تواضع کا مفہوم (پچیسواں باب)

تواضع کا مفہوم کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 238 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پچیسواں باب

تواضع ، فناو بقا ، محبت ، مجاہدہ نفس ، انسان کی حقیقت ، جذب وسلوک ، عروج و نزول کے بیان میں
تواضع کا مفہوم
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-
238) مَنْ أَثْبَتَ لِنَفْسِهِ تَوَاضُعاً فَهُوَ المُتَكَبِّرُ حَقَّاً،إِذْ لَيْسَ التًّوَاضُعُ إِلاَّ عَنْ رِفْعَةٍ،فَمَتى أَثْبَتَّ لِنَفْسِكَ تَوَاضُعاً فَأَنْتَ المُتَكَبِّرُ.
جوشخص اپنے نفس کے لئے تواضع ثابت کرتا ہے۔ وہ در حقیقت متکبر ہے۔ اس لئے کہ تواضع اونچی جگہ سے نیچے اترنے کا نام ہے۔ لہذا جب تم نے اپنے نفس کے لئے تو اضع ثابت کی۔ تو تم متکبر ہو ۔( کیونکہ تم اپنی ذات کو اونچا سمجھتے ہو ) ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ تواضع :۔ نفس کا اس کی وضع (رکھ رکھاؤ ، شان ) قائم رکھنے اور گرانے میں مجاہدہ ہے۔ کیونکہ نفس بلندی چاہتا ہے۔ اور تم اس کو گرانا چاہتے ہو۔ اگر تم حقیقت میں غور کرو گے ۔ اور فکر کی نظر سے دیکھو گے تو تم کو یہ نظر آئے گا۔ کہ کل اشیا چیونٹی سے ہاتھی تک پیدائش اور تجلی میں تمہارے ساتھ برابر ہیں۔ کیونکہ جس ذات اقدس کی تجلی چیونٹی میں ہے، اسی کی تجلی ہاتھی میں ہے۔ لہذا تم اور کتا، پیدائش کی حقیقت میں برابر ہو۔
اور حقیقت یہ ہے کہ اہل فرق کے نزدیک تشریع اور حکمت میں فضیلت واقع ہوئی ہے (یعنی ایک مخلوق کو دوسری پر فضیلت اہل فرق کے نزدیک تشریح اور حکمت کے اعتبارت ہے ) لہذا اہل فرق اپنے سوا دوسری مخلوق سے اپنی ذات کو افضل سمجھتے ہیں۔ لہذا جب وہ دوسری اشیاء کے ساتھ اپنا موازنہ ( دو چیزوں کا وزن کرنا ) کرتے ہیں۔ تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تواضع کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی ذات کے لئے فضیلت ثابت کی اور اپنے کو بلند اور افضل سمجھا۔ پھر انہوں نے اپنی ذات کے لئے تواضع ثابت کی ۔ لہذا در حقیقت وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر تکبر کرنے والے ہیں ۔۔
اور عارفین باللہ اپنی ذات کے لئے کبھی فضیلت نہیں ثابت کرتے ہیں ۔ وہ کل اشیا کو ایک مخلوق اور ایک نور کی حیثیت سے برابر سمجھتے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لئے کوئی بلندی اور افضلیت نہیں ثابت کرتے ہیں۔ تو وہ ابتدا ہی سے تواضع کرنے والے ہیں۔ لہذا ان کی تواضع حقیقی اصلی ہے۔ اور جس شخص نے اپنے نفس کے لئے تو اضع ثابت کی اور یہ دیکھا کہ اس نے اپنے مرتبے سے گر کر تواضع کی ہے۔ وہ اس حیثیت سے متکبر ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر اپنے لئے زیادہ مرتبہ ثابت کیا۔ کیونکہ نفس کے لئے تواضع ثابت کرنا، اس بلندی اور فضیات کے لحاظ سے ہے جو اس کو پہلے سے حاصل ہے۔
لہذا اے فقیر یا انسان ! جب تم نے اپنے نفس کے لئے تواضع ثابت کی تو تم حقیقتا متکبر ہو۔ اور تم اس وقت تک تواضع کرنے والے نہیں ہو جب تک تم کل اشیا کو اپنی طرح ، یا اپنے سے بہتر نہ سمجھو۔ اگر تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے۔
حضرت ابو یز ید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ بند و جب تک مخلوق میں کسی کو اپنے سے براسمجھتا ہے، اس وقت تک وہ متکبر ہے۔ اور وہ اس وقت تک تواضع کرنے والا نہیں ہے ، جب تک وہ اپنے لئے کوئی حال یا مقام ثابت کرتا ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ جو شخص اپنے نفس کو کتے سے افضل سمجھتا ہے ، وہ متکبر اور اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ اور بندہ جس قدر اپنے آقائے حقیقی اللہ تعالیٰ کے مرتبے کی بلندی کی حقیقت تک پہنچتا ہے، اسی قدر تواضع اختیار کرتا ہے۔ اور نفس جب تک حقیقتا ذلت اور رسوائی سے موصوف نہیں ہوتا ہے، اس وقت تک وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا مشاہدہ نہیں کرتا ہے۔ اور چونکہ نفس کی پیدائش کی اصل ، کمزوری اور ذلت اور رسوائی ہے، اس لئے اپنے اصلیت کی طرف لوٹنے ہی میں نفس کی بھلائی ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ عزت اور مرتبہ کے دیکھنے سے نجات پا جاتا ہے۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ جس شخص نے دیکھا کہ اس کے نفس نے تواضع کیا ہے وہ تواضع کا محتاج ہے۔ اگر چہ وہ نفس سے آزاد ہو چکا ہو اور جو شخص نفس کو اس کے مرتبے سے گرادیتا ہے، وہ تواضع کرنے والا ہو جاتا ہے۔
حدیث شریف میں حضرت رسول کریم ﷺ سے روایت ہے :-
إِنَّمَا الْكَرَمُ التَّقْوَى، وَإِنَّمَا الشَّرْفُ التَّوَاضُعُ ، وَإِنَّمَا الْغِنَى الْيَقِينُ ، وَ الْمُتَوَاضِعُونَ فِي الدُّنْيَا هُمُ اصْحَابُ الْمَنَابِر يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدِ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ، وَ لَا يَزِيدُ التَّوَاضُعُ لِلْعَبدِ إِلَّا رَفْعَةٌ ، فَتَوَاضَعُوا لِيَرْفَعَكُمُ اللَّهُ ، وَإِذَا رَأَيْتُمُ الْمُتَوَاضِعِينَ مِنْ أُمَّتِي فَتَوَاضَعُوا لَهُمْ ، وَإِذَا رَأَيْتُمُ الْمُتَكَبِرِينَ مِنْ أُمَّتِي فَتَكَبَّرُوا عَلَيْهِمْ فَإِنَّ ذَالِكَ مَذَّ لَۃُ لَهُمْ وَصَغَارٌ بِهِمُ
در حقیقت کرم ، تقویٰ ہے۔ اور شرف، تواضع ہے۔ اور غنایقین ہے اور دنیا میں تو اضع کرنے والے ، قیامت کے دن منبروں پر رونق افروز ہوں گے ۔ جب بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ساتویں آسمان تک بلند کرتا ہے۔ اور تواضع بندے کے مرتبے کو بلند کرتا ہے۔ لہذا تم لوگ تو اضع اختیار کرو۔ تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مرتبہ کو بلند فرمائے ۔ اور جب تم میری امت کے تواضع کرنے والوں کو دیکھو تو تم ان کے سامنے تواضع اختیار کرو۔ اور جب تم میری امت کے تکبر کرنے والوں کو دیکھو تو تم ان کے سامنے تکبر ظاہر کرو ۔ کیونکہ ایسا کرنے میں ان کی ذلت اور توہین ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی :۔ میں اس شخص کے عمل کو قبول کرتا ہوں، جو میری عظمت کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے ۔ اور میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ہے اور اپنے قلب میں میرے خوف کو لازم کر لیتا ہے اور میرے ذکر میں دن گزارتا ہے۔ اور میرے لئے اپنے نفس کو خواہشات سے روک لیتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں