دائمی فرحت کے عنوان سےچوبیسویں باب میں حکمت نمبر 226 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے ۔
226) لِيَقِلَّ مَا تَفْرَحُ بِهِ يَقِلُّ مَا تَحْزَنُ عَلَيْهِ .
جب وہ شے کم ہو گئی جس سے تم کو خوشی ہوتی ہے۔ تو وہی کم ہوگی جس کے کھو جانے سے تم کو غم ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری خوشی ہمیشہ قائم رہے، تو تم کسی ایسی شے کے مالک نہ بنو ، جس کے کھو جانے پر تم کو غم ہو ۔ اس لئے کہ اس کے کھو جانے پر تمہارا غم اس بات کی دلیل ہے کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔ لہذا اگر تم مال ، یا مرتبہ، یا عزت یا اس کے علاوہ دوسری چیزوں میں سے اپنی ضرورت اور حاجت کم کرو گے، تو تم کھو جانے والی شے نہ پاؤ گے ، کہ تم اس کے لئے غم کرو۔
کسی عارف سے دریافت کیا گیا ۔ آپ غم کیوں نہیں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ۔ اس لئے کہ میں ایسی شے اپنے پاس رکھتا ہی نہیں ہوں ، جو مجھ کوغم میں مبتلا کرے۔ اس کے بارے میں کسی عارف کے یہ اشعار میں ۔
وَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ لَّا يَرَى مَا يَسُوءُ فَلَا يَتَّخِذُ شَيْئًا يَخَافُ لَهُ فَقْدا
جس شخص کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایسی شے نہ دیکھے جو اس کو غم میں مبتلا کرے ۔ اس کو چاہیئے کہ ایسی کوئی شے نہ حاصل کرے، جس کے کھو جانے کا خوف ہو۔
فَإِنَّ صَلَاحَ الْمَرْءِ يَرْجِعُ كُلُّه فَسَادًا إِذَا الْإِنْسَانُ جَازَبِهِ الْحَدَّا
کیونکہ انسان کی ہر خوبی عیب بن جاتی ہے، جبکہ وہ اس میں حد سے بڑھ جاتا ہے۔
حکایت – ایک بادشاہ کی خدمت میں جواہرات سے مرصع فیروزہ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ جس کے مثل دوسرا نہ تھا۔ بادشاہ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ اس نے ایک درباری حکیم سے پوچھا ۔ آپ کی نگاہ میں یہ پیالہ کیسا معلوم ہوتا ہے؟ حکیم نے جواب دیا ۔ میں اس پیالے کو آپ کے لئے ایک مصیبت اور محتاجی سمجھتا ہوں۔ بادشاہ نے پوچھا:۔ یہ کیسے ؟ حکیم نے کہا ۔ اگر یہ ٹوٹ گیا، یا گم ہو گیا تو یہ ایک ایسی مصیبت ہو گی جس پر آپ کو صبرنہ ہوگا۔ اور اگر چوری ہو گیا تو آپ اس کے لئے محتاج ہوں گے ۔ اور اس کی طرح دوسرا پیالہ آپ پائیں گے نہیں۔ اور آپ کے پاس اس پیالہ کے آنے سے پہلے آپ مصیبت اور محتاجی سے محفوظ تھے ۔ پھر اتفاقا ایک دن وہ پیالہ ٹوٹ گیا۔ اور اس کا ٹوٹنا بادشاہ کیلئے ایک بڑی مصیبت بن گئی ۔ تو بادشاہ نے کہا: ۔ حکیم نے سچ کہا تھا۔ کاش ، یہ پیالہ ہمارے پاس نہ لایا گیا ہوتا۔
اور یہاں اس سے بہتر ایک دوسرا میزان بھی ہے :-
اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے نفس سے آزاد ہو گئے۔ اور اس کو اپنے رب تعالیٰ کے قضا و قدر کے تیروں کے نشانے پر پیش کر دیا، تو اب جو کچھ بھی وہ تمہارے ساتھ کرے گا۔ تم اس سے مخالفت نہ کرو گے ۔ اور اس طرح یقینی طور پر تم کو آرام ملے گا ۔ اور تم ہمیشہ خوش رہو گے۔ اس لئے کہ اب تم اس کے منتظر رہو گے، جو تمہارے محبوب حقیقی کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ پھر تم خوشی سے مرحبا کہتے ہوئے اس سے ملاقات کرو گے۔ اور یہیں رضا و تسلیم کی ٹھنڈک کی شیرینی ہے ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی حضرت قطب العالم شاہ کلیم اللہ جہان آبادی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی
ارشاد المرشد