بیان کرنے والے کی حالت (بیسواں باب)

بیان کرنے والے کی حالت کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 188 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تم کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیئے ۔ بیان بیان کرنے والے کی حالت پر دلیل اوررہنما نہیں ہے۔کبھی بیان کرنے والا اپنے بیان سے بلند مقام پر ہوتا ہے۔ اورکبھی اس سےنیچے پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشار فرمایا ہے۔
188) رُبَّمَا عَبَّرَ عَنِ الْمَقَامِ مَنِ اسْتَشْرَفَ عَلَيْهِ ، وَرُبَّمَا عَبَّرَ عَنْهُ مَنْ وَصَلَ إِلَيْهِ وَذَلِكَ مُلْتَبَِسٌ إِلاَّ عَلَى صَاحِبِ بَصِيرَةٍ.
اکثر اوقات مقام کو وہ شخص بیان کرتا ہے جوترقی کرنے کی حالت میں اس کو دور سے دیکھتا ہے اور اکثر اوقات وہ شخص بیان کرتا ہے۔ جو مقام تک پہنچ چکا ہے۔ اور یہ حالت مشتبہ ہوتی ہے۔ مگر اہل بصیرت پہچان لیتے ہیں کہ وہ مستشرف (ترقی کرنے والا) ہے۔ یہ اصل ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں بیان بیان کرنے والے کی انتہا کی طرف رہنمائی نہیں کرتا ہے اور نہ جس مقام کا بیان وہ کرتا ہے۔ اس مقام تک اس کے پہنچنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کیونکہ کبھی مقام کا بیان وہ شخص بھی کرتا ہے، جو مقام تک نہیں پہنچا ہے لیکن ترقی کرنے کی حالت میں اس کی نظر اس پر پڑتی ہے اور کبھی مقام کا بیان، و ہ شخص کرتا ہے، جو مقام تک پہنچا ہوا ہے۔ اور اکثر اوقات مقام کا بیان وہ شخص کرتا ہے، جس کا قدم اس بیان کردہ مقام سے بھی آگے ہے۔ اور اس کی پہچان مشکل ہے۔ اس لیے کہ مستشرف اور واصل کو صرف تیز بصیرت والا ہی پہچان سکتا ہے۔ یعنی جس کے اوپر معرفت الہی کا دروازہ کھل چکا ہے۔
لہذا جس شخص کے لئے اللہ تعالی کی معرفت کا دروازہ کھل گیا ہے اور اس سے حجاب دورہو گیا ہے۔ وہ واصل اور مستشرف کے کلام کو پہچان لیتا ہے۔ کیونکہ جو شخص شہر کے اندر جاتا ہے اور اسکے اوصاف سے واقف ہو کر شہر کے متعلق بیان کرتا ہے، اس شخص کا بیان اس کی طرح نہیں ہوتا ہے، جو شہر کے اندر گئے بغیر اس کے متعلق بیان کرتاہے۔
ایک عارف نے فرمایا :۔ مستشرف لمبی تقریر سے اور واصل مختصر تقریر سے پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے کہ مستشرف بیان کو لمبا کرتا ہے۔ اور لفظوں اور جملوں کو دہراتا ہے۔ اور واصل ایک ہی مرتبہ مختصر جملے سے مکمل سمجھا دیتا ہے۔
بزرگوں نے فرمایا ہے:۔ موسیقی کا ماہر ۔ بے فائدہ زیادہ تال سر نہیں کرتا ہے اور فضل و کمال والا :- زیادہ فضول گوئی نہیں کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سے عارفین واصلین کی عبارت لمبی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ خطاب کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور بہت سے مستشرفین کی عبادت مختصر ہوتی ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ الإستشراف وَالْوُصُولُ لَيْسَ إِلَّا مَرَاتِبُ التوَجهِ لِلتَّحَقْقِ بِالْعِجْرِ فَمَنْ وَصَلَ لِمَعْرِفَةِ الْعِجْزِ عَنِ الْوُصُولِ فَهُوَ الْوَاصِلُ ، لَكِنِ الْعِجْرُ لَا يَكُونُ إِلَّا بَعْدَ الْإِنْصَافِ بِهِ حَقِيقَةٌ لا مَجَازًا ، وَ ذَالِكَ أَنَّ الْجَاهِلَ عِجْزہُ حَالِيٌّ قَهْرِيٌّ ، وَالْعَارِفَ عِجْزُهُ جَلَالِي رَحْمَانِي استشراف اور وصول ، صرف عاجزی کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے توجہ کرنے کے مرتبے اور درجے ہیں ۔ لہذا جو شخص عاجزی کی معرفت تک پہنچ گیا ، وہی واصل ہے۔ لیکن عاجزی نہیں پیدا ہوتی ہے، جب تک حقیقتا عاجزی کی صفت سے موصوف نہ ہو۔ نہ کہ مجاز اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ جاہل کی عاجزی، حالی قہری ہوتی ہے اور عارف کی عاجزی ، جلالی رحمانی ہوتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس کے حق میں عاجزی سے مراد یہ ہے کہ پہلے اس کو حیرت اور مد ہوشی لاحق ہو۔ پھر بعد میں احاطہ اور حقیقت سے عاجزی پیدا ہو ۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ۔ اس بات کی شہادت یہ ہے کہ جاہل جب حرکت کرتا ہے تو فوائدنفسانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور عارف حقوق پر قائم رہتا ہے۔ اور جاہل کا حصہ وہم ہے او عارف کا حصہ سمجھ ہے۔ جاہل علم کو طلب کرتا ہے۔ اور عارف اللہ تعالی کو طلب کرتا ہے۔ جاہل کی نظر صرف ظاہری صورتوں کے تابع ہوتی ہے، یعنی وہ صرف ظاہری صورتوں کو دیکھتا ہے۔ اور عارف اپنے قلب کی بصیرت کے ساتھ ، باطنی ارواح کے ساتھ غوطہ لگاتا ہے۔ اور سب مرتبے اور مقامات ظاہر اور باطن کی درمیانی منزلیں ہیں۔ اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ معنا جسمانی شکلوں سے قلبی عالموں کی طرف پھر قلبی عالموں سے روحانی حقیقتوں کی طرف، پھر روحانی حقیقتوں سے ربانی اسرار کی طرف ، پھر ربانی اسرار سے تو حیدی معارف کی طرف منتقل ہوتا۔ اور سالک کے لئے یہ مناسب نہیں ہے، کہ سلوک کے راستے میں جب اس کے سامنے یہ اسرار آئیں۔ تو وہ ان کو بیان کرے۔ بلکہ انہیں پوشیدہ رکھنا چاہیئے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں