دوری کا سبب(مناجات 17)

یہ سترہویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

سترہویں مناجات

  إِلٰهِي تَرَدُّدِى فِي الْآثَارِ يُوْجِبُ بُعْدَ الْمَزَارِ ، فَاَجْمِعْنِي عَلَيْكَ بِخِدْمَةٍ تُؤْصِلْنِي اِلَیْکَ
اے میرے اللہ مخلوقات میں میرا تردد، تیری زیارت گاہ سے دور ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ لہذا تو مجھ کو ایسی خدمت کے ساتھ اپنی طرف جمع کر (یعنی ایسی خدمت کی توفیق عطا فرما ) جو مجھ کو تیرے پاس پہنچادے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں۔ مخلوقات میں تردد: اس کے ثابت اور نفی کرنے میں شک اور فکر ہے۔ اور یہ مستشرفین یعنی سائرین کا حال ہے۔ پس جب وہ اس کو مستقل طور پر ثابت کرتا ہے تو وہ فرق یعنی بعد ( دور ہونا ) کی حالت میں ہوتا ہے۔ اور جب وہ اس کی نفی کرتا ہے۔ تو وہ جمع کی حالت میں ہوتاہے۔لہذا وہ ہمیشہ اس طریقے پر جمع کی طلب کرتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کی اثبات اور نفی میں اس کو کوئی تردد نہ رہے۔ اور یہی بقاء کا مقام ہے۔
لہذا مخلوق کو ہمیشہ نفس کے ساتھ ثابت کرنا ، یہ ہمیشہ بعد ہے۔ اور یہ عوام میں سے اہل حجاب کا مقام ہے۔
اور مخلوق کی ہمیشہ نفی کرنا ، یہ اہل فناو جذب میں سے اہل جمع کا مقام ہے ۔ اور مخلوق کی نفی کرنا، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کرنا ، یہ حکمت اور قدرت کے وظائف کے ساتھ قائم رہنے ، اور حقیقت و شریعت کے درمیان جمع ہونے کے اعتبار سے اہل بقاء کا مقام ہے۔ اور یہ مناجات صرف اہل استشراف یعنی سائرین ہی کے لائق ہے۔ اور اگر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) سائرین اور واصلین اور متمکنین کی مناجاتیں بیان کرنے کا ارادہ کرتے ۔ تو وہ اس مناجات کے بعد جو سائرین کے لئے ہے یہ فرماتے:
اے میرے اللہ ! انوار میں میری سیر، مسار ( جس کی طرف سیر کی جائے ) کے قرب کا سبب ہوتی ہے۔ لہذا تو مجھ کو ایسی فکر کے ساتھ اپنی طرف جمع کر جو مجھ کو تیرے پاس پہنچا دے۔ اور یہ رسوخ وتمکین سے پہلے واصلین کی مناجات ہے۔
پھر یہ فرماتے:۔ اے میرے اللہ ! اسرار میں میری سیر، مسار کے وصل کا سبب ہوتی ہے۔ لہذا تو مجھ کو ایسی نظر کے ساتھ اپنی طرف جمع کر جو مجھ کو تیرے سامنے قائم کر دے۔ اور یہی جمع کی انتہا ، اور نظر کا تمکن ، اور بارگا ہ قدس کا دائمی شہود ہے۔ اور اس کا مزہ صرف وہی شخص چکھتا ہے جس کی خدمت سبقت کر گئی ۔ اور جذب کی عنایت اس کے شامل ہوگئی ۔ لہذاوہ کامیاب ہونے والوں ، اور اپنے محبوب کے واصلین میں سے ہو گیا۔
منقول ہے : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے اور میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ تو اس کو اپنے دروازے سے بھگا دیتا ہے ۔ پھر اس کو حجاب دور کرنے کی مشقت میں مشغول کر کے اپنے سے غافل کر دیتا ہے حالانکہ اس کو حجاب دور کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے اور لاحول ولاقو و الا باللہ کے یہی معنی ہیں لیکن نا مرد مباشرت کی لذت نہیں پاسکتا ہے اور اندھا میدانوں اور زمینوں کی وسعت کو محسوس نہیں کر سکتا ہے۔ منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر جمع شدہ لوگوں میں سے بعض حضرات نے اپنے مقام سے پوشیدہ رہنے کا ارادہ کیا۔ تو جب کسی شے کے متعلق ان سے دریافت کیا جاتا ۔ تو وہ فرماتے ھو وہ ۔ تو ان سے دریافت کیا گیا: ھو سے شاید آپ کی مراد، اللہ تعالیٰ ہے ۔ پس وہ مردہ ہو کر گر گئے اور اس مقام کو حضرات صوفیائے کرام کی اصطلاح میں جمع الجمع کہتے ہیں۔
اور یہ مقام خواص الخو اص کے لئے مخصوص ہے۔
اور بیان کیا گیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے لئے مخصوص ہے۔
اور بیان کیا گیا ہے ۔ مرسلین علیہم السلام کے لئے مخصوص ہے ۔
اور بیان کیا گیا ہے ۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کیلئے مخصوص ہے۔ اور کونین سے ہمت اٹھا لینے ، اور دارین سے قدم نکال لینے کے بغیر اس مقام تک رسائی ناممکن ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے:۔ میرے سامنے دنیا اس کی آرائش اور زینت کے ساتھ پیش کی گئی ۔ لیکن میں نے اس سے منہ پھیر لیا۔ پھر میرے سامنے جنت اس کے حور و قصور اور لباسوں کے ساتھ پیش کی گئی ۔ لیکن میں نے اس سے بھی منہ پھیر لیا۔ تو مجھ سے کہا گیا:۔ اگر تم دنیا کے ساتھ مشغول ہو جاتے تو ہم تم کو آخرت سے محروم کر دیتے۔ اور اگر تم آخرت کی طرف متوجہ ہو جاتے تو ہم تم کو اپنی ذات سے محجوب کر دیتے۔ لہذا تم ہمارے ماسوی کو چھوڑ کر ہمارے ہی ساتھ راضی رہو ۔ اور دنیا و آخرت میں سے تمہارا حصہ تمہارے پاس پہنچے گا۔
ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پانی پر مصلی بچھا کر اس پر سفر کر رہا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ شخص کامیاب ہو گیا۔ اور میں نہ دنیا کے لائق ہوا نہ آخرت کے ۔ تو میں نے ہاتف کو یہ کہتے سنا۔ جو شخص دنیا اور آخرت کے لائق نہیں ہوا۔ وہی میرے لائق ہے۔ حضرت شطیبی نے فرمایا ہے، مخلوقات میں تردد اور ان کی طرف نظر کرنا ، ان اہل دلیل لوگوں کے لئے ہے جو ان کی طرف نظر کرنے کے لئے فرق کرتے ہیں ۔ تا کہ وہ ان کے ذریعے ان کے صانع پر استدلال کریں۔ لیکن اہل شہود مخلوق سے بے نیاز ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ظہور غیر اللہ کے ظہور سے زیادہ واضح ہے۔ بلکہ غیر اللہ کا مطلق وجودہی نہیں ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں