے اور بندگی آسمان یا زمین ہے۔ یا تم اس طرح کہو۔ حقیقت – عرش ہے اور شریعت زمین ہے تو جب تک روح وحدت کے سمندر میں ہے گویا کہ وہ عرش الہٰی پر ہے اور جب وہ معبودیت کی طرف نزول کرتی ہے اس وقت وہ گویاکہ آسمان یاز مین کی طرف نزول کرتی ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام اور اپنی شارحین کے کلام کا جنہوں نے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی پیروی کی ہے۔

ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حقوق کے آسمان یا فوائد کی زمین کی طرف نزول کرنا ۔بار گاہ الہٰی سے نکل جانا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جس شخص کا عمل اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو اور جس کے کل تصرفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں اس کیلئے بار گا ہ الہٰی سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اس کے حق میں نزول صرف جسم کے ساتھ ہے نہ کہ قلب کے ساتھ کیونکہ قلب اپنے آشیانے سے اس میں ٹھہر جانے کے بعد بھی نہیں نکلتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں