ذکر کی تین فضیلتیں (پچیسواں باب)

ذکر کی تین فضیلتیں کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 258 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ذکر کی فضیلتیں بیان فرما ئیں۔
(258) أَكْرَمَكَ بكَرَامَاتٍ ثَلاَث : جَعَلَكَ ذَاكِراً لَهُ وَلَوْلا فَضْلُهُ لَمْ تَكُنْ أَهْلاً لِجَرَيَانِ ذِكْرِهِ عَلَيْكَ ، وَجَعَلَكَ مَذْكُوراً بِهِ ، إِذْ حَقَّقَ نِسْبَتَهُ لَدَيْكَ وَجَعَلَكَ مَذْكُوراً عِنْدَهُ فَتَمَّمَ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ .
اللہ تعالیٰ نے تم کو تین فضیلتیں عطا فرمائیں۔ پہلی فضیلت یہ ہے کہ اس نے تم کو اپنا ذکر کرنے والا بنایا۔ اور اگر اس کا فضل و کرم نہ ہوتا، توتم اپنے اوپر اس کا ذکر جاری کرنے کے اہل نہ ہوتے ۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس نے تم کو اپنے ساتھ مذکور بنایا۔ اس لئے کہ اس نے اپنی نسبت تمہارے ساتھ ثابت کی۔ تیسری فضیلت یہ ہے کہ اس نے تم کو اپنے نزدیک مذکورہ بنایا لہذا اس نے اپنی نعمت میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اے انسان ! اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت سی فضیلتیں عطا فرما ئیں ، اور بے شمارتمہارے اوپر پوری کردی۔ نعمتیں تم کو بخشی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَإِنْ تَعُدُّو نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو، تو نہیں شمار کر سکتے ہو۔
اور سب فضیلتوں سے بڑی فضیلت ذکر کی فضیلتیں ہیں۔
حدیث شریف میں ہے۔ ما مِنْ يَوْمٍ إِلَّا وَلِلَّهِ فِيهِ نِعَمْ يُنْعِمُ اللَّهُ بِهَا عَلَى عِبَادِهِ، وَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى عَبْدٍ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ تُلْهِمَهُ ذِكْرَة
ہر دن میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ہیں جو وہ اپنے بندوں پر انعام کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو اپنے ذکر سے افضل کوئی نعمت نہیں عطا کی۔
یا حضرت رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہو۔ اس حدیث شریف کو حضرت منذری نے بیان فرمایا ہے۔
اور ذکر کے یہ فضائل تین ہیں۔ پہلی فضیلت :۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنا ذاکر بنایا ۔ ورنہ ایک ذلیل بندے کی کیا حیثیت ہے کہ ایک جلیل القدر آقا کا ذکر کرے۔ لہذا اگر تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا۔تو تم اپنی زبان پر اس کا ذکر جاری کرنے کے اہل نہ ہوتے۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ اس حیثیت سے مذکور بنایا۔ کہ جب تم اس کا ذکر کرتے ہو، تو وہ بھی تمہار ا ذ کر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (‌فَٱذۡكُرُونِيٓ ‌أَذۡكُرۡكُمۡ) تم لوگ مجھے یاد کرو۔ تو میں تم لوگوں کو یاد کروں گا۔ اور تمہارے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے سبب ، جب اللہ تعالیٰ نے تمہارا ذکر کیا۔ تو تمہاری خصوصیت اس کے پاس ثابت ہوگئی۔ لہذا اس سے بڑی فضیلت کیا ہے؟ کہ اس نے تمہارے لئےخصوصیت ثابت کر کے اپنی نسبت تمہارے ساتھ ثابت کر دی اور تم سے فرمایا: اے میرے ولی اور اے میرے صفی! ( مقبول اور مخلص ) لہذا اگر اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اپنا فضل و کرم نہ فرماتا۔ تو کہاں تم ، اور کہاں یہ نسبت ۔ (چہ نسبت خاک را با عالم پاک )
بعض مفسرین نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے: (وَلَذِكْرُ الله اكبر) اور البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا ہے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا ذکر کرنا، بندے کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے بہت بڑا ہے۔
تیسری فضیلت ۔ یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نزدیک مقربین فرشتوں میں تم کو مذکور بنایا۔
یعنی تمہارا ذ کر کیا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کی حدیث شریف میں ہے۔ انہوں نے حضرت نبی کریمﷺ سے روایت فرمائی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔
أَنَا ‌عِنْدَ ‌ظَنِّ ‌عَبْدِي ‌بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ‌ذَكَرْتُهُ ‌فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ‌ذَكَرْتُهُ ‌فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً
میں اپنے بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں، جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔ اور جس وقت وہ میرا ذکر کرتا ہے۔ اس وقت میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پھر اگر وہ میرا ذ کر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اپنے دل میں کرتا ہوں۔ اور اگر وہ میرا ذ کر کسی جماعت میں کرتا ہے۔ تو میں اس کا ذکر اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں کی جماعت ) میں کرتا ہوں۔ اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت کے برابر قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ کے برابر قریب ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ کے برابر قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دونوں ہاتھ پھیلانے کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں ۔
اور دوسری حدیث شریف میں ہے:۔ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِساً يَذْكُرُونَ اللَّهَ فِيهِ إِلَّا غَشِيَّتُهُم الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِم السَّكِيْنَةُ ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِي مَنْ عِنْدَهُ جب کوئی جماعت کسی مجلس میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اس جماعت میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہے یعنی فرشتوں کی جماعت میں ۔
حضرت یحیی بن معاذ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :۔ اے غافل !اے جاہل !اگر تم قلم چلنے کی آواز اس وقت سنتے ، جب وہ تمہار اذ کر لوح محفوظ میں لکھتا ہے۔ تو تم خوشی کی زیادتی سے مرجاتے۔
لہذا اگر تمہارے اوقات اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گذریں۔ تو تمہاری عمر دراز ہے۔ اگر چہ اس کی مدت کم ہو ۔ فرمایا ہے :-


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں