باطنی ملکوتی اسرار (پچیسواں باب)

باطنی ملکوتی اسرار کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 251 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
بندہ واصل ، شہود و عیاں کے جن انوار کو پاتا ہے، وہ محسوس ظاہر نہیں ہے کہ ہر انسان ان کو پاجائے ۔ بلکہ وہ در حقیقت قلبی حقیقتیں ، اور باطنی ملکوتی اسرار ہیں ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔
251) لا يُعْلَمُ قَدْرُ أَنْوَارِ القُلُوبِ وَالأَسْرَارِ إِلاَّ فِي غَيْبِ المَلَكُوتِ ، كَمَا لا تَظْهَرُ أَنْوَارُ السَّمَاءِ إِلاَّ فِي شَهَادَةِ المُلْكِ .
قلوب کے انوار اور اسرار کی قدرو منزلت ملکوت کے غیب ہی میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ آسمان کے انوار ملک کی شہادت ہی میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: تم یہ جان لو کہ سب آدمیوں کے قلوب میں نور موجود ہے اس کی دلیل حضرت رسول کریم ﷺکی یہ حدیث شریف ہے۔
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔
یعنی ہرلڑ کا ابتدائی پیدائش پر ہوتا ہے۔ اور ابتدائی پیدائش قبضہ نورانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔
اہل ظاہر مفسرین نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین میں رہنے والوں کا نور ہے۔ اور وہ آسمانوں اور زمین میں موجود ہرہستی کے لئے عام ہے۔
لہذا یہ ثابت ہو گیا کہ یہ نور سب کے اندر سرایت کئے ہوئے ہے۔ تو آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں ، جو اس نور سے محجوب اور اندھے ہو گئے ہیں۔ اور وہ وہی لوگ ہیں جو ملک کے ظاہر میں مشغول ہو کر ٹھہر گئے ہیں۔ اور ملک کا ظاہر اس کائنات کا چھلکا ، اور اس کا محسوس ظاہر ہے۔ اور اس کا نام عالم اجسام ہے۔ اور وہ لوگ اس کے باطن تک نہیں پہنچتے ہیں۔ اور اس کا باطن ملکوت ہے اور اس کا نام عالم ارواح ہے۔ لہذا وہ لوگ اس کے باطنی نور سے محجوب ہیں ۔ اور صرف محسوس ظاہری نور کو دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ مخلوقات کے جیل خانے میں بند ہیں ۔ حس اور وہم کی ظلمت میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی بصیرت ملک کے باطنی نور کے مشہود تک پہنچی۔ اور وہ لوگ چھلکے کے ساتھ نہیں ٹھہرے۔ بلکہ مغز کے شہود تک پہنچ گئے ۔ اور وہ مغز: ملکوت کے انوار اور جبروت کے اسرار ہیں:۔
اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف مباحث میں اشارہ فرمایا ہے:۔
مهما تعديت عن الأجسام أبصَرتَ نُورَ الْحَقِّ ذَا ابْتِسَامِ
جب تم اجسام سے گزر کر آگے بڑھے تو تم نے اللہ تعالیٰ کے نور کو مسکراتے ہوئے دیکھا
اور اس نور کو عارفین کے قلوب دیکھتے ہیں۔ نہ کہ غافلین کے قلوب ۔ جیسا کہ حضرت منصور حلاج نے اپنے اس شعر میں فرمایا ہے:
قُلُوبُ الْعَارِفِينَ لَهَا عُيُونٌ تَرَى مَا لَا يُرَى لِلنَّاظِرِينَ
عارفین کے قلوب کے لئے ایسی آنکھیں ہیں۔ جو ان چیزوں کو دیکھتی ہیں جو دوسرے دیکھنےوالوں کو نظر نہیں آتی ہیں۔
تو جب تم نے اس حقیقت کوسمجھ لیا تو تم کو یہ معلوم ہو گیا۔ کہ لایعلم مفعول مایسم فاعلہ کے لئے ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں ۔ کہ قلوب کے غیبی انوار اور اس کی بزرگی اور اسرار کے قدسی انوار اور ان کا کمال کی قدر ملکوت اور جبروت کے غیب ہی میں ظا ہر ہوتی ہے۔
لہذا قلوب کے انوار کی قدر و منزلت ملکوت کے غیب ہی میں معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ انوار جبروت کے سمندروں سے اچھلتے ہیں۔ لہذا جو شخص ملکوت کے شہود تک نہیں پہنچتا ہے۔ وہ ان کی قدر و منزلت نہیں جانتا ہے۔ بلکہ وہ سرے سے پہچانتا ہی نہیں ہے۔ اور اسرار کے انوار کی قدر و منزلت جبروت کے غیب ہی میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ اصلی از لی انوار ہیں۔ اور وہ عالم مطلق میں داخل نہیں ہیں۔ لہذا جو شخص عالم ملک میں رکا ہوا ہے۔ وہ ملکوت کے انوار کی قدر نہ جانتا ہے ، نہ محسوس کرتا ہے۔ بلکہ وہ ان کا انکار کرتا ہے۔
ہم نے بہت سے خصوصیت کے دعوے کرنے والوں کو ان انوار کا انکار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حالانکہ وہ خصوصیت سے بہت دور ہیں۔ اور جو شخص ملکوت کے انوار کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہے، وہ جبروت کے انوار کی قدرت و منزلت نہیں جانتا ہے۔ اور جو شخص ان دونوں سے گزر کر آگے بڑھ جاتا ہے، وہ سب کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اور جس طرح غیبی انوار عالم ملکوت یا جبروت کے غیب ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے محسوس انوار، عالم شہادت یعنی محسوس عالم ہی میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ جس کا نام ملک ہے۔
حاصل یہ ہے: قلوب کے انوار ہی ملکوت کے انوار ہیں۔ اور اسرار کے انوار ہی جبروت کےانوار ہیں۔ اور وہ غیبی انوار ہیں۔ ان کی قدر ومنزلت وہی شخص جانتا ہے جو عالم ملکوت یا جبروت تک پہنچتا ہے۔ لہذا جب وہ اس مقام میں پہنچتا ہے ، اسی وقت وہ ان کو پاتا ہے۔ اور علم اور حال کے اعتبارسے ان کی قدر اس کو معلوم ہوتی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
تنبیہ :۔ میں نے اس کتاب کی شرح لکھنے والوں میں سے اکثر حضرات کو دیکھا ہے کہ انہوں نے ملک اور ملکوت اور جبروت کی تعبیر بیان کرنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے گمان کیا ہے۔ کہ ملک یہ عالم دنیا ہے۔ اور ملکوت و و عالم آخرت ہے۔ اور جبروت وہ عالم ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے۔ حالانکہ یہ تشریح غلط ہے۔ اس لئے کہ اگر در حقیقت ویسا ہی ہوتا جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے۔ تو ملک سے ملکوت کی طرف اور ملکوت سے جبروت کی طرف ترقی صحیح نہ ہوتی ۔ اس لئے کہ ان کی تشریح کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ عالم ملک، عالم ملکوت نہیں ہوتا ہے۔ اور عالم ملکوت ، عالم جبروت نہیں ہوتا ہے اور یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے محققین نے اس حقیقت کو قطعی قرار دیا ہے۔ کہ اہل ملکوت ، عالم ملک کو بالکل نہیں دیکھتے ہیں۔ اور اہل جبروت، عالم ملکوت سے محجوب ہوتے ہیں۔ حضرت نقشبندی رضی اللہ عنہ نے شرح ہائیہ میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
اور صحیح یہ ہے۔ مقام ایک ہے۔ اور وہ اصلی اور فرعی وجود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جو عظمت عالم خلق میں داخل نہیں ہوئی ہے وہ عالم جبروت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جو عظمت عالم خلق میں داخل ہوئی۔ تو جس شخص نے اس عظمت کو اس کی اصل عالم جبروت سے ملی ہوئی مشاہدہ کیا۔ اور اس میں جمع کر دیا۔ وہ اس کے لئے عالم ملکوت ہے اور جس شخص نے اس کو فرق کر دیا۔ اور اس کے ساتھ محجوب ہو گیا۔ وہ اس کے حق میں ملک ہے۔ تو حاصل یہ ہوا: مقام ایک ہے اور کل معاملہ صرف اعتباری ہے ۔ نظر اور فکر کی تبدیلی کے ساتھ نام ہوتا رہتا ہے۔ اور معرفت میں ترقی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ نظر اور فکر میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لہذا جو شخص مخلوق کے ساتھ ٹھہر گیا، وہ اس کے حق میں ملک ہو گیا۔ اور جو شخص ترقی کر کے اس نور تک پہنچا جو عالم جبروت سے جاری ہوتا ہے مگر یہ کہ اس نے اس نور کو کثیف نورانی دیکھا۔ اور عالم جبروت کے نور کی طرح اس کو لطیف نہیں دیکھا۔ اس کے حق میں اس کا نام ملکوت رکھا گیا۔ اور جس شخص نے اس نور کو اس کی اصل کے ساتھ شامل دیکھا۔ اور لطیف اور کثیف نور کے در میان امتیاز نہیں کیا۔ اس کا نام اس کے حق میں جبروت رکھا گیا۔ میں نے اپنے قصید و تائیہ میں ملک اور ملکوت اور جبروت کی حقیقت بیان کی ہے۔ اس قصیدے کا کچھ حصہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح شرح تصلیہ مشیشیہ میں بھی ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے اوپر یہ انوار ظاہر ہوں اور وہ ان مقامات پر پہنچے ۔ اس کےلئے اعمال کی پابندی ، اور احوال کی سختیوں کا ذائقہ چکھنا لازمی ہے لہذا جب وہ کوئی عمل کرے۔ وہ اس عمل کی شیرینی چکھے، تو اس کو اسے اپنے لئے معرفت کا دروازہ کھلنے کی خوشخبری سمجھنی چاہیئے کیونکہ یہی سائرین کی سیر کا نتیجہ ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں