بشریت کا وصف (گیارھواں باب)

بشریت کا وصف کے عنوان سے گیارھویں باب میں  حکمت نمبر 108 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تو پاک ہے وہ ذات جس نے ان کو ان کے ظاہر ہونے کی حالت میں پوشیدہ رکھا اور ان کی پوشیدگی کی حالت میں ان کو ظاہر کیا۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر آگاہ فرمایا
108) سُبْحانَ مَنْ سَتَرَ سِرَّ الخُصوصِيَّةِ بِظُهورِ البَشَرِيَّةِ، وَظَهَرَ بِعَظَمَةِ الرُّبوبِيَّةِ في إظْهارِ العُبُودِيَّةِ.
وہ ذات پاک ہے، جس نے اپنی خصوصیت کے سر کو بشریت کے وصف کے ظاہر ہونے کے ساتھ پوشیدہ کیا۔ اور ربوبیت کی عظمت کے ساتھ عبودیت کےظا ہر کرنے میں ظا ہر ہوا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: خصوصیت، اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وہ نور ہے۔ جس کو وہ اپنے خواص مقربین بندوں کے قلوب میں ان کو کدورتوں سے پاک کرنے ، اور عیوب و اغیار سے صاف کرنے کے بعد روشن کرتا ہے۔ پھر وہ اس نور کے ذریعہ اپنے محبوب حقیقی کے مشاہدہ میں اپنے نفسوں کے مشاہدہ سے غائب ہو جاتے ہیں۔
خصوصیت کا سر: وہ کمالات عالیہ، اور اوصاف قدسیہ، اور صفات منورہ ہیں جن کو خصوصیت کا نور گھیرے ہوئے ہے۔ اور جو اس نور سے آراستہ ذات کے لئے سزاوار ہیں۔ جیسے کبریائی ، اور عزت ، اور قوت ، اور عظمت، اور بزرگی ، اور جیسے کہ قدرت کاملہ، اور علم محیط ( ہر شے کا احاطہ کرنے والا علم )اور سارے کمال کے اوصاف سے موصوف ہونا۔ پھر بے شک اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی عظیم حکمت، اور غالب قدرت سے ان اصواف کو جو اس نور کے لئے لازمی ہیں۔ ان کی ضدوں یعنی مخالفوں کے ظہور کے ساتھ یعنی عبودیت کے اوصاف کے ساتھ پوشیدہ کر دیا ہے۔
چنانچہ اپنی کبریائی اور عظمت کو بندے پر عاجزی، اور محتاجی اور کمزوری کے ظہور کے ساتھ پوشیدہ کیا۔ اور اپنی قدرت ، اور ارادے کو ، اس کے اوپر عاجزی اور مغلوبیت کے ظہور کے ساتھ پوشیدہ کیا۔ اور اپنے علم محیط کو، اس کے اوپر جہالت اور سہو کے ظہور کے ساتھ پوشیدہ کیا۔ اور ان کے علاوہ، ان تمام اوصاف عبودیت کے ظہور کے ساتھ جو اوصاف ربوبیت کے بالمقابل ہیں ۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اشیاء کو ان کے مخالف اشیاء میں پوشیدہ کیا۔ ربوبیت کے کمالات کو عبودیت کے نقائص میں پوشیدہ کیا۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو سر غیر محفوظ ، اور خزانہ غیر مدفون رہتا۔ اور عنقریب حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول آئے گا۔
ستر أنْوَارَ السَّرَائِرِ بِكَتَائِفِ الظَّوَاهِرِ إجْلًا لَّا لَهَا أَنْ تَنْقَدِلَ بِالْإِظْهَارِ ، وَ أَنْ ينَادَى عَلَيْهَا بِلِسَانِ الْإِشْتِهَارٍ اللہ تعالیٰ نے ارواح کے انوار کو ظاہروں کی کثافتوں کے ذریعہ پوشیدہ کر دیا ۔ تا کہ اظہار کے ذریعہ حقیر اور بے وقعت نہ ہوں۔ اور اشتہار کی زبان ہے ان کا اعلان نہ ہو۔ اسی لئے حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اگر ولی کا نور ظاہر کر دیا جا تا تو اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی پرستش کی جاتی۔ اور حضرت شیخ ابو یزید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے: جب ان کے اوپر اس نور نے تجلی کی تو انہوں نے فرمایا:
سُبْحَانِى مَا أَعْظَمَ شَانیمیں پاک ہوں ۔ میری شان بہت بڑی ہے ۔
اور حضرت منصور حلاج رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انا أنتَ بِلَا شک سُبْحَانَكَ سُبْحَانِي
بے شک میں تو ہوں ۔ تیری پاکیزگی میری پاکیزگی ہے ۔
تَوْحِيدُ كَ تَوْحِيدِى وَعِصْيَانُكَ عِصْيَانِي
تیری توحید میری تو حید ہے ۔ اور تیری نافرمانی میری نافرمانی ہے۔
نیز حضرت حلاج نے یہ بھی فرمایا :
سُبْحَانَ مَنْ أَظْهَرَ نَاسُوتَه س ِرُّ سَنَاءِ لَاهُوتِهِ الثَّاقِبُ
پاک ہے وہ ذات جس کے ناسوت کے سر کو اس کے روشن لاہوت کی روشنی کے سر نے ظاہر کر دیا۔
ثُمَّ بَدَا فِي خَلْقِهِ ظَاهِرًا فِى صُورَةِ الْآكِلِ وَالشَّارِبِ
پھر وہ پاک ذات اپنی مخلوق میں کھانے پینے والے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
حَتَّى لَقَدْ عَاَیَنَه خَلْقُهُ كَلَحْظَةِ الْحَاجِبِ بِالْحَاجِبِ
یہاں تک کہ اس کی مخلوق نے اس کو ایک نظر پردہ کرنے والے کی ایک نظر کی طرح دیکھا
اوراسی قسم کے اسرار ظاہر کرنے کی وجہ سے حضرت منصور حلاج رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحمت ہے کہ اس نے اس سر کو اس کے نقائص کے ظہور کے ساتھ پوشیدہ کر دیا تا کہ یہ سر نا اہل کے سامنے ظاہر ہونے سے محفوظ رہے۔ اور جس نے اس کو نا اہل کےسامنے ظاہر کیا وہ قتل کیا گیا جیسا کہ حضرت منصور حلاج کے ساتھ کیا گیا۔ اور جس طرح خصوصیت کے سر کو اس کے مخالفت کے ظہور کے ساتھ پو شیدہ کیا۔ اسی طرح وہ ربوبیت کی عظمت کے ساتھ عبودیت کے مظاہر میں ظاہر ہوا۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: عبودیت : ۔ ایسا جو ہر ہے جس کے ذریعہ اس نے اپنی ربوبیت ظاہر کی۔ اس لئے کہ ربوبیت ایسے بندے کا تقاضا کرتی ہے جو ان کمالات الہٰیہ ، اور صفات قدسیہ کے مخالف صفات سے موصوف ہو، جس سے اس کا رب موصوف ہے۔ تو ربوبیت کے اوصاف ( مثلا غناء اور عزت، اور قدرت اور ان کے علاوہ کمالات ) نہیں ظاہر ہوتے مگر اپنے مخالف اوصاف (محتاجی اور عاجزی اور کمزوری ) وغیرہ میں ۔ تو حقیقی محتاجی تمام موجودات کو شامل ہے۔ اور مطلق غنا صرف اس ذات مقدسہ کے لئے واجب ہے جو زمین اور آسمانوں میں جلوہ گر ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ، وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُهاے انسا نو ا تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔
توجب یہ بات ثابت ہو چکی تم نے یہ معلوم کر لیا کہ سر خصوصیت میں اضافت بیانی نہیں ہے بلکہ اضافت تخصیص کیلئے ہے یعنی خصوصیت کا سر خصوصیت کے علاوہ ہے ۔ اور دوسری شے ہے۔ اس لئے که خصوصیت: وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے اولیائے کرام کے قلوب میں ڈالتا ہے۔ اور خصوصیت کا سر : وہ کمالات ہیں ، جو اس نور کے لئے لازم ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور تم یہ جان لو کہ خصوصیت کا سر: جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیائے عظام کے باطن میں رکھا اور اس کو ان کی بشریت کے وصف کے ظہور کے ساتھ پوشیدہ کیا۔ کبھی اس کو ان کے اوپر خرق عادت کے طور پر ظاہر کر دیتا ہے۔ توکبھی وہ اپنے ولی پر اپنی قدرت، اور اپنے علم ، اور اپنے تمام کمالات سے وہ چیزیں ظاہر کرتا ہے۔ جن میں عقلیں حیران ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہ حالت ان کے لئے ہمیشہ نہیں رہتی ہے۔ بلکہ کرامات اور خرق عادات کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے او پر اپنے اوصاف کے درجوں کو روشن کرتا ہے تو وہ اس کے اوصاف سے موصوف ہو جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ حالت ان سے قبض کرتا ہے ( روکتا ہے)۔ اور ان کو ان کی حدود بشریت کی طرف اوتا دیتا ہے۔ اس خصوصیت کا نورہی معرفت ہے۔ اور وہ ثابت ہے کبھی زائل نہیں ہوتا ہے۔ اور ساکن ہے، کبھی بدلتا نہیں ہے۔
اور خصوصیت کا سر : اللہ تعالیٰ کے کمالات ہیں۔ کبھی وہ اولیائے کرام کی بشریت کے افق پر چمکتا ہے تو وہ ربوبیت کے اوصاف سے منور ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی وہ ان سے رک جاتا ہے۔ تو وہ اپنی حدود بشریت اور اپنی عبودیت کے مشاہدے کی طرف لوٹ جاتے ہیں تو معرفت ثابت ہے اور واردات مختلف ہوتے رہتے ہیں۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور تم یہ جان لو کہ بشریت کے وہ اوصاف، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے سرکوپوشیدہ کیا ہے۔ وہ صرف ذاتی اوصاف ہیں۔ جو بشر کے لئے لازم ہیں۔ جیسے کھانا اور پیتنااور سونا ، اور نکاح وغیرہ۔ نہ کہ برے اوصاف ، جو عبودیت کے مخالف ہیں۔ مثلا کبر، عجب، اور حسد، اور غضب وغیرہ۔ کیونکہ برے اوصاف۔ عنایت کے نور اور سبقت کرنے والی ہدایت کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
اس لئے کہ خصوصیت اس کے مٹ جانے کے بعد ہی ثابت ہوتی ہے۔ بخلاف ذاتی اوصاف کے۔ کیونکہ وہ خصوصیت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ انشاء اللہ تعالی۔ بلکہ ذاتی اوصاف خصوصیت کے پوشیدہ رکھنے اور حفاظت کرنے والے پردوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اور ان کے وجود سے اولیاء اللہ کے لئے پوشیدگی واقع ہوتی ہے۔ ان کی اس غیرت کی
بناءپر کہ ان کی قدر کو نہ جاننے والے ان کو پہچان لیں۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں بیان فرمایا ہے: اولیا ءاللہ اصحاب کہف ہیں ۔ ان کے پہچاننے والے بہت ہی کم ہیں۔
حضرت شیخ ابو العباس رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا ہے وہ فرماتے تھے۔ ولی اللہ کا پہچا ننا ء اللہ تعالیٰ کے پہچانے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے کمال جلال ، اور جمال کے ساتھ مشہود ہے۔ لیکن ایسی مخلوق کس طرح پہچانی جاسکتی ہے۔ جو تمہاری ہی طرح کھاتی اور جیتی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء میں سے کسی ولی کو تمہیں پہچان کرانا چاہتا ہے تو اس کی بشریت کے وجود کو تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ کر دیتا ہے اور اس کی خصوصیت کے وجود کو تمہارے او پر ظاہر کر دیتا ہے۔
تنبیہ یہ نور، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیائے عظام کے قلوب میں روشن کیا ہے۔ روح کے اندر اس کے ظہور کی اصل میں پوشیدہ تھا۔ پس روح کی اصل یعنی حقیقت ہی نورانی ہے۔ غیب کے اسرار کی عالم ہے۔ اشیاء کی حقیقت سے آگاہ ہے۔ اور اس کو اس نور سے، اس خاکی جسم میں مقید ہونے ، اور اس جسم کے فوائد اور خواہشات میں مشغولیت نے حجاب میں کر دیا تھا۔ تو جو شخص کسی کامل کی تربیت میں رہ کر اس کو ادب دیتا ہے، اور ریاضت سکھاتا ہے۔ تو وہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ مباحث میں فرمایا ہے:
وَلَمْ تَزَلْ كُلُّ نُفُوسِ الْأَحْيَاءِ عَلَامَةٌ دَرَّاكَةٌ للاشيا
اور زندوں کی کل رو حیں ہمیشہ اشیاء کا علم رکھتی اور ان کی حقیقتوں کو سمجھتی ہیں
وَإِنَّمَا تَعُوقُهَا الْأَبْدَانُ وَالْأَنْفُسُ النَّزَعُ وَ الشَّيْطَانُ
اس کو صرف جسم ، اور وسوسہ پیدا کرنے والا نفس ، اور شیطان روکتے ہیں
فَكُلُّ مَنْ آذَاقَهُمْ جِهَادَہ أَظْهَرَ لِلْقَاعِدِ خَرْقَ الْعَادَةِ
تو وہ سب روحیں جن کو اس کی جہاد کا مزہ چکھا دیا جاتا ہے۔ بیٹھنے والی ( جہاد کا مزہ نہ دیکھنے والی ) روحوں کے سامنے خرق عادت ( کرامت ) ظاہر کرتی ہیں۔
پھر جب اغیار سے روح کی پاکیزگی مکمل ہو جاتی ہے اور اس کے اوپر انوار کے سورج چمکتے ہیں تو وہ ذات کے اسرار، اور صفات کے انوار سے منور ہو جاتی ہے۔ پھر وہ تو حید کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔ جس کے بیان سے عبارت عاجز، اور اشارہ قاصر ہے۔ اور یہی وہ خالص توحید ہے
جس کی طرف ہروی نے اپنے ان اشعار میں اشارہ فرمایا ہے:
مَا وَحدَ الْوَاحِدُ مِنْ وَاحِدٍ إِذْ كُلُّ مَنْ وَحْدَهُ جَاحِدٌ
کسی نے اس واحد اللہ تعالیٰ کی توحید نہیں بیان کی ۔ کیونکہ ہر وہ شخص جس نے اس کی توحید بیان کی وہ منکر ہے ۔ (یعنی اس کی توحید کی حقیقت بیان اور اشارہ سے باہر ہے )
تَوْحِيدُ مَنْ يَنْطِقُ عَنْ نَعَتِهِ عَارِيَّةٌ ابْطَلَهَا الْوَاحِد
اس شخص کی توحید جو اس کی تعریف بیان کرتا ہے خالی ہے جس کو اس واحد اللہ تعالیٰ نے باطل قرار دیا ہے ۔
تَوْحِيدُهُ إِيَّاهُ تَوْحِيدُهُ وَنَعْتُ مَنْ يَنْعَتُهُ لَا حِدٌ
اس کے لئے اس کی توحید وہی ہے جو خود اس نے بیان کی ۔ اور اس شخص کی تعریف جو اس کی تعریف بیان کرتا ہے باطل ہے ۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ :۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی توحید کی خودذمہ داری لی ہے۔ تو جو شخص اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کے ساتھ (اپنی عقل کی دلیل کے ساتھ ) اس کو واحد جانا تو وہ اس کی توحید کا منکر ہے۔ کیونکہ اس نے اس کے ساتھ اپنے نفس کو شریک ٹھہرایا۔ اور جو شخص اس کی تعریف اپنے نفس کے ساتھ کرتا ہے وہ راہ حق سے پھرا ہوا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں