خواہش کی پیروی کی علامات (اکیسواں باب)

خواہش کی پیروی کی علامات کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 193 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسرا میزان بیان فرمایا ۔ جس کے ذریعے خواہش کی پیروی میں حق و باطل کو پہچانا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔
193) مِنْ عَلاَمَاتِ اتِّبَاعِ الْهَوَى الْمُسَارَعَةُ إِلَى نَوَافِلِ الْخَيْرَاتِ ، وَالتَّكَاسُلُ عَنِ الْقِيَامِ بِالْوَاجِبَاتِ .
خواہش کی پیروی کی علامتوں میں سے نفل عبادتوں کی طرح بڑھنا ہے اور فرائض اور واجبات کےساتھ قائم ہونے سے سستی اور غفلت کرنی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ حق و باطل کو پرکھنے کے لئے یہ دوسرا میزان ہے۔ اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہہ سکتے ہو ۔یہ پہلے میزان میں داخل ہے۔ کیونکہ نفس کی شان یہ ہے کہ اس پر واجب گراں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ اور چونکہ فرائض اور واجبات کو بہت سے لوگ ادا کرتے ہیں ، اس لئے نفس کو اس کے ادا کرنے میں دوسرے لوگوں پر فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ خصوصیت تلاش کرتا ہے:۔ بخلاف نوافل کے کہ نفس ان کی طرف دوڑتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ ان کو تنہا ادا کرے۔ اور اس کو نوافل کے ادا کرنے میں یا تو مدح وثنا کی خواہش ہوتی ہے یا حور و قصور کی اجر طلب کرنے کے لئے اس کی طرف بڑھتا ہے اور یہ سب کا سب محققین عارفین کے نزدیک نفس کے ظاہری اور پوشیدہ فوائد میں سے ہیں۔ لہذانفل نیکیوں اور عبادتوں کے فضائل کی طرف بڑھنا فرائض اور واجبات سےغفلت اور کاہلی کرنے کے باوجود خواہش نفسانی کی علامات میں سے ہے۔ لہذ ا فرائض اور واجبات کو مقدم رکھنا ، انسان پر واجب اور فرائض پر انہیں سنتوں اور نفلوں کو مقدم کرے ، فرائض کو کامل کرنے کے لئے ہیں۔ جیسا کہ فرض سے پہلے اور اس کے پیچھے جو نفلیں مقرر کی گئی ہیں دہ صرف اس لئے ہیں کہ ان سے فرائض میں حضور قلب حاصل ہونے میں مدد ملے۔ کیونکہ اگر حضور قلب حاصل ہو جائے تو انسان وسیلے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور ہمارے نزدیک سب سے بڑی نفل عبادت: فکر ونظر کے درمیان اپنے مولائے حقیقی کے مشاہدہ میں غرق ہو جانا ہے۔ یا اس مذا کرہ ، یا ذکر میں غرق رہنا ہے، جو مشاہدہ کے مقام تک پہنچاتا ہے۔ لہذا جس نے دنیا کو پورے طور پر چھوڑ دیا اور اپنے نفس اور جنس سے غائب ہو گیا ۔ اس نے کل فرائض اور نو افل کو جمع کر لیا۔ اگر چہ اس نے رات سوکر، اور دن کھا کر گزارا ہو۔ بعض اخبار میں سیدنا حضرت داؤد علیہ السالم کے متعلق منقول ہے۔ انہوں نے عرض کیا:۔ اے میرے رب ! میں تجھ کو کہاں تلاش کروں؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا ۔ اپنے نفس کو چھوڑ دو۔ اور میرے پاس آجاؤ۔ یعنی تم اپنے نفس سے گم ہو جاؤ تو مجھ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ اپنے قریب پاؤ گے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
تم صرف ایک ورد اپنے اوپر لازم کرو ۔ اور وہ ورد :- خواہش نفسانی کو ختم کر کے مولائے حقیقی سےمحبت کرنی ہے۔وبالله التوفيق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں