خواص الخو اص کا مقام

خاتمہ کے عنوان کا دوسراحصہ خواص الخو اص کا مقام ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تیسری قسم کے لوگوں یعنی خواص الخو اص کا مقام بیان فرمایا۔

وَفَرِحَ بِاللَّهِ ، مَا شَغَلَهُ مِنَ الْمِنَنِ ظَاهِرُ مَتْعَتِهَا وَلَا بَاطِنُ مِنَّتِهَا اور وہ لوگ یعنی خواص الخو اص اللہ تعالیٰ سے خوش ہوتے نہ احسان کا ظاہری فائدہ ان کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرتا ہے، یہ باطنی احسان۔ میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں۔ احسانات کا ظاہری فائدہ بشریت کا فائدہ ہے اور وہ محسوس لذت ہے اور وہ پہلے مقام والے غافلین  عوام کا حال ہے۔ اور احسانات کا باطنی فائدہ منعم حقیقی کا ذکر اور اس کی طرف بڑھنا ہے اور دوسرے مقام والے خواص کا حال ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تیسرے مقام والے خواص الخواص کے حال کی طرف اشار و فر مایا ۔

بل شغَلَهُ النَّظَرُ إِلَى اللهِ عَمَّا سِوَاهُ مِنَ الْمَتْعَةِ الْحَسِيَّة أَوِ الْمَعْنَوِيَّةِ وَ شَغَلَہُة  الْجَمْعُ عَلَى اللَّهِ بِالتَوَكَّلِ عَلَيْهِ فَكَفَاہُ شُئُوْنَهُ وَأُمُورَہُ حَتَّى لَم يَبْقَ لَهُ اهْتِمَام ٌبِغَيْرِ مَوْلَاهُ ، بَلْ أَغْنَاهُ بِهِ عَمَّا سِوَاهُ فَلَا يَشْهَدُ إِلَّا إِيَّاهُ وَلَا يُحِبُّ شَيْئًا سِوَاهُ بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ اس کے ماسوا ظاہری یا باطنی فوائد سے غافل کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر جمع ، ان کو اللہ تعالیٰ پر توکل میں مشغول کر دیتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ ان کے تمام حالات اور معاملات میں ان کیلئے کافی ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غیر اللہ کے ساتھ ان کو کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے ساتھ مشغول کر کے اپنے ماسوا سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔ لہذاوہ اس کے سوا نہ کسی شے کو دیکھتے ہیں نہ اس کے سوا کسی شے سے محبت کرتے ہیں۔ اور بعض نازل شدہ آسمانی کتابوں میں جو باتیں پائی گئی ہیں ان میں سے یہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندے ! اگر تو میری اطاعت کرے گا ، تو میں تیری سر پرستی کروں گا اور اگر تو مجھ سے ڈرے گا، تو میں تجھ کو اپنے قریب کرلوں گا۔ اور اگر تو مجھ سے شرم کرے گا تو میں تیرے اوپر بخشش کروں گا ۔ اور تجھ کو بزرگی عطا کروں گا ۔ اور اگر تو میری اوپر توکل کرے گا تو میں تیرے لیے کافی ہوں گا ۔ اور اگر تو میری نافرمانی کرے گا تو میں تجھ کو عذاب دوں گا لیکن تیرے لیے میر اعذاب تیری ہی وجہ سے ہے۔ (تیری نافرمانی و بد اعمالی کی وجہ سے ہے )۔ میرا مرتبہ بہت بلند اور میر افضل بہت بڑا ہے۔

اے میرے بندے ! میں تیرے ان عیوب کو بخوبی جانتا ہوں ، جو اگر تیری بیوی کو معلوم  ہو جا ئیں تو وہ تجھ سے طلاق کا مطالبہ کرے اور اگر وہ تیرا غلام جان لے تو تجھ سے آزادی طلب کرے اور اگر تیرا باپ معلوم کر لے تو تجھ سےجدا ہونا اس کیلئے آسان ہو جائے ۔ اے میرے بندے ! اگر تو یہ کہتا ہوا میرے پاس آئے کہ میں نے خطا کیا یابرا کیا۔ تو میں تجھ کو یہ جواب دوں گا کہ میں نے تجھ کو معاف کردیا اور اگر تو کہے کہ میں نے توبہ کی تو میں جو اب ہوں گا کہ میں نے قبول کیا۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس تیسری قسم یعنی خواص الخواص کی شہادت پیش فرمائی:

قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي حَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ    آپ اللہ کا ذکر کیجئے ، اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے ، وہ اپنے وہم و خیال میں کھیلتے رہیں

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ کہنے سے مراد : – دل کا کہنا ہے۔ یعنی تم تمام اشیاء میں اللہ تعالیٰ کی یاد کرو ۔ اس طرح کہ یہ فنا ہو جائیں گی اور صرف ان کا خالق اللہ تعالیٰ باقی رہے گا ، پھر تم لوگوں کو ان کے وہم وخیال میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو۔

اور تمام اشیاء میں وہ نعمتیں بھی ہیں، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تجلی ظاہر ہوتی ہے۔ لہذا جب وہ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے گا، تو وہ اللہ تعالیٰ کے شہود میں ان اشیاء سے غائب ہو جائے گا پھر وہ  اللہ تعالیٰ میں مشغول ہو کر اس کے ماسوا سے غائب ہو جائے گا۔

حضرت شبلی نے فرمایا ہے۔ شکر منعم حقیقی کا دیکھنا ہے نعمت کا دیکھنا شکر نہیں ہے۔

حضرت ابو محمد جریر نے فرمایا ہے:۔ جس شخص نے نعمتوں کو دیکھا اور منعم حقیقی کو نہیں دیکھا ۔ وہ شکر ادا کرنے سے رک گیا۔ اور جس نے نعمتوں کو نظر انداز کر کے منعم حقیقی کو دیکھا۔ اس نے منعم حقیقی کا شکر ادا کیا۔

تنبیہ: اکثر صوفیائے کرام اس آیت کریمہ سےہر شے سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف منفرد ہو جانے اور غیر اللہ سے غائب ہونے پر استدلال کرتے ہیں لیکن یہ تغییر اشارہ ہے۔ لفظ کے معنی کی ظاہری تفسیر نہیں ہے کیونکہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کی تردید میں نازل ہوئی ہے، جبکہ انہوں نے کہا:۔

مَا اَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی بھی ( کوئی کتاب ) نہیں نازل کی

تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:-

قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى    آپ ان سے کہئے، وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جس کو لے کر موسیٰ علیہ السلام آئے تھے۔

پھر جب یہودیوں نے جواب نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے فرمایا ۔ کہیے اللہ یعنی ان سے کہیے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نازل فرمایا ، پھر ان سے بحث نہ کیجئے، بلکہ ان کو چھوڑ دیجئے ، وہ اپنے وہم و خیال میں کھیلتے رہیں۔

صوفیائے کرام ظاہر کو اس کے ظاہر پر قائم رکھتے ہیں اور اس سے پوشیدہ اشارے حاصل کر لیتے ہیں اور ان کے سوا دوسرے لوگ ان کا مفہوم نہیں سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض مفسرین نے ان  کی تردید کی ہے کیونکہ انہوں نے ان کا مقصد نہیں سمجھا ہے۔

قَدْ عَلِمَ كُلُّ انَّاسٍ مَّشْرَ بَهُمْ ہر شخص نے اپنے پینے کا گھاٹ معلوم کر لیا ہے

اسم ذات کا صرف زبانی ذکر اس میں تین قول ہیں

لیکن اسم ذات اللہ کا ذکر صرف زبان سے کرنا تو اس بار ے میں تین اقوال ہیں

پہلا قول: یہ ہے، کہ بالکل جائز ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بالکل مکروہ ہے۔ تیسرا قول: یہ ہے کہ علیحدہ علیحد و حکم ہے۔

انتہادالوں کیلئے جائز ہے۔ اور ا بتداء والوں کیلئے جائز نہیں۔ لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے یعنی یہ بالکل جائز ہے۔ اور یہی  طریقہ شاذ لیہ اور ان سے متعلق حضرات کا معمول ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔

اور جبکہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس سے استدلال کیا جو ہماری کتاب قرآن مجید میں ہے۔ تو اس کا بیان بھی فرمایا، جو ہم سے پہلے کی نازل شدہ کتاب میں ہے چنانچہ فرمایا۔

وَقَدْ أَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا دَاؤُدُ قُلْ لِلصِّدِّ يْقِيْنَ بيِ ْفَلْيَفْرَحُوْا وَ بِذِکْرِیْ فَلْیَتَمَتَّعُوْا          اور اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کی طرف وحی نازل فرمائی  اے داؤد  آپ صدیقین سے کہہ دیجئے ۔ وہ مجھ سے خوش ہوں اور میرے ذکرسے فائدہ حاصل کریں۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے فرحت و خوشی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی ہے جب تک کہ قلب اس کے ماسوی کی محبت سے پاک نہ ہو جائے ۔ لہذا جب تک بندہ ماسوی میں سے کسی شے کے ساتھ متعلق ہوتا ہے۔ اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشی مکمل نہیں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس کو پورا فائد ہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔

یا تم اس طرح کہو :۔ روح جب تک جسم کے قید خانے میں مقید ہوتی ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی خوشی مکمل نہیں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس کو پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ لہذا جب وہ جسم کی قید سے اور مخلوقات کی غلامی سے آزاد ہو جاتی ہے تو اللہ واحد منان کے ساتھ اس کی خوشی مکمل ہو جاتی ہے۔ اسی سے متعلق ایک عارف کے اشعار ہیں ۔

أَنتُم سُرُورِي وَأَنتُمْ مُشْتَكَى اَلَمِي      وَأَنْتُمْ فِي ظَلَامِ اللَّيْلِ أَقْمَارِي

تم میری خوشی ہو ، اور تم میرے درد کی دوا ہو، اور تم رات کی تاریکی میں میر سے چاند ہو

فَإِن نَطَقْتُ فَلَمُ اَنْطِقْ بِغَيْرِكُمْ                       وَإِنْ صَمَتُ فَاَنْتُمْ عِقْدُ إِضْمَارِي

لہذا اگر میں بات کرتا ہوں تو تمہارے غیر کے ساتھ نہیں کرتا ہوں اور اگر میں خاموش رہتا ہوں تو میری خاموشی کی گرہ تم ہی ہو

اور یہی حقیقی فرحت اور اصلی سرور ہے، اور اس کے سوا اغراض کی خوشی ہے۔

حضرت مقدسی نے فرمایا ہے :۔ سرور ، فرحت سے اوپر ہوتا ہے کیونکہ فرحت اکثر اس غم سے ختم ہو جاتی ہے جو اس کے سامنے آتی ہے لیکن سرور کی حالت میں کوئی غم محسوس نہیں ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے بیان کیا ہے۔ فرحت اور سرور دونوں ایک شے ہیں۔

سرور کی تین اقسام

بعض بزرگوں نے فرمایا ہے :۔ سرور کی تین قسمیں ہیں ۔

ابتداء اور وسط اور انتہا

سرور کی ابتداء یہ ہے، کہ اس حالت میں جدائی کا خوف اور جہالت کی تاریکی ختم ہو جاتی

سرور کا وسط یعنی درمیان یہ ہے، کہ اس حالت میں علم کا حجاب دور ہو جاتا ہے اور تکلیف کی غلامی مٹ جاتی ہے اور تدبیر و اختیارختم ہو جاتا ہے۔

سرور کی انتہا یہ حالت وحشت کے آثار کو مٹادیتی ہے اور مشاہدہ کے دروازے کو کھٹکھٹاتی ہے اور تجلی کی بشارت کیلئے روح کے چہرے کو بشاش (ہنس مکھ )بنا دیتی ہے۔

لہذاسرور کی ابتداء میں تصدیق حاصل ہوتی ہے اور اس کے وسط میں انسیت حاصل ہوتی ہے اور اس کی انتہا میں جمیع اور وصال حاصل ہوتا ہے۔

سرور کی اقسام ثلثہ کی مثال

ایک عارف نے سرور کی تینوں قسموں کی مثال بیان کی ہے۔ یعنی ایک وہ شخص ہے جو نعمتوں سے اس وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ اس میں اس کی خواہش پوری ہوتی ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے۔ اس وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ وہ نعمتوں میں نعمت دینے والے کا احسان دیکھتا ہے اور تیسر اور شخص ہے جو صرف نعمت دینے والے سے خوش ہوتا ہے۔ ان عارف نے فرمایا۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ تین اشخاص بادشاہ کے پاس گئے ۔

بادشاہ نے ہر شخص کو ایک گھوڑ اور ایک تلواردی۔ تو ایک شخص نے کہا ۔ ہم اس گھوڑے سے فائدہ حاصل کریں گے۔ اور اپنی حاجتیں پوری کرنے کیلئے ہم اس پر سوار ہوں گے اور ہم اس پر سوار ہو کر اپنے دشمن سے جنگ کریں گے۔ تو وہ اس سے اس لیے خوش ہوا کہ اس میں اس کے فوائد حاصل ہوں گے ۔ اور اس کی خواہش پوری ہوگی۔ اس کے دل میں بادشاہ کی محبت نہیں ہے بلکہ صرف اپنی حاجت پوری کرنے کیلئے اس کے پاس آیا۔دوسرے شخص نے کہا ہم باد شہ کی خدمت کیلئے اور اس کے پاس حاضر ہونے کیلئے اور ان کے دشمن سے جہاد کرنے کیلئے اس گھوڑے سے  مدد لیں گےتووہ گھوڑے سے اس لیے خوش ہوا کہ باد شاہ کی ضروریات اور فوائد کیلئے نہ کہ اپنی ذات کی حاجتوں کیلئے گھوڑے سے مدد لے گا۔

تیسرے شخص نے کیاباد شاہ میری اتنی محبت اور تعظیم کرتا ہے کہ اس نے مجھ کو یہ گھوڑاعطا فرمایا۔ اور یہ کہ میرے اوپر بادشاہ کی خاص توجہ ہے تو وہ گھوڑے سے اس لیے خوش ہوا کہ وہ بادشاہ کی محبت اور توجہ کی دلیل ہے یہ تینوں قسموں کی مثال ہے۔

حضرت امام غزالی نے اس کے متعلق باب شکر میں تفصیل کے ساتھ بحث فرمائی ہے اگر تم چاہتے ہو تو اس کا مطالعہ کرو۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے مکتوب کو مناسب دعا کے ساتھ ختم کیا، چنانچہ فرمایا۔

وَاللهُ يَجْعَلُ فَرَحْنَا وَإِيَّاكَ بِهِ أَیْ دُونَ غَيْرِهِ اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری   خوشی کو اپنے ساتھ بنائے اپنے غیر کے ساتھ نہ بنائے یعنی ہم اس کے سوا کسی شے سے خوش نہ ہوں۔

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا مخاطب وہ ہے جس کے پاس انہوں نے یہ مکتوب روانہ کیا ۔ یا ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اس کتاب کا مطالعہ کرے یا اس کو یاد کرے یا اس پر عمل کرے یا اس کو سنے یا اس کے سامنے  پڑھی جائے۔ اور جب ہماری خوشی تنہا اسی کے ساتھ متعلق ہو جائے گی تو ہم اس تیسری قسم میں شامل ہو جا ئیں گے جو خواص الخواص کا مقام ہے۔ اور جس شخص کی خوشی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا۔

وَبِالرَّضىٰ مِنْهُ ور ہماری خوشی اپنی رضا مندی کے ساتھ جائے

یعنی ہماری خوشی کو اپنی رضا مندی کے ساتھ اس طرح وابستہ کردے کہ ہم اس کی رضامندی کے سوا کسی شے سے راضی  نہ ہوں۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سےراضی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

رضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوعَنهُ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور  وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔

اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے قلعے میں پناہ لی ، وہ ایک مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہو کر غفلت سے محفوظ ہو گیا۔ اس لیے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-

وَأَنْ لَّا يَجْعَلَنَا مِنَ الْغَافِلِينَ  اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم کو غافلین میں سے نہ بنائے   یعنی ان لوگوں میں سے جو منعم حقیقی کے شہود سے خوش ہونے کی بجائے نعمتوں سے خوش ہوتے ہیں۔

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی دعا نزول کے طریقے پر تینوں قسموں کو شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوشی تیسرا مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے خوشی :۔ دوسرا مقام ہے اور پہلے مقام سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری )  نے پر ہیز کیا ہے کہ وہ ہم کو اس میں سے نہ بنائے ۔ اور جب بندہ غفلت سے نکل جاتا ہے تو وہ بیدار و ہوشیار ہو جاتا ہے اور بیداری ہی تقوی ہے جس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اشارہ فرمایا ہے۔

وَأَنْ يَسْلُكَ بِنَا مَسْلَكَ الْمُتَّقِينَ اور اللہ تعالیٰ ہم کو متقین کے راستے پر چلائے   یعنی ان لوگوں کے راستے پر جنہوں نے پہلے شرک اور گناہوں سے پر ہیز کیا اور دوسری مرتبہ خواہشوں اور عادتوں سے پر ہیز کیا اور تیسری مرتبہ ماسوی اور غیر سے پر ہیز کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی معنی ہے:۔

لَیْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ التَّقَوْا وَّامَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَاحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے اوپر اس میں کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے کھایا۔ جبکہ وہ تقوی اختیار کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں ۔ پھر وہ تقوی اختیار کریں اور ایمان لائیں۔ پھر وہ تقوی اختیار کریں اور احسان کریں ، اور اللہ تعالیٰ احسان والوں کو دوست رکھتا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں